صبر و استقامت كاميابى كا سرچشمہ اور مشكلات پر غلبہ كاراز ہيں _يہ خدا كے بے شمارو بے حساب اجر كے آب زلال كے چشمہ كى طرف رہنمائي كرتے ہيں اور ايسى طاقت ہے جس سے تنگ راستوں كو عبور كرنا سہل اور مصيبتوں كا مقابلہ كرنا آسان ہوجاتاہے_
لغت ميں صبر كے معنى شكيبائي ، بردبارى اور بلا و مصيبت پر شكايات كو ترك كرنے كے ہيں اسى طرح ٹھہرجانے اور ثابت قدم رہنے كا نام استقامت ہے (1)
صبر كے اصطلاحى معنى :
''ضد الجذع الصبر''و ہوثبات النفس و عدم اضطرابہا فى الشداءد والمصاءب ،بان تقاوم معہابحيث لاتخرجہا عن سعة الصدروماكانت
1) (فرہنگ معين مادہ صبر واستقامت)_
عليہ قبل ذلك عن السرور و الطمانينة ''(1)
صبرگبھراہت كى ضد ہے در اصل صبريعنى مصاءب و شداءد ميں نفس كے مطمءن رہنے اور ان كے مقابلہ ميں اسطرح ڈٹے رہناہے كہ پيشانى پرشكن تك نہ آنے پائے_
استقامت كے اصطلاحى معنى اس طرح بيان كئے گئے ہيں ''و ہى الوفاء بالعہود كلہا و ملازمہ الصراط المستقيم برعاية حدالتوسط فى كل الامور من الطعام والشراب واللباس و فى كل امر دينى و دنيوي''(2) تمام معاہدوں سے وفادارى اور ہميشہ صراط مستقيم كو اس طرح سے اپنائے رہنا كہ كھانے، پينے لباس اور تمام دينى و دنيوى امور ميں ميانہ روى ہو اس كا نام صبر و استقامت ہے_
خداوند عالم نے صبر كے نتاءج اور اس كى قدر و قيمت بتادينے كے بعد اپنےپيغمبر(ص) سے اس بات كى خواہش كى ہے كہ وہ بھى دوسرے نبيوں كى طرح صبر اختيار كريں_ ارشاد ہے :
''فاصبر كما صبر اولوالعزم من الرسل'' (3)
آپ بھى اس طرح صبر كريں جس طرح اولوالعزم پيغمبروں نے صبر كيا _
''فاصبر ان وعد اللہ حق ولا يستخفنك الذين لا يوقنون'' (4)
آپ صبر كريں، بے شك خدا كا وعدہ حق ہے اور وہ لوگ جو يقين كرنے والے نہيں
1) (جامع السعادت ج3ص280)_
2) (تعريفات جرجانى منقول از لغت نامہ دہخدا مادہ صبر)_
3) (احقاف 35)_
4) روم 60_
ہيں وہ آپ كو كمزور متزلزل نہيں كرسكتے_
''واصبر لحكم ربك فانك باعيننا'' (1)
آپ خدا كے حكم كے مطابق صبر كريں، بے شك آپ ہمارے منظور نظر ہيں_
''فاصبر صبراجميلاً ''(2)
آپ صبر جميل كريں_
رسول خدا (ص) كو دوسرے اولوالعزم پيغمبروں ہى كى طرح صبر كا حكم ہے اس لئے كہ نبوت كا دشوار گذار راستہ بغير صبر كے طے كرنا ممكن نہيں ہے _ جيسا كہ دوسرى آيت ميں بيان ہوا ہے كہ صبر نصرت خدا ہے اور دشمنوں كى طرف سے جو رسول خدا كو كمزور اور متزلزل قرار ديا جارہے ہے اسكا كوئي اثر نہيں لينا چاہيئے_
آنحضرت (ص) نے بھى تمام مصيبتوں، رسالت كى مشكلوں اور حادثات زندگى ميں صبر سے كام ليا اور صراطمستقيم پر ثابت قدمى كے ساتھ آپ نے پيغام الہى كى تبليغ كے راستہ ميں آنے والى تمام ركاوٹوں كو ہٹاكر اپنے لئے عبادت اور اطاعت كے پر مشقت راستوں كو ہموار كركے بشريت كى ہدايت كا راستہ كھول ديا_
1) طور 48_
2) معارج 5_
رسول خدا (ص) صابر اور كامياب
حادثات روزگار كى تيز ہوا ، جانكاہ مصاءب كے گرداب اور سياہ دل مخالفوں كى تكذيب كے مقابل تمام پيغمبروں كا جو طريقہ تھا اسى كا نام صبر ہے _
''و لقد كذبت رسل من قبلك فصبروا على ماكذبوا و اوذوا حتى آتاہم نصرنا'' (1)
بيشك آپ سے پہلے(پيغمبر اسلام (ص) سے ) جو رسول بھيجے گئے ان كو جھٹلايا گيا ان لوگوں نے جھٹلائے جانے اور اذيت پہونچائے جانے كے بعد صبر كيا يہاں تك كہ ہمارى نصرت ان تك پہونچي_
رسول اكرم (ص) بھى تمام پيغمبروںكى طرح اپنى رسالت كى تبليغ كے لئے پروردگار كى طرف سے صبر پر مامور تھے_
''فاصبر كما صبر اولوالعزم من الرسل ''(2)
صبر كيجئے جيسا كہ اولوالعزم پيغمبروں نے صبر كيا _
اس راستہ ميں دوسرے تمام پيغمبروں سے زيادہ تكليفيں آپ (ص) كو اٹھانى پڑيں، آپ (ص) خود فرماتے ہيں:
'' ما اوذى نبى مثل ما اوذيت فى اللہ '' (3)
1) انعام 34_
2) احقاف 35_
3) ميزان الحكم ج1 ص88_
راہ خدا ميں كسى پيغمبر كو اتنى اذيت نہيں پہونچى جتنى اذيت مجھے پہونچنى _
آخر كار آيہ كريمہ '' ان مع العسر يسرا '' (1) (ہر سختى كے بعد آسانى ) كے مطابق رسول اكرم (ص) نے فتح مكہ كے دن اپنے صبر كے نتاءج و آثار ديكھ لئے وہ دن جس كو قرآن اپنے لفظوں ميں اس طرح ياد كرتاہے '' اذا جاء نصر اللہ والفتح و رايت الناس يدخلون فى دين اللہ افواجا فسبح بحمد ربك و استغفرہ انہ كان توابا'' (2)
جس دن خدا كى مدد پہونچى اور كاميابى حاصل ہوئي اور آپ نے ديكھا كہ لوگ گروہ در گروہ دين خداميںداخل ہوئے چلے جارہے ہيں پس آپ حمدكے ساتھ اپنے پروردگار كى تسبيح كيجئے اور اسكى درگاہ ميں استغفار كيجئے، بيشك وہ بڑا توبہ قبول كرنے والا ہے _
رسول اكرم (ص) صبر كے سايہ ميں كاميابى كى منزل تك پہنچے' كعبہ بتوں كى نجاست سے پاك ہوگيا، بت پرستى ختم ہوئي اور پرچم توحيد لہرايا، يہ كاميابياں اس صبر كا نتيجہ تھيں جو حضرت (ص) نے راہ خدا ميں اختيار كيا تھا_
1) انشراح 6_
2) سورہ النصر_
مختلف قسم كى بہت سى مخالفتيں اور اذيتيں
كفار و مشركين نے رسول خدا (ص) كو آزار پہنچانے كيلئے طرح طرح كے حربے استعمال كئے، كبھى آپ(ص) كو ساحركاذب اور كاہن كہا گيا_زبان كے ذريعہ زخم پہونچاكر آپ كے دل كو تكليف پہونچائي گئي، كبھى جنگ برپا كرنے، دہشت گردى كے ذريعہ آپ (ص) كو ختم كردينے كيلئے ميدان ميں لوگ اتر آئے ليكن صابر پيغمبر (ص) نے ان كى بنائي ہوئي سازش كو نقش بر آپ كرديا اور كاميابى كے ساتھ اپنے الہى فريضہ كو پورا كرتے رہے_
زبانوں كے زخم
پيغمبر (ص) كى تعليمات كى روشنى مدہم كرنے اور آپ (ص) كو اذيت پہچا نے كے لئے مشركين نے جو شيطانى حربے اختيار كئے ان ميں سے ايك حربہ زبان كے ذريعہ زخم لگانا بھى تھا_
قرآن كريم نے مخالفين رسول (ص) كى آزار پہچانے والى بعض باتوں كو نقل كيا ہے ارشاد ہے:
''و قال الذين كفروا ہل ندلكم على رجل ينبءكم اذا مزقتم كل ممزق انكم لفى خلق جديد افترى على اللہ كذبا ام بہ جنة''(1)
اور كافروں نے (مزاق اڑاتے ہوئے) كہا : كيا تم كو ہم ايسے شخص كا پتہ بنائيں جو يہ
1) (سورہ صبا 8،7)
كہتاہے كہ تمہارے مرنے اور جسم كے ذرات كے بكھرجانے كے بعد تم كو زندہ كيا جائيگا كيا يہ شخص جان بوجھ كر خدا پر جھوٹا الزام لگاتاہے يا جنون اسكو اس بات پر مجبور كرتاہے_
'' و يقولون اءنا لتاركوا آلہتنا لشاعر مجنون'' (1)
وہ لوگ كہتے ہيں كہ كيا ہم اپنے خداؤں كو ايك ديوانہ شاعر كے كہنے كى بنا پر چھوڑ ديں_
''فذكر فما انت بنعمت ربك بكاہن و لا مجنون ام يقولون شاعر نتربص بہ ريب المنون ''(2)
بس تم ياد كرو كہ تم خدا كے فضل و نعمت سے نہ كاہن ہو اور نہ ديوانہ ہو _يا جيسا كہ لوگ كہتے ہيں كہ شاعر ہے تو ہم ان كى موت كے انتظار ميں ہيں_
رسول اكرم كے پاس آكر چند مشركين كے زبان سے ايذاء پہچا نے كے واقعہ كو اميرالمومنين (ع) نہج البلاغہ ميں بيان فرماتے ہيں :
'' اس دن جس دن قريش كا ايك وفد حضرت (ص) كے پاس آيا تو ميں آپ كے پاس موجود تھا ميں نے ان كى گفتگو سنى انہوں نے كہا : اے محمد(ص) آپ ايسى چيز كا دعوى كرتے ہيں جس كا دعوى نہ آپ كے آباء و اجداد نے كيا تھا اور نہ آپ كے خاندان نے اب جو ہم كہتے ہيں وہ آپ كر دكھايئےاگر آپ نے وہ كرديا اور ہم نے ديكھ ليا تو ہم سمجھ جائيں گے كہ آپ سچ مچ پيغمبر اور خدا كے بھيجے ہوئے ہيں اور اگر آپ اس كو نہ كرسكے تو ہم يہ سمجھ ليں گے كہ آپ جادوگر اور جھوٹے ہيں _
1) (صافات 36)
2) (طور 29_31)
رسول خدا نے فرمايا : كہو كيا كرنا ہے ؟ انہوں نے كہا ہم يہ چاہتے ہيں كہ اس درخت كو آپ اپنے پاس بلاليں اور يہ درخت جڑ سے اگھڑ كر آپ كے پاس آجائے حضرت نے فرمايا : خدا ہر كام كى قدرت ركھتا ہے ليكن اگر ميں تمہارى يہ خواہش پورى كردوں تو كيا تم ايمان لے آؤگے اور حق كى گواہى دوگے ؟ سب نے كہا ''ہاں'' آپ (ص) نے فرمايا : اب تم نے جو كہاہے وہ ميں كردكھاتاہوں ليكن مجھ كو اس بات كا اطمينان ہے كہ تم اس كے باوجود اسلام اور سچے قانون كو نہيں قبول كروگے_
ان لوگوں نے جس چيز كى فرمائشے كى تھى پيغمبر (ص) نے وہ كردكھائي ليكن انہوں نے اپنے كئے ہوئے وعدہ كے خلاف كہا نہيں يہ جادوگر اور چھوٹا ہے ، جادوگرى ميں يہ كتنا ہوشيار اور تيز ہے (معاذ اللہ)_
ان تكليف دہ باتوں سے اگر چہ پيغمبر (ص) كو قبلى طور پر رنج ہوا مگر حكم خدا پر عمل كرتے ہوئے صبر كيا اور مخالفين كى غلط باتوں كے جواب ميں سوائے حق كے زبان پر كچھ نہ لائے_
1) (نہج البلاغہ خطبہ 234)_
خلاصہ
1) صبر اور استقامت كاميابى كا سرمايہ اور مشكلات پر غلبہ كا راز ہے _
2) لغت ميں صبر كے معنى شكيبائي ، بردبارى ، بلا اور شداءد پر شكايت نہ كرنے كے ہيں_ ا ور استقامت كے معنى ثبات قدم كے ہيں _
3 ) صبر كے اصطلاحى معنى ہيں ، مصيبتوں اور نامناسب حالات ميں ثبات نفس، شجاعت اور انكے مقابل يوں ڈٹ جانا كہ سعہ صدر ختم نہ ہو اور سابقہ وقار و خوش حالى زاءل نہ ہو_
4)پيغمبر اعظم (ص) كا دوسرے اولوالعزم پيغمبروں كى طرح صبر پر مامور ہونا اس بات كا ظاہر كرتاہے كہ نبوت كا دشوار گذار راستہ بغير صبر كے ناممكن ہے _
5 ) دوسرے پيغمبروں كى طرح پيغمبر اسلام(ص) بھى تبليغ رسالت ميں خدا كى طرف سے صبر پر مامور تھے_ اور اس راستہ ميں دوسرے تمام پيغمبروں سے زيادہحضور (ص) كو مصيبتوں كا سامنا كرنا پڑا جيسا كہ آپ(ص) نے فرمايا ہے كہ كسى بھى پيغمبر كو خدا كے راستہ ميں ميرے جتنى تكليف نہيں دى گئي _
6) مشكرين نے پيغمبر خدا (ص) كو اذيت پہونچانے اور ان كى تعليمات كى اساس كو متزلزل كرنے كيلئے جو حربے استعمال كئے ان ميں سے زبان كا زخم بھى تھا_ناروا گفتگواگر چہ پيغمبر(ص) كے دل كو تكليف پہونچاتى تھى ليكن آپ(ص) خدا كے حكم سے صبر كرتے اور مخالفين كى بدزبانى كے جواب ميں سوائے حق كے اور كچھ نہيں كہتے تھے_