آیت 13، سورہ مبارکہ اسراء کی مجموعی آیات میں سے ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:«وَ كُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَ نُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً اقْرَأْ كِتابَكَ» اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے کا طوق بنا دیا ہے، اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب نکالیں گے جو وہ کھلی ہوئی پائے گا۔ (اس سے کہا جائے گا:) 'اپنی کتاب پڑھو۔'
اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہر انسان کے تمام اعمال، تفصیلات کے ساتھ، ایک کتاب میں درج کیے گئے ہیں، اور قیامت کے دن اگر وہ نیکوکار ہے تو اس کا نامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور اگر بدکار ہے تو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
یہ کتاب عام کتاب یا دستاویز نہیں ہے، اسی لیے کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ نامۂ اعمال دراصل "انسان کی روح" ہے جس میں تمام اعمال کے اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جو بھی عمل انجام دیتے ہیں، اس کا ہماری روح اور شخصیت پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
قرآنی آیات اور روایات میں نامۂ اعمال کی تفصیل اور تشریح کا بنیادی مقصد تربیتی اثرات پیدا کرنا ہے۔ جس شخص کو یہ علم ہو کہ ہر وقت ایک ریکارڈر اور کیمرہ اس کے اعمال اور اقوال کو ریکارڈ کر رہا ہے، چاہے وہ خلوت میں ہو یا جلوت میں، اس کے باطن اور ظاہر کو محفوظ کر رہا ہے اور بالآخر قیامت کے دن یہ تمام ریکارڈز ایک عظیم عدالت میں پیش کیے جائیں گے، تو یقیناً ایسا شخص اپنی زندگی میں احتیاط کرے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا۔
نامۂ اعمال پر ایمان، جس میں ہر چھوٹا اور بڑا عمل درج ہے، اور ان فرشتوں پر ایمان جو دن رات انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، قیامت کے دن جب یہ نامہ اعمال سب کے سامنے کھول دیا جائے گا اور تمام چھپے گناہ ظاہر ہو جائیں گے، یہ سب باتیں گناہوں سے باز رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اسی طرح نیکوکاروں کا نامۂ اعمال ان کے لیے باعثِ عزت اور فخر ہوگا، اور اس کا اثر عام ریکارڈنگ یا فلم سے بھی زیادہ ہوگا، اور یہی چیز نیکی کے اعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ البتہ بعض اوقات ایمان کی کمی یا غفلت کے حجاب کی وجہ سے انسان ان حقائق سے دور ہو جاتا ہے، ورنہ اس قرآنی حقیقت پر ایمان ہر انسان کی تربیت کے لیے کافی ہے۔
نامه اعمال کیسی کتاب ؟
Published in
منزل معرفت و اخلاق