متقين كی صفات
٫٫ ھدی للمتقين الذين يؤمنون بالغيب و يقيمون الصلاة و مما رزقنا ھم ينفقون ٬٬ ﴿ بقرہ / ۳﴾
اس آيت كی تفسير بيان كرتے ہوۓ قائد انقلاب اسلامی نے فرمايا : پرھيز گار لوگوں كی چھ صفات ہیں اور ان چھ صفات كا ايك انسان میں جمع ہونا درحقيقت انسان كے اندر تقوی كے عناصر كو تشكيل ديتا ہے اور صحيح اور حقيقی تقوی انہی چھ صفات سے عبارت ہے اور انہیں چھ صفات سے انسان راہ كمال پر گامزن ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے درس میں ہم بيان كر چكے ہیں كہ تقوی انسان كے لیے تمام مراحل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے يعنی جب آپ تقوی كے حامل ہوں گے تو پھر قرآن سے درس بھی حاصل كر سكتے ہیں اور ہدايت بھی اور جوں جوں تقوی كے مراحل بڑھیں گے قرآن فہمی میں اضافہ ہوتا چلا جاۓ گا۔ اگر كوئی شخص تقوی كے اعلی مراتب پر فائز ہو تو وہ قرآن كی ظرافتوں اور عميق نكات اور گہرے معانی تك بہتر رسائی حاصل كر سكتا ہے ۔ تقوی صرف قرآن فہمی كی ابتداء میں ہی ضروری نہیں بلكہ تمام مراحل میں ضروری ہے۔ لہذا يوں نہیں ہے كہ اگر كوئی پاكيزگی كے ساتھ قرآن فہمی میں اترا تو پھر فورا بطن قرآن تك رسائی حاصل كرلے ۔ نہیں ايسا نہیں ہے بلكہ ہرہرمرحلے میں جتنا جتنا پرھيزگاری میں قدم آگے بڑھے گا اسی مقدار میں قرآن فہمی میں بھی پيشرفت حاصل ہوگی ۔ اب یہ چھ صفات تمہيد ہیں اس مرحلہ كے لیے جس سے انسان ايك متوسط حد تك متقی بن سكتا ہے اور اس كے بعد بلند مقامات كا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ان چھ صفات میں سے پہلی صفت ٫٫ الذين يؤمنون بالغيب ٬٬ ہے ۔
يعنی وہ لوگ جو غيب پر ايمان ركھتے ہیں البتہ ہم نے آيت كے ترجمہ میں كہا ہے كہ جو لوگ غيب پر يقين ركھتے ہیں ۔ قرآن مجيد میں كئی مقامات پہ غيب پر ايمان ركھنے كوغيب پر خشيت اور غيب كی طرف توجہ كی صورت میں بيان كيا گيا ہے؛مثلا قرآن میں ايك مقام پر آيا ہے ٫٫ و خشی الرحمن بالغيب ٬٬ اور اس طرح كی دوسری كئی آيات ۔ غيب يعنی وہ چيز جو انسان كے حواس سے پوشيدہ ہے ۔ تمام عالم كو دو حصوں يعنی عالم غيب اور عالم شہود میں تقسيم كيا جا سكتا ہے ۔ یہاں شہود سے مراد وہ عالم ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے ۔ البتہ اس سے مراد صرف آنكھوں كے سامنے ہونا نہیں ہے بلكہ ہر وہ چيز مراد ہے جو حواس كے ذريعہ قابل درك ہويعنی وہ اشياء جنہیں آپ محسوس كرسكتے ہیں اور آپ كے سامنے ہیں ۔ اور آپ كے لیے قابل تجربہ ہیں مثلا كہكشاں جس كا نظارہ آپ ٹيلی سكوپ كے ذريعہ كر سكتے ہیں ۔ يعنی وہ چيزیں جنہیں آپ ديكھ سكتے ہیں؛ سن سكتے ہیں اور حس كر سكتے ہیں ؛ آشكار اور ظاہر ہیں۔ انہیں عالم شہود سے تعبير كيا گيا ہے ۔ تاہم جو اشياء ماورائی حيثيت ركھتی ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ صرف موجودات انہی اشياء میں محدود نہیں ہیں جنہیں ميری اور آپ كی آنكھیں ديكھ رہی ہیں بلكہ موجودات كا دائرہ اس قدر وسيع ہے كہ انسان ان كا احساس كرنے سے عاجز ہے يعنی عالم غيب اس كائنات میں الہی رجحانات اور مادی رجحانات كی سرحد كا نام ہے ۔
مادی نظريات اور افكار ركھنے والے افراد معتقد ہیں كہ وہ اشياء جنہیں میں ديكھ رہا ہوں وہی موجود ہیں ليكن وہ چيزیں جنہیں میں نہیں ديكھ رہا وہ موجود بھی نہیں ہیں اگرچہ ممكن ہے كہ وہ اشياء جنہیں آج ہم نہیں ديكھ رہے انہیں كل ديكھ پائیں ۔ اس قسم كےمادی افكار بہت ہی تنگ نظری اور محدود فكر كا نتيجہ ہیں ۔اس لئے كہ﴿ان سے یہ سوال كيا جا سكتا ہے كہ﴾ جس چيز كو آپ نہیں ديكھ رہے ہیں آپ كے پاس كيا دليل ہے آپ اس كے موجود ہونے كی ہی نفی كردیں ؟
آپ تبھی كسی چيز كے موجود ہونے يا معدوم ہونے كا حكم كرسكتے ہیں جب واقعا آپ كے پاس كوئی دليل ہو۔ پھر آپ كا یہ كہنا درست ہو گا ۔ لہذا آپ اس وقت كسی چيز كی موجودگی كا اعلان كر سكتے ہیں جب آپ كو يقين ہو كہ وہ موجود ہے اور اسے ثابت كرسكتے ہوں اور اسی طرح جب آپ كسی چيز كے معدوم ہونے كا حكم كرتے ہیں تو آپ كے لیے یہ ثابت ہونا چاہیے كہ وہ چيز معدوم ہےجبكہ مادہ پرست شخص كے پاس اپنے اس مدعا كو ثابت كرنے كے لیے كوئی دليل نہیں ہے۔ وہ صرف یہی كہنے كا حق ركھتا ہے كہ میں عالم غيب كو نہیں ديكھ سكتا اور اس كے بارے میں مجھے كوئی خبر نہیں ہے ۔ لہذا جب آپ كو اس بارے میں خبرہی نہیں ہے تو آپ كيسے يقين كے ساتھ یہ كہہ سكتے ہیں كہ عالم غيب موجود ہی نہیں ہے؟! وہ كہتے ہیں كہ ہم عالم غيب كا مشاہدہ نہیں كر رہے اور اس كے بارے میں كوئی خبر نہیں ركھتے ہیں۔ ﴿تعجب اس بات پہ ہے كہ﴾ ايك طرف سے تو وہ خود كہہ رہے ہیں ہم عالم غيب كے بارے میں كوئی خبر نہیں ركھتےجبكہ دوسری طرف سے یہ يقين كے ساتھ كہہ بھی رہے ہیں كہ عالم غيب موجود ہی نہیں ہے ۔ اس مقام پر ان سے پہلا سوال كيا جا سكتا ہے كہ جب تم خود كہہ رہے ہو كہ میں اس كے بارے جانتا ہی نہیں ہوں تو پھر كيسے كہہ رہے ہو كہ وہ موجود ہی نہیں ہے ؟ اسی لیے قرآن میں مادہ پرست اور ملحدين كے بارے میں آيا ہے كہ " ان ھم الا يظنون " ﴿ ۲۴ جاثیہ ﴾
يعنی وہ گمان كے ساتھ بات كرتے ہیں ٫٫ ان ھم الا يخرصون ٬٬ ﴿ يونس ۶۶ / ﴾ وہ ايك دوسرے سے محض باتیں كرتے ہیں ۔
اديان الہی اور الہی تفكركا﴿مادی تفكر سے﴾ یہی نقطہ امتيازہے كہ وہ اشياء جنہیں وہ ديكھ رہا ہے اور لمس كر رہا ہے ان كے علاوہ بھی كوئی عالم موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے كہ وہ عالم غيب كس طرح انسان كے لیے ثابت ہو سكتا ہے ؟جواب یہ ہے كہ صرف عقلی دليل كے ذريعہ۔ یہی وہ اصلی نكتہ ہے كہ عقل كے ذريعہ وجود خدا كو ثابت كيا جا سكتا ہے ۔ عقل پيغام خدا، درس خدا اور ہدايت خدا ہے۔ عقل ہی ہمارے لیے وحی كو ثابت كرتی ہے؛ عقل ہی قيامت كے وجود اور ان كئی اشياء كو ثابت كرتی ہے جو عالم غيب سے متعلق ہیں ۔
پس ان میں سے بعض امور كو عقل خود ثابت كرتی ہے اور بعض كو وہ اشياء جو برھان عقلی كے ذريعہ ثابت ہوتی ہیں ، ثابت كرتی ہیں ۔ يعنی جب آپ نے ثابت كر ليا كہ خدا ہے اور توحيد كو ثابت كر ليا ، مبداء كو ثابت كر ليا تو پھر نبوت كو بھی ثابت كر لیں گے ۔ اس كے بعد كہ آپ نے وجود نبی كو دليل عقلی كے ذريعہ ثابت كر ليا تو پھر وہ عالم غيب جس سے نبی خبر ديتا ہے وہ بھی ثابت ہو جاۓ گا جيسے فرشتے ، جنت و دوزخ اور وہ اشيا جن پر ہم سب ايمان ركھتے ہیں۔ ان میں سے بعض جيسے جنت و دوزخ اور قيامت كا وجود انہیں دليل عقل كے ذريعہ ثابت كيا جا سكتا ہے ليكن كئی ايسی چيزیں ہیں جن پر عقلی دليل موجود نہیں ہے انہیں حق كا نمائندہ يعنی وحی الہی كو دريافت كرنے والا نبی ہمارے لیے بيان كرتا ہے۔ اور جب وہ ہمارے لیے بيان كرتا ہے تو ہم اس پر ايمان و يقين ركھتے ہیں اور جانتے ہیں كہ وہ سچ كہتا ہے۔ اس لیے كہ اس پيغمبر كا وجود عقلی دليل سے ثابت ہو چكا ہے۔ پس تقوی كی پہلی شرط غيب پر ايمان لانا اور محدوديت سے اپنے وجود كو خارج كرنا يعنی كائنات كو اسی انسانی محسوسات كے دائرے تك محدود نہ سمجھنا ہے ۔ پس یہ غيب پر ايمان ہی مادی تفكر اور الہی تفكر كے درميان بہترين فرق ہے جس سے انسانی افكار اور انسانی اعمال پر بہت زيادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں يعنی وہ انسان جو غيب پر ايمان ركھتا ہے وہ ايك طرح كی زندگی بسر كرتا ہے اور جو لوگ غيب پر ايمان نہیں ركھتے ان كی زندگی ايك اور نوعيت كی ہوتی ہے كيونكہ ايمان انسان كو آزاد نہیں چھوڑتا بلكہ اس كی زندگی ، اس كی فكر اوراس كے اعمال پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے جو كہ ايك مادی انسان اور مادی افكار كے حامل شخص سے سر زد نہیں ہو سكتے ۔ ہم نے ان میں سے بعض خصوصيات كا ذكر كر ديا ہے مثلا غيب پر ايمان ركھنے والا شخص با مقصد زندگی كرتا ہے جبكہ جو لوگ غيب پر ايمان نہیں ركھتے وہ زندگی میں كسی حقيقی مقصد كو قبول كرنے كے لیے تيار نہیں ہوتے ۔
ممكن ہے آپ كہیں كہ كئی ايسے مادی افكار كے حامل افراد ہیں جن كے پاس حقيقی مقاصد بھی ہیں۔ میں عرض كروں گا كہ ان مقاصد كو وہاں ديكھنا چاہیے جہاں احساسات ، عادات اور ضروريات غالب نہ ہوں كيونكہ جہاں پر جذبات ، عادات اور ضروريات موجود نہ ہوں وہاں پر مادہ پرست انسان كی زندگی اور اس كی جدو جہد متوقف ہو جاتی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ ضرورت كے پيش نظر مجبور ہیں كہ سعی و كوشش كریں چونكہ مادہ پرست لوگ بھی اپنی ضروريات پورا كرنے كے لیے جدو جہد كرتے ہیں۔ ان میں سے بعض خاص قسم كے جذبات ركھتے ہیں جيسے قوم پرستی كے جذبات۔ یہی قوم پرستی اسے مجبور كرتی ہے كہ وہ اس كے لیے جدوجہد كرے ، كوشش كرے حتی كہ اسی راستے میں اپنی جان قربان كر دے ليكن یہ جذبات عقل و منطق كے تابع نہیں ہیں ۔
اگر ايك ايسے مادی شخص كو جو جذبات میں غرق ہوكر وطن كی راہ میں خود كو فدا كر ديتا ہے،كوئی پكڑ كر عليحدگی میں لے جا ئے اور یہ پوچھے كہ تم كيوں جان قربان كر رہے ہو؟اگرتم مر جاٶ تو كيا ہو جا ۓ گا ؟ كيا تمہارے مرنے سے وطن زندہ ہو جاۓ گا ؟ جب تم خود ہی نہیں رہو گے تو یہ وطن ہو يا نہ ہو تمہارے لیے اس كا كيا فائدہ ہے ؟ تم اس لیے مر رہے ہو تاكہ دوسرے زندگی كر سكیں ؟!
اگرچہ مادہ پرست اس كا اقرار نہیں كرتے ليكن اگر انہیں یہ كہا جاۓ تو وہ جواب میں بلند مقاصد اور اپنے وجدان وغيرہ جيسے عناوين بيان كرتے ہیں ليكن انہی كے اعترافات كو بعض مقامات پر مشاہدہ كيا جا سكتا ہے جيسے ٫٫ روجہ مارٹين ڈاؤگر ٬٬ كی كتاب میں جسے اس فرانسيسی رائٹر نے ناول كی صورت میں لكھا ہے اور اس كا نام ٫٫ ٹيوو خاندان ٬٬ ہے، اس میں ہم نے پڑھا كہ یہ شخص انيسویں صدی اور بيسویں صدی كے اوائل كا اومانيسٹ تھا۔ وہ اور دوسرے اومانيسٹوں كا یہ نظریہ تھا كہ انسان اور انسانيت سے عشق و محبت انسانی وجدان كو اس كے مذھبی رجحانات اور مذھبی جذابيت سے بے نياز كر ديتا ہے۔ یہ لوگ ماركس ازم سے پہلے بہت كتابیں لكھا كرتے تھے اور یہ ٫٫ رجہ مارٹين ٬٬ انہی افراد میں سے ہے جو اپنی كتاب میں اس قصہ كو بہترين انداز میں پيش كرتا ہے ۔ وہ اس میں داستان كے ہيرو كی زبانی یہ بيان كرتا ہے كہ جب ايك لا علاج مرض میں مبتلا ہو گيا تو اس نے سوچا كہ ميری جدو جہد كا كيا فائدہ ہے ۔ پھر اپنی داستان لكھتے ہوے اپنے اومانيسٹی تفكر كو بطور كامل بيان كرتا ہے جس سے یہ سمجھا جا سكتا ہے كہ وہ یہ كہہ رہا ہے كہ زندگی گزارنے كا مقصد صرف یہی ہے كہ تو لطف اندوز ہو سكے ۔ ايك مادہ پرست انسان كا اس سے زيادہ مقصد ہو بھی كيا سكتا ہے كہ وہ اپنا پورا مقصد لذت دنيوی كو ہی سمجھتا ہے ۔
مادی تفكركی بنياد پر آپ كی زندگی ايك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك عبارت ہے يعنی پيدائش سے مرنے تك يا يوں كہا جاۓ كہ بچپن سے مرنے تك كيونكہ بچپن كا زمانہ تو كوئی چيز نہیں ہے ليكن بچپن كے بعد سےموت تك ايك دورانیہ ہے اور یہ دورانیہ بہت جلد گزر جاتا ہے۔ پس اس عرصے میں جتنی پرتعيش زندگی بسر كرو گے اتنی ہی زيادہ لذت حاصل كرو گے ۔ انسانی زندگی كا مقصد اس كے سوا كچھ نہیں ہے۔
اب كيا یہ فكر، انسانی زندگی كو سنوارنے اور انسان كی اعلی مقاصد تك رسائی كے لیے اچھا پروگرام پيش كر سكتی ہے ؟ ايسے عالی اہداف كی طرف انسان كی رہنمائی كر سكتی ہے؟ اور اس كٹھن راستے میں انسان كو مشكلات كا سامنا كرنے پر آمادہ كر سكتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو ايسا ہی ہے كہ میں خود كو تيزی كے ساتھ ديوار كی دوسری طرف پہنچانے كی كوشش میں اپنا سرديوارپر دے ماروں۔ لہذا میں كس لیے تيزی سے جاٶں ؟ كيوں جد و جہد كروں ؟
یہی فرق ہے ايسے شخص كی فكرمیں جو اس كائنات سے ماوراء كو بھی سمجھتا ہے اور ايسے شخص كی فكر میں جس كا ہم و غم اس چند روزہ زندگی كی لذات میں خلاصہ ہو جاتا ہے اور یہ بہت بڑا فرق ہے