سچا دوست كون ہے؟!

Rate this item
(0 votes)

قائد انقلاب اسلامي نے بيس دي تيرہ سو نواسي ہجري شمسي مطابق پانچ صفر چودہ سو بتيس ہجري قمري كو فقہ كے اجتہادي و استنباطي درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا ايك قول مع تشريح بيان كيا۔ اس روايت ميں حقيقي اور سچے دوست كي خصوصيات بيان كي گئي ہيں۔ يہ قول زريں، اس كا ترجمہ اور شرح پيش خدمت ہے؛

قائد انقلاب اسلامي نے بيس دي تيرہ سو نواسي ہجري شمسي مطابق پانچ صفر چودہ سو بتيس ہجري قمري كو فقہ كے اجتہادي و استنباطي درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا ايك قول مع تشريح بيان كيا۔ اس روايت ميں حقيقي اور سچے دوست كي خصوصيات بيان كي گئي ہيں۔ يہ قول زريں، اس كا ترجمہ اور شرح پيش خدمت ہے؛

"عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ لَا تَكُونُ الصَّدَاقَةُ إِلَّا بِحُدُودِهَا فَمَنْ كَانَتْ فِيهِ هَذِهِ الْحُدُودُ أَوْ شَيْ‏ءٌ مِنْهَا فَانْسُبْهُ إِلَي الصَّدَاقَةِ وَ مَنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ شَيْ‏ءٌ مِنْهَا فَلَا تَنْسُبْهُ إِلَي شَيْ‏ءٍ مِنَ الصَّدَاقَةِ فَأَوَّلُهَا أَنْ تَكُونَ سَرِيرَتُهُ وَ عَلَانِيَتُهُ لَكَ وَاحِدَةً وَ الثَّانِي أَنْ يَرَي زَيْنَكَ زَيْنَهُ وَ شَيْنَكَ شَيْنَهُ وَ الثَّالِثَةُ أَنْ لَا تُغَيِّرَهُ عَلَيْكَ وِلَايَةٌ وَ لَا مَالٌ وَ الرَّابِعَةُ أَنْ لَا يَمْنَعَكَ شَيْئاً تَنَالُهُ مَقْدُرَتُهُ وَ الْخَامِسَةُ وَ هِيَ تَجْمَعُ هَذِهِ الْخِصَالَ أَنْ لَا يُسْلِمَكَ عِنْدَ النَّكَبَات"

شافي، ص 651

ترجمہ و تشريح: كتاب الكافي ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ دوستي كي كچه شرطيں ہوتي ہيں۔ اگر يہ شرائط موجود ہيں تو اس دوستي سے وہ تمام شرعي ثمرات اور اس كے نتيجے ميں ايماني اخوت حاصل ہوگي جو دوستي كا فطري نتيجہ ہوتي ہے، ورنہ نہيں۔ "فمن كانت فيه هذه الحدود او شي ء منها فانسبه الي الصّداقة" اب اگر كسي انسان ميں يہ شرطيں اور خصوصيتيں مكمل طور پر نہ سہي ايك حد تك بهي موجود ہوں تو بهي وہ دوستي كا اہل بن سكتا ہے۔

"و من لم يكن فيه شي ء منها فلا تنسبه الي شي ء من الصّداقة فأوّلها ان تكون سريرته و علانيته لك واحدة" اور جس ميں يہ شرطيں بالكل ندارد ہوں اسے دوست كا نام مت دو۔ پہلي شرط يہ ہے كہ اس كا ظاہر و باطن تمہارے لئے يكساں ہو۔ ايسا نہ ہو كہ بظاہر تو تمہاري دوستي كا دم بهرے ليكن بباطن تمہارا دشمن ہو يا يہ كہ تمہارا خير خواہ نہ ہو۔ يہ دوستي كي پہلي شرط ہے۔

"و الثّانية ان يري زينك زينه و شينك شينه" دوسري شرط يہ ہے كہ تمہاري اچهائي كو اپني اچهائي سمجهے اور تمہارے عيب كو اپنا عيب شمار كرے۔ اگر تم نے كوئي بڑا علمي مرتبہ حاصل كر ليا يا كوئي كار نماياں انجام ديا جس سے تہماري شان و شوكت ميں اضافہ ہوا تو اسے وہ اپني شان ميں اضافہ سمجهے اور اگر خدانخواستہ تمہارے اندر كوئي بات، عادت يا عمل ايسا ہے جو عيب سجمها جاتا ہے تو اسے وہ اپنا عيب شمار كرے۔ ظاہر ہے كہ اس طرز فكر كے كچه خاص نتائج اور اثرات ہوں گے۔ وہ اس عيب كو برطرف كرنے كي كوشش كرے گا يا كم از كم اس كي پردہ پوشي كرے گا۔ ايسا نہ ہو كہ اسے تہماري كسي لغزش اور غلطي كا انتظار رہے اور جيسے ہي تم سے كوئي غلطي سرزد ہو زير لب مسكرانا شروع كر دے۔ ايسا شخص دوست نہيں ہو سكتا۔

"و الثّالثة ان لاتغيّره عليك ولاية و لا مال" تيسري شرط يہ ہے كہ اگر اسے كوئي مقام، طاقت يا اختيار حاصل ہو گيا ہے يا پهر دولت حاصل ہو گئي، اس كي مالي حالت بہتر ہو گئي ہے تو وہ بدل نہ جائے۔ بعض لوگ اس قسم كے ہوتے ہيں كہ دوستي كا دم بهرتے نہيں تهكتے ليكن جيسي ہي مال و منال ہاته لگ گيا، كچه دولت حاصل ہو گئي تو پهر ان كے مزاج ہي نہيں ملتے، وہ پہچاننے سے بهي انكار كر ديتے ہيں۔ ايسے پيش آتے ہيں جيسے كبهي شناسائي كي كوئي رمق بهي نہ رہي ہو۔ ايسے لوگوں كو ہم نے ديكها ہے۔ تو ايسا نہيں ہونا چاہئے۔ مال و دولت كا حصول اسے بدل نہ دے۔

"و الرّابعة ان لا يمنعك شيئا تناله مقدرته" چوتهي شرط يہ ہے كہ جو كچه بهي اس سے بن پڑے وہ تمہارے لئے انجام دينے سے دريغ نہ كرے۔ تمہاري كوئي خدمت كر سكتا ہے، كوئي مدد كر سكتا ہے، كوئي سفارش كر سكتا ہے، تمہارے لئے ثالثي كر سكتا ہے، كوئي كام كر سكتا ہے تو ہرگز تامل ميں نہ پڑے۔

"و الخامسة و هي تجمع هذه الخصال ان لا يسلمك عند النّكبات" پانچويں شرط يہ ہے كہ ناسازگار حالات ميں، ايسے عالم ميں جب دنيا نے تم سے منہ پهير ليا ہے تمہيں اكيلا نہ چهوڑے۔ اگر تم كسي مصيبت ميں پهنس گئے ہو، كسي بيماري ميں مبتلا ہو گئے ہو، سياسي، اقتصادي اور دوسري گوناگوں مشكلات جو پيدا ہو جاتي ہيں، ہم طرح طرح كي مشكلات ديكه رہے ہيں جو ماضي ميں نظر نہيں آتي تهيں ليكن آج نظروں كے سامنے ہيں، انواع و اقسام كي آزمائشيں ہيں، اگر تم ان ميں گرفتار ہو گئے ہو تو تمہيں ترك نہ كر دے بلكہ مدد كرنے پر آمادہ ہو جائے۔

Read 2877 times