داکٹر مصطفٰی امام کا تعلق مصر سے ہے۔ آپ جامعۃ الازھر مصر میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اخوان المسلمین کے حامی اور مصر کی جید شخصیات میں سے ہیں۔
آپ كا انٹرویو :
جامعۃ الازھر کے بارے میں بتائیں، وہاں کون کون سے علوم سکھائے جاتے ہیں۔؟
جامعۃ الازھر کا قیام ایک ہزار سال پہلے عمل میں آیا۔ اس جامعۃ میں اسلام کے تمام مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ مذہب اربعہ اہل سنت کے علاوہ مذہب جعفری کے بارے میں بھی یہاں تعلیم دی جاتی ہے۔ شیخ محمود شلتوت کے دور سے جامعۃ الازھر میں فقہ جعفری کی تعلیم شروع کی گئی۔ اس یونیورسٹی میں اسلام کی تمام فقہ میں پی ایچ ڈی کروائی جاتی ہے۔ جامعۃ الازھر میں اس وقت ستر شعبے ہیں۔
امت مسلمہ کو امت واحدہ میں تبدیل کرنے کا خواب کیسے پورا ہوگا۔؟
اسلام کے خلاف برسرپیکار طاقتیں اس وقت اتحاد و وحدت سے کام لے رہی ہیں۔ پوری دنیا میں یہود، ہنود اور نصاریٰ اس وقت عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان کے خلاف متحد ہو جائیں۔ جتنے بھی مسلم ممالک اور فرقے ہیں انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔ جس طرح دشمن متحد ہے، ہمیں بھی اس کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
عرب اسپرنگ مصر پر کیسے اثر انداز ہوئی۔؟
مصر میں ساٹھ سال سے آزادی نہیں تھی۔ جمال عبدالناصر اور انور السادات کے ادوار میں مسلمانوں پر پابندیاں تھیں۔ گزشتہ دو سال سے حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ اخوان مسلمین اور نوجوانوں کی قربانیوں سے آج محمد مرسی مصر کے صدر بنے ہیں۔
اخوان المسلمین نے کس حکمت عملی کے تحت کام کیا اور گراں بہا کامیابیاں حاصل کیں۔؟
اخوان المسلمین گزشتہ آٹھ دہائیوں سے جدوجہد کر رہی ہے۔ اب وہ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے ساتھ ساتھ اقتصادی حالات کی بہتری کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ اخوان اپنی عوام کا معیار تعلیم بلند کرنے کے لئے بھی سرگرداں ہیں۔ اخوان المسلمین نے دین کو صحیح معنوں میں سمجھا اور پھر اس پر عمل کیا۔ اب وہ چاہتے ہیں مصری قوم بھی دین اسلام کو صحیح انداز میں اپنی زندگیوں میں نافذ الالعمل کرے اور اقتصادی حالات بھی عوام کے بہتر کئے جائیں۔ اخوان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ نوجوانوں کو دین کی طرف راغب کرنا ہے۔ جب بھی کوئی معاشرہ قرآن و حدیث کی طرف آئے گا تو کامیابی اس کا مقدر بن جائے گی۔
اسدو برادر اسلامی ممالک ترکی اور شام آپس میں دست گریباں ہیں، اس کا کیا سبب ہے۔؟
اسرائیل عرب اور اسلامی دنیا کا بدترین دشمن ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں سے اسرائیل مسلمان ممالک کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اللہ تعالٰی مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ اسرائیل مسلمانوں پر آج تک غالب نہیں آسکا۔ مصر اور ترکی کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں۔ اقتصادی اور مسلمانوں کے اجتماعی حالات کے حوالے سے وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔ شام کا مسئلہ وہاں کے اندرونی حالات کی پیداوار ہے۔ شام کی حکومت اور عوام کا اختلاف جاری ہے۔ شام کے لوگ کارروائی کرنے کے بعد ترکی میں چلے جاتے ہیں، جس وجہ سے ان دو ممالک کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔
چند میڈیا رپورٹس یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ قطر سے تربیت شدہ القاعدہ کو ترکی کے راستے شام میں داخل کیا جاتا ہے، تاکہ وہاں حالات کو خراب کیا جائے، اس بارے میں بتائیں۔؟
القاعدہ کے لوگوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ ان میڈیا رپورٹس میں صداقت نہیں ہے۔ یہ امریکہ و اسرائیل کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں۔ دراصل مسلم امہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ہمارا خدا ایک ہے، ہمارا رسول (ص) ایک ہے، ہمارا قرآن ایک ہے۔ مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات سیاسی ہیں اور ان کے حل کے لئے ہم یہاں مل بیٹھے ہیں۔