عید غدیر دنیائے اسلام کی سب سے بڑی عید ہے۔اللہ تعالی نے اپنے تمام انبیاء کوعید غدیر کی عظمت، بزرگی اور شان و شوکت سے آگاہ کیا۔پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) نے 18 ذی الحجہ سن دس ہجری میں حجةالوداع سے واپسی کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر حاجیوں کے عظیم اور تاریخی اجتماع میں اللہ تعالی کے حکم سے حضرت علی (ع) کو اپنا خلیفہ، جانشین اور وصی مقرر کیا۔آنحضور (ص) نے اس مقام پر حضرت علی (ع) کی خلافت، ولایت اور امامت کا اعلان کرکے دین اسلام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
یہی وہ اہم پیغام تھا جسے پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید کے سورہ مائدہ کی ایت نمبر 67 میں آنحضور (ص) کو زبردست تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ۔۔۔یاایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ۔۔۔ اے رسول (ع) اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیجئے اگریہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔
لہذا انحضور (ص) نے اللہ تعالی کی مرضی اور حکم کے مطابق حضرت علی (ع) کو غدیر خم میں اپنا خلیفہ ،وصی اور جانشین مقرر کردیا۔ عید غدیر کا دن وہ دن ہے جس دن حضرت موسی کو ساحروں اور جادوگروں پر کامیابی نصیب ہوئی، اس دن اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم پر نار نمرود کو گلزار بنایا، اسی دن حضرت موسی نے یوشع بن نون کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کیا، اسی دن حضرت عیسی نے شمعون الصفا کو اپنا خلیفہ بنایا اور اسی دن حضرت سلیمان نے آصف بن برخیا کو اپنا جانشین بنانے کے لئے اپنی امت کو گواہ بنایا۔
یہ وہ مبارک دن ہے جس دن پیغمبر اسلام (ص)نے غدیر خم کے میدان میں حجاج اور صحابہ کے عطیم الشان اجتماع میں حضرت علی (ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کرتے فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ، جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں جس کا میں ولی ہوں اس کے علی ولی ہیں، جس کا میں سرپرست ہوں اس کے علی(ع) سرپرست ہیں، جس کا میں حاکم ہوں اس کے علی (ع) حاکم ہیں۔
اس طرح پیغمبر اسلام نے 18 ذی الحجہ سن 10 ہجری کو اللہ کے حکم سے اپنا خلیفہ اور جانشین مقرر کرکے اپنے بعد دین اسلام کی سرپرستی اور حاکمیت کو حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے حوالے کردیا اور غدیر خم کو خلافت الھیہ کے تسلسل کا مرکز اور محور بنا دیا۔