زوجہ کے حقوق
درحقیقت خاندان ایک چھوٹا معاشرہ ہے جو دو افراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے اورمعاشرہ لوگوں کی کثرت کانام نہیں ہے بلکہ ان باہمی تعلقات کانام ہے جن کا ہدف ایک ہو۔
قرآن کریم نے ان کے درمیان محبت و الفت کا ہدف اطمینان اورسکون کوقراردیاہے فرماتاہے :
ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون۔
”اوراس کی آیات میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے نفوس سے تمہاری بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان کے ساتھ سکون حاصل کرسکو اورتمہارے درمیان محبت ورحمت پیداکردی بیشک اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جوسوچتے ہیں“۔
اوریہ معاشرہ ایک ایسے عقد کے ذریعے وجود میں آتاہے کہ جس میں نہایت واضح الفاظ کے ساتھ طرفین کی طرف سے اس بات کا اظہار ہوتاہے کہ وہ اس عقد کے مفہوم اور اس کے حقوق و فرائض کو قبول کرتے ہیں ۔
اللہ تعالی فرماتاہے :
فانکحوھن باذن اھلھن وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات
”پس مالکوں کی اجازت سے لونڈیوں سے نکاح کرو اور ان کا مہرحسن سلوک سے انہیں دے دوان سے جو عفت کے ساتھ تمہاری پابند رہیں کھلے عام زنانہ کریں“۔
اس اور دیگر آیات کی روشنی میں فقہا کے نزدیک باکرہ لڑکی کے لئے سرپرست کی اجازت شرط ہے تا کہ عورت کا شوہر کو اختیارکرنے کا حق محفوظ رہے اور یہ اجازت اسکی ہتک حرمت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک احتیاطی تدبیرہے تاکہ لڑکی کسی شخص سے نفسیاتی طور پر متاثر ہوکر یا جذباتی لگاؤکی وجہ سے شادی کرنے میں جلدی نہ کرے۔ اجازت کے بعد عورت کادوسراحق مہرہے تاکہ اسے یہ احساس رہے کہ وہ مطلوبہ ہے نہ طالبہ یہ احساس اسے اس حیاسے بھی حاصل رہتاہے جواس کی جبلت میں ودیعت کی گئی ہے اوربیوی کومہردینے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شوہرکی غلام بن گئی ہے بلکہ اللہ تعالی فرماتاہے :
وآتوالنساء صدقاتھن نحلة۔
”اورعورتوں کوان کے مہرخوشی خوشی دیدو“۔
بیوی ایسی شریک حیات ہے جس نے مرد کے ساتھ حقوق وفرائض پرمبنی مشترک زندگی کاعہد کررکھاہے ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف…) اورعورتوں کے لئے شریعت کے مطابق اس کی مثل حق ہے جوان پرہے ۔
عورت کے حقوق کے سلسلے میں قرآن کے اس واضح موقف کے باوجود بعض دشمنان قرآن اس بارے میں قرآن پربعض ناروااتہامات لگاتے ہیں۔
مثال کے طورپرکہتے ہیں قرآن نے عورت پرپردہ واجب کرکے اس کی آزادی کو محدود کردیاہے، گھرکی سرداری مرد کے ہاتھ میں دے دی ہے اوروراثت میں مرد کوعورت سے دوگناحصہ دیاہے یہ لوگ جوحقوق زن کے سلسلے میں مگرمچھ کے آنسوبہاتے ہیں درحقیقت قرآن کے آسمانی کتاب اورشریعت اسلامیہ کامنبع ہونے پرطعن کرتے ہیں اوراشاروں میں کہتے ہیں یہ کتاب مقدس فرسودہ ہوچکی ہے اورترقی یافتہ دورکے تقاضے پورے نہیں کرتی ۔ لیکن تھوڑا ساغوروفکر کریں تویہ اعتراضات تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور نظرآنے لگیں گے۔
لیکن اس کے لئے قرآن، اس کے طرزکلام اورعترت طاہرہ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے کہ جوقرآن کے حقیقی ترجمان ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ قرآن نے اس وقت عورت کوانسانی حق دیاجب اسے بہت ہی پست اورگھٹیا سمجھاجاتاتھا اوراس میں کسی وشک شبہ کی گنجائش نہیں ہے جب کہ ادیان سماویہ کے علاوہ دیگرادیان عورت کوایک پست مادہ سے پیداہونے والی مخلوق سمجھتے تھے اورمرد کواعلی عنصرسے پیداہونے والا، بعض لوگ تویہاں تک کہنے لگے عورت پلیدگی سے پیداہوئی ہے اوراس کاخالق، خالق شرہے اوردورجاہلیت میں عرب عورت کوجانورسمجھتے تھے اوراسے انسانی صورت میں اس لئے پیداکیاگیاتاکہ مرد کی خدمت کرسکے اوراس کی جنسی خواہشات کوپوراکرسکے۔
خلقت میں مساوی ہونااورذمہ داریاں
قرآن حکیم نے ان کھوکھلے عقائد کورد کیاہے اورزوردے کرکہاہے کہ اصل خلقت میں مرد وعورت برابرہیں نہ تومردہی اعلی عنصرسے پیداہواہے اورنہ عورت گھٹیا عنصرسے بلکہ ایک ہی عنصریعنی مٹی سے اورایک نفس سے پیداہوئے ہیں چنانچہ فرماتاہے :
یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالاکثیرا ونساء ۔
”اے لوگوں اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیداکیااوراسی سے جوڑا خلق کیااوران دوسے بہت سارے مرد اورعورتیں پھیلادئیے“۔
یوں قرآن کریم نے اصل پیدائش میں عورت کومرد کے برابرقراردے کراس کی شان بڑھادی اوراسے انسانی عزت فراہم کی۔
نیزقرآن ذمہ داری کے لحاظ سے بھی مرد اورعورت کومساوی سمجھتاہے۔ فرماتا ہے :
من عمل صالحا من ذکراوانثی وہومومن فلنحییہ حیاة طیبة…)۔
”جوبھی نیک عمل کرے مردہویاعورت درحالیکہ وہ مومن ہوپس ہم ضروراسے پاکیزگی عطاکریں گے ۔
لیکن مرد اورعورت کے پیدائش،شرافت اورذمہ داری میں برابرہونے کے باوجودان کے درمیان طبیعی اختلاف موجودہے جوان کے حقوق وفرائض کے اختلاف کاسبب بنتاہے لذا عدل کاتقاضایہ ہے کہ مرد اوراس کے فرائض کے درمیان مساوات ہونہ مرد اورعورت کے حقوق وفرائض کے درمیان، وراثت میں مرد کوترجیح دیناعدالت کے خلاف نہیں بلکہ عین عدالت ہے مرد کے اوپرشادی کے آغازہی میں مہرہے اورپھرآخرتک اس کے اوپرنان ونفقہ واجب ہے اسی قرآن نے عورت پرحجاب کوواجب کرکے اس کی آزادی کومحدود نہیں کیابلکہ خود اسے اورمعاشرے میں اس کے احترام کومحفوظ کیاہے قرآن چاہتاہے کہ جب عورت معاشرے میں نکلے تومردوں کے جذبات کوبرانگیختہ نہ کرے لذا اپنی حفاظت کرے اوردوسروں کونقصان نہ پہنچائے۔
اورقرآن نے عورت کوفکر وعمل کاحق بھی دیاہے اورسے ممکن حقوق دئیے ہیں لہذا عورت کوحق ہے کہ مالک نے،ھبہ کرے، رہن رکھے، بیچے خریدے وغیرہ وغیرہ اسی طرح اسے حق تعلیم بھی حاصل ہے پس عورت اعلی علمی مراتبے تک پہنچ سکتی ہے اورقرآن نے عورت پرظلم وزیادتی کوبھی ناحق قراردیاہے۔
قرآن ہمارے لئے فرعون کی بیوی آسیہ کی مثال پیش کرتاہے جس نے تنگ فضا کے باوجود اپنے عقیدہ توحید کی حفاظت کی اورقابل تقلید نمونہ ٹھہریں۔
فرماتاہے :
وضرب اللہ مثلا للذین آمنوا، امراة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی من القوم الظالمین
” اوراللہ نے مومنین کے لئے مثال بیان کی ہے فرعون کی بیوی کی جب اس نے کہا میرے پروردگار میرے لئے اپنے وہاں جنت میں ایک گھربنااورمجھے فرعون اوراس کے عمل سے نجات دے اورمجھے ظالم قوم سے بخش“۔
یہ ایسا قطعی موقف ہے جس میں کوئی لچک نہیں ہے اوریہ مومن آل فرعون کے نرم اورمتواضع موقف سے مختلف ہے۔
یوں قرآن نے ہمیں یہ بھی بتایاہے اگرعورت ایمان اورفکرسلیم رکھتی ہوتوکس قدرمضبوط اورپختہ ارادے کی مالک ہوسکتی ہے اوراس کے برعکس نوح کی بیوی کی مثال ذکرکی ہے جوراہ ہدایت سے بھٹک کرجذبات وخواہشات کاشکارہوگئی۔ اورسنت نبویہ نے بھی عورت کے ماں یابیوی کی حیثیت والے حقوق کوخاص اہمیت دی ہے پیغمبر فرماتے ہیں :
مازال جبرئیل یوصینی بالمراة حتی ظننت انہ لاینبغی طلاقھاالامن فاحشة مبینة۔
”جبرئیل مجھے مسلسل عورت کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگاکہ اسے طلاق دیناجائزنہیں ہے مگرکھلی بے حیائی کے بعد“۔
اورپھرشوہرپرعورت کے تین بنیادی حقوق بیان کئے گئے ہیں اسے وافرخوراک مہیاکرنا، اس کے شایان شان لباس دینااوراس کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔
حدیث میں ہے :
حق المراة علی زوجھا: ان یسد جوعھا وان یسترعورتھاولایقبح لھاوجھا۔
”عورت کاشوہرپرحق ہے کہ اس کی بھوک کاسدباب کرے اس کے جسم کوڈھانپے اوراس کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہ آئے“۔
دیکھئے اس حدیث نے بیوی کے حقوق کولباس اورخوراک جیسی مادی ضروریات تک محدود نہیں کیابلکہ اس کے ساتھ سات اسے حسن سلوک کاحق بھی دیا ہے اورعورت شریک حیات ہے لذااس کے ساتھ وسیلہ خدمت جیسا سلوک کرنایاتحکمانہ رویہ اپنانا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔
اورپیغمبر نے عورت کے ساتھ انسانی سلوک کرنے کاحکم دیاہے اوریہ کہ اگرشوہراس کی رائے کوقبول نہ کرناچاہتاہوتب بھی اس سے مشورہ کرے اورعقل وشرع دونوں اس پرزوردیتے ہیں۔
عورت کاایک اورمعنوی حق جواس کے مادی حقوق کی تکمیل کرتاہے یہ ہے کہ اس کااحترام کرے اس کی قدردانی کرے، اس سے بات کرتے وقت مہذب جملوں کاانتخاب کرے،گھرکے اندراطمینان کی فضاقائم کرے اورمحبت کی شمع روشن کرے پیغمبر فرماتے ہیں :
قول الرجل للمراة: انی احبک، لایذھب من قلبھاابدا۔
”مرد کاعورت سے یہ کہناکہ میں تم سے محبت کرتاہوں عورت کے دل سے کبھی نہیں جاتا“۔
امام زین العابدین اوپرذکرکئے گئے حقوق کی تاکیدکرتے ہوئے فرماتے ہیں :
واما حق زوجتک، فان تعلم انااللہ عزوجل جعلھالک سکنا وانسا، فتعلم ان ذلک نعمة من اللہ عزوجل علیک،فتکرمھا،وترفق بھا، ان کان حقک علیھا اوجب، فان لھا علیک ان ترحمھا، لانھا اسیرتک ،وتطعمھاوتکسوھا،واذا جھلت عفوت عنھا ۔
”بہرحال بیوی کاحق تومعلوم ہی ہوناچاہئے کہ اللہ تعالی نے اسے تمہارے لئے باعث انس وسکون بنایاہے اوروہ تم پراللہ کی ایک نعمت ہے اس کااحترام کرو اوراس کمے ساتھ نرمی سے پیش آؤاگرچہ تمہارا حق اس پرزیادہ ضروری ہے لیکن عورت کابھی حق ہے کہ تم اس پررحم کرو کیونکہ وہ تمہاری مطیع وپابند ہے،اس لباس وطعام فراہم کرو اوراگرکسی جہالت کاارتکاب کرے تواسے معاف کرو“۔
اورعورت کااحترام کرنا،اس کی معمولی لغزشوں کومعاف کردیناہی رشتہ زوجیت کوبرقراررکھنے کی واحدضمانت ہے اوریہی اس کے لئے مثالی راستہ ہے اوران چیزوں کاخیال رکھنے بغیرخاندانی عمارت ریت کے گھروندے کی طرح بے ثبات ہے اوراسی وجہ سے طلاق کے اکثرواقعات کاسبب معمولی ہوتاہے چنانچہ ایک قاضی نے میاں بیوی کے چالیس ہزرا اختلافی واقعات کونمٹانے کے بعدکہاتھا”میاں بیوی کے دل میں ہرقسم کی بدبختی دونوں کاکردار ہوتاہے“۔
اگرمیاں بیوی صبرکادامن تھامے رکھیں اورلاشعوری طور پرسرزد ہونے والی غلطیوں سے چشم پوشی کرلیں توازدواجی زندگی کوبرباد ہونے سے بچایاجاسکتاہے۔ امام زین العابدین اپنے رسالہ حقوق میں اس پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
واماحق رعیتک بملک النکاح، فان تعلم ان اللہ جعلھا سکناومستراحا وانساوواقیة، وکذالک کل واحدمنکما یجب ان یحمداللہ علی صاحبہ، ویعلم ان ذلک نعمة منہ علیہ، ووجب ان یحسن صحبة نعمة اللہ ویکرمھاویرفق بھا،وان کان حقک علیھا اغلظ وطاعتک بھاالزم،فیما احببتوکرھت مالم تکن معصیة فان لھا حق الرحمة والموانسة ولاقوة الاباللہ ۔
”نکاح کے ذریعے تمہاری رعایہ بننے والی کاحق تویہ تمہیں معلوناہوناچاہئے کہ اللہ تعالی نے اسے تمہارے لئے سکون،استراحت،انس اوراطمینان کاذریعہ بنایاہے لذا تم میں سے ہرایک کواپنے ساتھی کے حصول پرخدائے تعالی کی حمدکرنی چاہئے اورباورکرناچاہئے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس پرایک نعمت ہے پس اللہ کی نعمت کے ساتھ حسن سلوک کرناچاہئے، اس کی عزت اورقدردانی کرنی چاہئے اوراس کے ساتھ اچھارویہ اپناناچاہئے اگرچہ اس پرتمہارا حق زیادہ ہے اورپسند ناپسندمیں معصیت الہی کومدنظررکھتے ہوئے اس کے لئے تمہاری اطاعت کرناضروری ہے کیونکہ اس کابھی انس وشفقت کاحق ہے اوراللہ کے سواکوئی صاحب قدرت نہیں ہے“۔
ان سطروں میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ رشتہ ازدواج ایک عظیم نعمت ہے اوراس پرہمیں شکرخداوندی کرناچاہئے اوراس کے ساتھ نرمی اورحقیقی صداقت کارویہ اپناکرشکرکاعملی ثبوت فراہم کیاجاناچاہئے۔
اوراگراس کے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے اورہروقت اسے جھڑکتارہے توآہستہ آہستہ محبت ومودت کی رگیں کٹتی چلی جائیں گی اورآخرکار یہ چیز چھری کی دھار کی طرح ازدواج کے اس مقدس رشتے کوکاٹ دے گی۔
امام صادق اس روش کوبیان کرتے ہیں :
”جس کے ذریعہ شوہراپنی بیوی کوخوش رکھ سکتاہے اورمحبت کی رسی کوٹوٹنے سے بچاسکتاہے فرماتے ہیں :
لاغنی بالزوج عن ثلاثة اشیاء فیما بینہ وبین زوجتہ،وہی : الموافقة، لیجتلب بھاموافقتھا ومحبتھا وھواھا، وحسن خلقہ معھا، واستعمالہ استعمالة قلبھا بالھیة الحسنة فی عینھا وتوسعتہ علیھا ۔
شوہرکے لئے اپنے اوربیوی کے معاملات میں تین چیزوں کاخیال رکھناضروری ہے ہم آھنگی تاکہ اس کے ذریعے بیوی کی محبت اوردلی جھکاؤ کوحاصل کرسکے،اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا اوراپنے دلی میلان کااس طرح استعمال کرناجواسے اچھالگے اوراس پرکھلے دل سے خرچ کرنا“۔
اس چیزپرتنبیہ کرناضروری ہے کہ یہ فرامین ہوامیں بکھرے ہوئے خالی الفاظ نہیں ہیں کہ جنہیں آئمہ نصیحت کرتے وقت زبان پرجاری کرتے تھے بلکہ انہوں نے عملی طورپرانجام دے کربتایاہے اوران کے یہاں علم وعمل میں کوئی جدائی نہیں ہے۔
حسن بن جہم روایت کرتاہے کہ میں نے امام ابوالحسن کوخضاب لگائے ہوئے دیکھا توعرض کیاآپ پرقربان ہوجاؤں آپنے خضاب لگایاہے :
فقال : نعم، ان التھیة ممایزیدفی عفة النساء، ولقدترک النساء العفہ بترک ازواجھن التھیة… ایسرک ان تراھا علی ماتراک علیہ اذا کنت علی غیرتہیة؟ قلت: لا، قال : فھوذلک۔
”توفرمایاہاں ایسی چیزوں کواہمیت دینے سے عورت کی پاکدامنی میں آضافہ ہوتاہے اورشوہروں کے ان چیزوں کوترک کردینے کی وجہ سے بیویاں اپنی عفت ترک کردیتی ہیں کیاتجھے اچھالگے گاکہ اگرتوتیارنہ ہوتووہ بھی تیارنہ ہواورگندی ہومیں نے کہانہیں فرمایا: وہ بھی ایسے ہی ہے ۔
توامام درک کرچکے تھے کہ ازدواجی زندگی کامرکزی نقطہ دلی میلان ہے لہذا بیوی کے حق کاخیال رکھتے ہوئے اس کے قلبی میلان کوحاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ عدم توافق ازدواجی زندگی میں رخنہ اندازی کاایک بڑاسبب ہے صحیح ہے کہ اسلام میں شادی محض جنسی شہوت کوسیرکرنے کانام نہیں ہے بلکہ اس کا ہدف ایسی صالح اولاد کاپیداکرناہے جس کی وجہ سے زندگی مستمررہے ورنہ توجنسی خواہشات کاسیرکرنااس کے لئے ایک ذریعہ ہے لیکن اس کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ بیوی کے حق میں کوتاہی کرے بلکہ شریعت اسلامی چارماہ سے زیادہ عرصے تک مباشرت نہ کرنے کوجائز قرار نہیں دیتی۔
دوسری بحث : شوہرکے حقوق
کشتی ازدواج کوکامیابی کے ساحل تک پہنچانے کے لئے اس کے ناخدا کوپورے پورے حقوق دیناضروری ہیں اورشاید خدائے تعالی کی طرف سے شوہرکو عطاکیاگیاپہلاحق حاکم ہوناہے فرماتاہے :
الرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضھم علی بعض وبماانفقوا من اموالھم۔
”مرد عورتوں پرحاکم ہیں کیونکہ خدانے بعض آدمیوں (مردوں) کو بعض آدمیوں (عورتوں) پرفضیلت دی ہے اورمردوں نے اپنامال خرچ کیاہے“۔
اورمرد کویہ حق حاکمیت اس کی پیدائشی بالادستی اوراخراجات برداست کرنے کی وجہ سے حاصل ہواہے لیکن مرد کے حاکم ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ کلی طور پر عورت پرمسلط ہو تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کوچھوڑ کراس کے ساتھ بے جاسختی کرنے لگے کیونکہ یہ چیزعورت کے حسن سلوک والے حق سے متصادم ہے کہ جسے قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکرکیاہے :
وعاشروھن بالمعروف ۔”اوران کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو“۔
بلاشک اسلام نے عقلی اورشرعی لحاظ سے جائز تمام کاموں میں بیوی کوشوہرکی اطاعت کرنے کاحکم دیاہے لیکن اسلام اس چیزکوپسند نہیں کرتاکہ حاکمیت کوبیوی کوذلیل کرنے اوراس کی ہتک حرمت کے لئے ہتھیار کے طورپراستعمال کرے۔
صحیح ہے کہ عورت پرسب سے زیادہ حق شوہرکاہے لیکن اس حق کی صحیح تشریح کرنی چاہئے اوراس کی ایسی تشریح نہیں کرنی چاہئے کہ جس کانتیجہ بیوی کوذلیل کرنا ہو۔ عورت ایک نرم ونازک پھول ہے ہرقسم کی سختی اوردر شتی سے یہ مرجھاجاتاہے اوراسے ایک ایسی باڑ کی ضرورت ہے جوآندھیوں سے محفوظ رکھے تاکہ یہ خوشبو پھیلاتارہے اورمہکنے کے موسم میں بے رونق نہ ہوجائے وہ باڑ وہ مردہے جس میں قربانی کی قوت ہے اورہمہ وقت اس کے لئے تیاررہتاہے۔
شوہرکادوسراحق یہ ہے کہ وہ جب چاہے بیوی اسے اپنے آپ پرقدرت دے سوائے ان استثنائی طبیعی حالات کے جوحواکی ہربیٹی پرآتے ہیں۔
پیغمبر فرماتے ہیں :
… ان من خیر(نسائکم)الولود الودود،والستیرة(العفیفہ)،العزیزة فی اھلھاالذلیلة مع بعلھا، الحصان مع غیرہ، التی تسمع لہ وتطیع امرہ، اذا خلابھا بذلت مااراد منھا۔
”بہترین بیوی وہ ہے جوبچے پیداکرے۔ محبت کرے اپنے گھرمیں عزیزاورشوہرکی فرمانبردارہو،نیز شوہرکے سامنے پاکدامن ہو، شوہرکی بات سنتی ہو اوراس کی اطاعت کرتی ہواورجب شوہرکے ساتھ تنہائی میں ہوتووہ جو چاہے اسے دیدے“۔
نیزفرماتے ہیں : خیرنسائکم التی اذا دخلت مع زوجھا خلعت درع الحیاء۔
”بہترین بیوی وہ ہے جوشوہرکے ساتھ ہوتوحیاکی چادراتاردے“۔
اوردیگرایسی احادیث ہیںجن میں بیوی کوشوہرکے بسترسے الگ ہونے سے منع کیاگیاہے اورایساکرنے پردنیاہی میں اسے اس کابدلہ ملتاہے اوروہ جب تک شوہرکے پاس نہیں آجاتی فرشتے اس پرلعنت کرتے رہتے ہیں۔
نیز بیوی کے لئے ضروری ہے کہ شوہرکااحترام کرے اورعہد عشق ومحبت میں اس کے ساتھ پوری طرح شریک رہے پیغمبر فرماتے ہیں :
لوامرت احدا ان یسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجھا ۔
”اگرمیں کسی کوکسی دوسرے کاسجدہ کرنے کاحکم دیتاتوبیوی کواپنے شوہر کا سجدہ کرنے کاحکم ضروردیتا“۔
پیغمبر کے ان فرامین کی روشنی میں بیوی کے لئے ضروری ہے کہ شوہرکے ساتھ بہت لطیف اورنرم رویہ رکھے اورایسے ایسے الفاظ سے مخاطب کرے جواس کے دل میں اترکراس کے چہرے پررونق بکھیردیں بالخصوص جب وہ سارے دن کے کام کاج سے تھکاماندا واپس آتاہے توبیوی کواس کایوں استقبال کرناچاہئے کہ اس کا چہرہ ہشاس بشاش ہوجائے اوراس پراپنی سب خدمات نچھاور کردینی چاہئے،یوں عورت شوہرکی خشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے پیغمبر کافرمان ہے کہ :
(فطوبی لامراة یرضی عنھا زوجھا)
”اس عورت کے لئے خوشخبری ہے جس کاشوہر اس سے راضی ہو“۔