تربیت فرزندان

Rate this item
(4 votes)

خلاصہ :

تربیت کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کانام ہے جو اسے بلند انسانی مرتبوں تک پہنچاسکے بہرحال تربیت کا عنوان اور موضوع انسان ہے کہ عام انسانوں کو کیا کرنا چاہے؟ہر انسان کو دوسرے انسان یا اگر اس میں لیاقت اور استعداد ہو تو اپنی اور دوسری قوموں اور گروہوں کی تربیت کرنا چائیے جیسے خدا تعالی کا حکم ہے:( یا ایہا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم ناراً )

متن:

تربیت اور تربیت کا مفہوم

تربیت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ ایسے کلمات میںسے ہیں جنہیں ہر ایک اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتاہے جیسے تربیت یافتہ، با ادب، مؤدب ۔

لغت۔اہل لغات نے تربیت کے معنی پالنا ،تربیت کرنا اور کسی کو تدریجاً نشو ونما دے کرکے حد ِکمال تک پہنچانا ہے اور تربیت مادہ ربّ سے نکلاہے اہل لغات نے بہت سے معانی ذکر کیئے ہیں ان میں سے بعض جیسے برتری ،سردار ،مالک،سیاستدان، اصلاح کرنے والا اور تربیت کرنے والا۔

اصطلاح ۔اہل عرف وعقلاء کی اصطلاح میں تربیت کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔

تربیت۔١ ،یعنی انسان کی پوشیدہ اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کی تربیت کرنا ،

تربیت۔٢ :انسان کو پستی سے نکال کر بلندی اور تکامل کی راہ پر گامزن کرنے اور اسے آگے بڑھانا،میں جن صفات کی ضرورت ہو ان کی دیکھ بھال کرکے صحیح پروان چڑھانے کا نام تربیت ہے ۔

تربیت٣۔ یعنی کسی کے اندر مناسب رفتار پیدا کرنے اور اس کو اچھے ہدف تک پہنچانے اور اس کی استعداد کو اجاگر کرنے کیلے کمالات کی طرف حرکت دینے کا نام تربیت ہے

تربیت٤۔تربیت میں کسی چیز کو وجود میں نہیں لایا جاتا بلکہ تربیت میں ان موجود صفات کی پرورش کی جاتی ہے جیسے مالی اور باغبان اپنے باغ میں پودوں اور پھولوں کی اچھی طریقے سے دیکھ بھال کرتاہے اور باغ کے ہر ایک پھول ور پودے کی پرورش کرتاہے اور انہیں مختلف موذی امراض سے بچانے کی کوشش کرتارہتاہے تاکہ اس سے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرے ۔

تربیت ٥۔ ہمارے استاد معظم قبلہ سید حسین مرتضی نقوی صاحب حفظہ اللہ کے الفاظ میں تربیت کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کانام ہے جو اسے بلند انسانی مرتبوں تک پہنچاسکے بہرحال تربیت کا عنوان اور موضوع انسان ہے کہ عام انسانوں کو کیا کرنا چاہے؟ہر انسان کو دوسرے انسان یا اگر اس میں لیاقت اور استعداد ہو تو اپنی اور دوسری قوموں اور گروہوں کی تربیت کرنا چائیے جیسے خدا تعالی کا حکم ہے:( یا ایہا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم ناراً )(١) تم اپنی بھی تربیت کرو تاکہ ذلت وپستی اور جہنم میںجانے کی بجائے انسان بلند مرتبوں تک پہنچو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بھی تربیت کرو اور ان کو بھی پستی ،ذلت اور جہنم کی آ گ سے بچائو گویا اس آیت کا لہجہ یہ بتلارہاہے کہ تربیت ایک امر واجب اور ضروری ہے کیونکہ ذلت ،پستی اور جہنم سے بچنے اور کمالات کی طرف بڑھنے کیلے تربیت ضروری ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تربیت کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان اپنی فردی اور اجتماعی ذمہ داری کو انجام دے اور دوسروں کے حقوق کو پائمال نہ کرے اور نہ ہی تجاوز کرے۔

حضرت امام جعفر صادق سے ابو بصیر نے اس آیت مذکورہ کے ضمن میں عرض کیا ،میں ان کو (اہل وعیال اوردوسرے لوگوں کو ) کیسے بچائوں ؟ امام نے فرمایا امر خدا کا حکم دو اور نہی خدا سے روکو اگر تمہاری اطاعت کی تو تم انہیں جہنم سے بچالیا ہے اور اگر نافرمانی کی تو تم نے اپنا فریضہ ادا کیا امام کے اس فرمان سے معلوم ہوتاہے کہ تربیت فرائض میں سے ایک فرض اور واجب ہے اوراسی طرح ایک آیہ مجیدہ کی تفسیر میں تربیت کے مفہوم کو امام مزید واضح

فرماتے ہیں (ومن احیا ھا فکانما احیا الناس ).(٢) جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا انسانوں کو زندہ کیا امام جعفر صادق اس آیہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کہ زندہ کرنے سے مراد ظاہری حیات وزندگی نہیں ہے بلکہ یہاں زندہ کرنے سے مراد تربیت ِانسان ہے ایک مردہ انسان کو زندہ کرنے کا مقصد اسے گمراہی سے ہدایت کی طرف لے آنا اور اس کی تربیت کرنا، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے انبیائ کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور ھدایت قرار دیا ہے، (کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلواعلیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم ا لکتاب والحکمة ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون).(٣) ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتاہے اور تمہیں پاکیزہ کرتاہے اور تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتاہے جو تم نہیں جانتے ایک اور جگہ انبیاء علیہم السلام کی خدمات کو اللہ تعالی نے تربیت کے نام پر یاد فرمایا:

(ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایاتک ویعلمھم الکتاب والحکمة ویزکیہم انک انت العزیز الحکیم).( ٤)

اے ہمارے رب !ان میں ایک رسول بھیج جو انہیں آیات سنائے اور کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور انہیں ہر قسم کی پستی اور ذلت سے نکال کر پاک کرے اور بیشک تو تو غالب و صاحب حکمت ہے اس لئیے اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ١٤ چہاردہ معصوم ہستیوں کو انسان کی تربیت کیلے بھیجا تاکہ انسان کو اس تربیت کے ذریعہ پستی سے نکال کر کمال تک پہنچائے اسی وجہ سے اللہ تعالی نے سورہ مائدہ کی آیت ٣٢ میں ایک انسان کی تربیت اور ہدایت کو تمام انسانوں کی تربیت وہدایت سے تعبیر فرمایا:

( من احیاھا فکا نما احیا الناس جمیعاً).

شاید یہی وجہ تھی کہ انبیاء اور اولیاء الھی کی سب سے بڑی ذمہ داری تعلیم وتربیت تھی ۔

اور اللہ کا مومنین پر احسان ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت کیلے ان کی طرف رسول بھیجے جیسے اس آیت میں ارشاد رب العزت ہے :

(لقد من اللہ علی المومنین اذبعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم ،لکتاب والحکمة وان کانو ا من قبل لفی ضلال مبین ).(5)

ایمان والوں پر اللہ نے احسان کیا کہ ان کے پاس ایک رسول بھیجا جو انہی میں سے ہے جو انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور ان کا تزکیہ نفس کرتاہے اگرچہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی اور پستی میں تھے ایک اور آیت میں تعلیم وتربیت کو انسانوں کیلے مایہ حیات قرار دیا ہے :اور وہ لوگ جنہیں انبیا ء الہی کی تعلیم وتربیت حاصل نہیں ہوئی انہیں مردہ قرار دیاہے:

( یا ایہا الذین امنوا استجیبوا للہ ولرسولہ اذا دعاکم لما یحییکم )

اے ایمان والو !اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات افرینش باتوں کی طرف دعوت دیں ان مزکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تربیت کیلے کتنا بڑا انتظام کیا کہ رسول بھیجے امام بھیجے یہاں تک کہ انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ایک انسان کی تربیت کیلے خدا نے کتنا بڑا انتظام کیا کہ اپنی طرف سے انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف افراد کو اس ذمہ داری کو ادا کرنے کیلئے کبھی رسول ِظاہری اور کبھی رسول ِ باطنی جیسی نعمت دے کر تربیت فرمائی اور کبھی والدین کو تربیت کیلے مسئو لیت دے دی۔

کہ ایک حد تک والدین تربیت کریں اور اللہ تعالی نے اپنے رسول وامام کے ذریعہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ تم اپنی تربیت کرو اور لوگوں کی بھی تربیت کرو اور ان کو ذلت وپستی اور جہنم کی آگ سے بچائو ۔سورہ تحریم آیت ٦ میں سختی سے تربیت کی طرف متوجہ کیا اور پھر پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ تربیت میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اگر رشتہ دار ہیں تو بھی اس تربیت میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اگر علماء اور دانشمند ہیں تو وہ بھی معاشرے کے تمام انداز کی تربیت کریں اور لوگوں کو انحراف اور ذلت وپستی سے نکالیں اور معاشرے کی مشکلات کو حل کریں اور اگر اساتید ہیں تو بھی فقط ایک کورس اور کتابوں کے نصاب کی حد تک محدود نہ رہیں بلکہ وہ بھی اس تربیت ِانسانی میں مسئول ہیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کریں اور اگر حکومت اسلامی ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں ایسے امور اور قوانین لاگو کرے کہ جس کے ذریعہ معاشرے کے تمام آفراد تربیت یافتہ اور مہذب بن سکیں اور خود معاشرے کے ہر فرد کی بھی یہی ذمہ داری ہے۔

کہ تربیت کے اصول وضوابط کی پابندی کریں تاکہ تربیت کے امور کو دوسرے لوگ اپنے لیے ایک نمونہ اور الگو سمجھیں اور اسی طرح جب ہر فرد اپنے عہدے کو پابندی سے پورا کرے گا تو اس سے کئی معاشرے اور ملک تربیت کی شاہراہ پر چل پڑیں گے اور اس اہم تربیت سے سب لوگ استفادہ کریں گے اور اس عظیم فریضے کو پورا کرسکیں گے کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی کامیابی اور اس کی ترقی کا راز اچھی تربیت اور پرورش میں پوشیدہ ہے پیغمبر اسلام ۖ جنہوں نے اپنی مبارک زندگی کو انسان سازی اور گمراہ انسانو ںکی ہدایت اور تربیت میں گزاری اور اپنی بعثت کے فلسفے اور ہدف کو یوں بیان فرمایا:( انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق) .(6 )

اسلام کی ترقی میں رسول اکرم ۖ کے حسن ِاخلاق کو زیادہ دخل ہے کیونکہ خدا وند عالم اسلام کی وسعت وبلندی کی نسبت اخلاق ِپیغمبر ۖکی طرف دیتاہے :

(ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفظوا من حولک) (7 )

اے پیغمبر ۖاگر تم بد مزاج وسخت دل ہوتے تو لوگ تم سے دور ہوجاتے اور منتشر ہوجاتے پیغمبر اسلام انسان کی تربیت کے پہلے معلم تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسان کی تربیت میں گزاری ۔

ایک مرتبہ رسولۖ اسلام اپنے اصحاب کے ساتھ ایک گلی سے گزر رہے تھے اس گلی میں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے تھے آپ نے بچوں کو دیکھا اور ٹھنڈی سانس بھر کر کہا اللہ اکبر ،اصحاب نے جب رسول خدا کے چہرے پر غم کے اثرات دیکھے تو آپ سے عرض کی یا رسول اللہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا کہ ہائے آخری زمانے کے بچے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنی اولاد کے کھانے پینے رہنے سہنے کی فکر کی حد تک زیادہ توجہ کریںگے لیکن آخرت کے بارے بالکل بے فکر ہوں گے یہ ہماری تربیت اور اولاد کی تربیت انہیں یاد آرہی تھی اور ان کے غم کا باعث بن رہی تھی یا خود امام حسین سے پوچھا گیا کہ آپ کربلا میں کیوں جارہے ہیںامام حسین نے جواب دیا کہ:

(بل خرجت لاصلاح امت جدی ) .(8 )

میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے مدینے سے کربلا جارہا ہوں :(ارید ان امر بالمعروف والنھی عن المنکر)

امام نے فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ لو گوں کو اچھے امور کی تربیت کروں اور برے کاموں سے روکوں تربیت ِانسانی میں پیغمبر اسلام اور ان کی آل ِاطہار کو کتنا فکر دامن گیر تھی اللہ نے پیغمبر اسلام کو انسان کی تربیت کیلے اسوہ حسنہ کا پیکر بنا کر مبعوث فرمایا:

( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة)(9) در حقیقت تم لوگوں کیلے اللہ نے رسول کو بہترین نمونہ بنایا تھا ۔

حضرت نبی اکرم ۖ اس دنیا میں لوگوں کیلئے ایک مثالی نمونہ بن کر تشریف لائے تھے اور آنحضرت ۖ اپنے عمل سے انسانوں کی ہدایت وتربیت فرمائی اور آپ کی تربیت سے دنیا میں ایک مثالی امت برپا ہوئی جس کے بارے میں خدا فرماتاہے :

(کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللہ ) (10)

اسلام کی نظر میں نمونہ عمل تربیت کا بہترین ذریعہ ہے اور اسلام نے اس اصول کو کہ تربیت دے کر جس قسم کے افراد تیار کرنے ہیں ان کے سامنے اس کو مثالی نمونہ وعملی پیکر بن کر رہیں جس طرح امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

(کونوا دعاة الناس بغیر الالسنتکم ) (11)کہ لوگوں کو اپنے عمل کے ذریعہ دعوت دو۔

تربیت کی اقسام

(١) فلسفہ تربیت (٢) فردی تربیت (٣) اجتماعی تربیت (٤) جسمانی تربیت (٥)روحانی تربیت

(٦) معاشرتی تربیت (٧) جغرافیائی تربیت (٨) تربیت اور حقوق (٩) سیاست اور تربیت

مذکورہ بالااقسامِ تربیت کے علاوہ اور بھی اقسا م ہیں لیکن مشہور ومعروف اقسام ِتربیت یہی ہیں اوران میں سے ہرایک کی مختصر تشریح کرتے ہیں۔

١۔ فلسفہ تربیت

فلسفہ تربیت میں اصل موضوع انسان کی ذات ہے کہ آیا انسان کی تربیت کا کوئی مقصد ہے یا نہیں پھر انسان اورمربی کے درمیان کو نسا رابطہ ہے؟ مربی کی تربیت میں کونسی باتیںاصول ِتربیت کے عنوان سے مد نظر ہیں ؟پھر انسان کی تربیت سے پہلے خود انسان کیا ہے اور کیسے دنیا میں آیا ہے اور کس طرح انسان کی تربیت کریں؟

٢۔ فردی تربیت

ایک فرد کی تربیت معاشرے کی تربیت کا سبب بنتی ہے۔ اگر ہر فرد تربیت یافتہ ہوگا تو اس سے ایک معاشرہ تشکیل پائے گا۔ اگر فردی تربیت نہ ہوگی تو معاشرے کا فرد قرار نہیں پائے گا اور پھر فردی تربیت میںماں باپ کی طرز فکر کو دیکھا جاتاہے کہ جس طرح کے وہ لوگ عقائد رکھتے ہونگے اسی طرح اس کی تربیت کریںگے۔

٣۔ اجتماعی تربیت

اجتماعی تربیت جیسے استاد وشاگرداور مدرسہ واسکول کی تربیت کہ کس طرح کامعلم ہو تو تربیت پانے والے افرادکو کیاکرنا چاہیے،اسکول کا اثر تربیت اجتماعی طور پرکیا ہوتاہے اور اجتماعی تربیت میں کونسی چیزوں کی رعایت کرنی چاہیے اور اجتماعی تربیت کی کیا قدروقیمت ہے؟ ۔بہر حال اور بہت سے امور میں بحث ہوگی کہ اجتماعی تربیت مختلف افراد اور مختلف قومیںاور استعداد وغیرہ، مورد بحث ہیں۔

٤۔جسمانی تربیت

کہ ورزش کے لیے مثلاًاعضاء صحیح وسالم ہونے چاہیں یا اعضائے جسمانی اور اعصاب اور گوشت و پوست وغیرہ کی کیسے تربیت کی جائے ؟۔ انھیں کیسا رکھا جائے ؟،غذا کونسی ہونی چائیے؟ عقل و ہوش کیساہو؟ حواس ظاہری خمسہ کی تربیت اورحافظہ و شعور کی تربیت، پھر جسمانی تربیت میں طاقت وکمزوری وغیرہ سے بحث ہوگی اور مختلف حالات سے بحث مثلاًجسم کے لیے کونسی چیز یںمضر ہیں اورکونسی چیزیں مفید ہیں۔

٥۔روحانی تربیت

روحانی تربیت کے متعلق پہلے کافی گفتگو ہو چکی ہے کہ جس طرح جسم کے لیے غذا و لباس کی ضروت ہے ۔اسی طرح روح کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھ کر اسے اس کی ضروریات فراہم کی جائیں۔

٦۔معاشرتی تربیت

کہ ایک انسان معاشرے میں کس طرح زندگی گزارے اور کس طرح معاشرے کی ذمہ داری کو نبھاے ۔

٧ ۔ جغرافیائی تربیت

جغرافیائی تربیت میںمختلف جہت سے گفتگو ہوگی کہ ہر ملک وشہر کی آب وہوا کیسی ہے ؟۔اور تربیت پر اسکے کیا اثرات مر تب ہوتے ہیں ؟ ہر ملک وشہر کا جغرافیہ مختلف ہے ۔پہلے اس کے بارے میںجاننا ضروری ہے ۔پھر تربیت کو اس کی جغرافیائی انداز سے پیش کیا جاسکتاہے۔

٨۔تربیت اور حقوق

تربیت اور حقوق کے لحاظ سے کافی مفصل بحث ہے کہ والدین کے حقوق کیا ہیں، اولاد کے حقوق اور پھر ایک مربی کے حقوق اور اساتذہ کے حقوق، شاگردوں کے حقوق پھر ایک علاقے کے دوسرے علاقے پر حقوق اور پھر ایک شہر کے دوسرے شہر وں پر حقوق اور ایک ملک کے دوسرے ممالک پر کون سے حقوق ہیں ۔ اس تربیت میں اگر ان حقوق کو بیان کیا جائے تو ایک علیحدہ کی کتاب ضرورت ہے۔

کیونکہ اگر مختلف حقوق اور تربیت میں فقط والدین اور اولاد کے حقوق پر اجمالاًبحث کی جائے اور وہ بھی احادیث کی رو سے ورنہ آیات اور احادیث کو ہی اگر جمع کریں تو پھر ایک مفصل کتاب کی شکل میں ہو سکتاہے کہ بیان کیاجائے۔

٩۔سیاست اور تربیت

اس موضوع میں بھی کافی بحث ہے کہ سیاسی لوگوں نے تربیت پر کتنی توجہ کی بادشاہوں نے رعایہ کی تربیت پر کیسے خرچ کیایاکررہے ہیں یا ان کے کچھ اور مقاصدہیں اور پھر ہر زمانے میں ہر ملک اور اس کے سیاسی افراد نے تربیت پر کتنا زور دیا اور دیتے رہے ہیں یا آج کل ہر ملک اور اس کے سیاسی افراد تربیت پر توجہ دے رہے ہیں ۔اور ان لوگوں پر تربیت کے لحاظ سے کتنا حق ہے اور تربیت میں وہ مخصوص کردار کے حامل ہیں اور انھیں اس تربیت پر کیا کرنا چاہیے۔

مثلاًہر ملک وشہر میں اسکول و کالج ہیں ، مساجد و مدارس ہیں آیا ان مدار س وکالجوں کے ذریعہ تربیت کا حق ادا ہو رہاہے ، یا فقط ان میں سیاسی اہداف کو پورا کیا جارہاہے ۔ بہر حال کافی طولانی موضوع ہے ۔اس پر ہرملک وملت کے احوال سے واقف ہو کرکچھ کہا جاسکتاہے اور پھر وقت بھی ہو کہ جس میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی جائے۔

استعدادِ تربیت

١۔ غرائض۔٢ فطرت۔ ٣ استعدادِ اندرونی۔ ٤ الہام۔ ٥۔علم وآگاہی ۔٦۔ سعادت طلبی ۔٧ ۔ قدرت وتوانائی۔٨ ۔عقل ۔مذکورہ بالا امور تربیت کے وہ عوامل ہیں جو ہر انسان میں پائے جاتے ہیں اور ہر انسان میں یہ استعدادہے کہ وہ مذکورہ عوامل کو پالے اور تربیت سے بہرہ مند ہو بر حال ان عوامل کی مختصر وضاحت کرتے ہیں تاکہ تربیت کے موضوع کو کسی حد تک واضح کرسکیں انسان اور حیوان میں تربیت کے لحاظ سے کافی فرق ہے اگرچہ کچھ جانوروں کی تربیت کی جاتی ہے اور ان پر بھی تربیت کا نام صادق آتاہے لیکن تربیت کی استداد انسان میں زیادہ ہے۔

١۔ غرائض

غرائض سے مراد انسان کی جسمانی خواہشات اور آرزوئیں ہیں کہ جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں کسی میں زیادہ کسی میں کم بہرحال خواہش ِنفس کا تو کوئی انکارنہیںکرسکتالیکن خواہشات کو اپنانے اور اپنی مرضی سے حیوان کی طرح بعض امور کو انجام دینا وغیرہ میں اختلافِ نظر ہے باوجود اس خواہش اندرونی کے انسان میں صلاحیت وقدرت ہے کہ وہ منشائے الٰہی کے تحت تربیت پائے اوریہ استعداد وقدرت انسان کی ذاتی خواہش کی حد تک تربیت میں معاون بھی بنتی ہیں مثلاً کھانا پیناوغیرہ اور محبت ونفرت دشمنی ودوستی جیسے امور کو انسان کی ذاتی غرض کہا جاتاہے ۔

٢۔ فطرت

انسان میں ایک فطرت ہے اس سے مراد اس کی طبعی تخلیق مراد ہے کہ وہ طبعاً فطرتِ انسانی پر پیدا ہواہے اور اس میں تربیتِ استعداد فطری امر ہے کیونکہ استعداد ایک فطری امر ہے اور اس کے بارے میں پہلے چند آیات زکر کی ہیں ،کتاب کے حجم کو دیکھتے ہوئے فقط اشارہ کرنا کافی ہے مثلاً انسان فطرتاً سچائی کو دوست رکھتاہے جھوٹ سے فطرتاً پرہیز کرتاہے امانت کی حفاظت کرتاہے اور دوسرے فطری امور وغیرہ ۔

٣۔صلاحیت اندرونی

انسان کے اندر بہت سی چھپی ہوئی صلاحیتیں ،موجود ہیں جو نشو ونما اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بعض کو خود ظاہر کرنا پڑتاہے مثلاً انسان میں گفتگو کرنے کی استعداد ہے لیکن اس کیلئے گفتگو کے طریقے مثلاً کہ بڑوں کے سامنے کیسے گفتگو کی جائے اور استاد کے سامنے کیسے بات کی جائے وغیرہ جیسی ضروریات کو تربیت کے ذریعہ ہی انجام دیا جاسکتاہے ورنہ بولنا ،رونا ،ہنسنا وغیرہ یہ ایسے اندرونی استعدادی امور ہیں کہ جن کو وہ روزمرہ کی زندگی میں انجام دیا جاتاہے لیکن تربیت استعدادی امور کو ان کے محل وموقع کی مناسبت سے ہی استعمال کرنا سکھاتی ہے اور تربیت کرنے کیلے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا اور استعمال میں لانے کیلئے ایک منجھے ہوئے مربی کی ضرورت ہے تاکہ وہ تربیت پانے والے افراد کی چھپی ہوئی صلاحیتوں میں دخل اندازی کرے اور ان کی اس استعدادی قوت کو استعمال میں لائے۔

٤۔ الہام

انسان میں بعض ایسی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ جن کا پہلے سے علم نہیں ہوتا لیکن انسان ان سے اچانک آگاہی حاصل کرتاہے قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہواہے۔

( ونفس وما سوھا فا لھمھا فجورھا وتقوھا )(12)

سورہ شمس کہ اس میں الہام نیکی اور برائی کی صلاحیت ہے لہٰذا تربیت میں یہ بھی عوامل پایا جاتاہے کہ بعض انسانوں کو تربیتی امور میں نیکیوں کا الہام ہوتاہے اور بعض کو برائی کی طرف البتہ نیکیوں کا الہام خدا کی طرف سے اور برائیوں کا الہام شیطانی وسوسوں سے ہوتاہے ۔

٥۔ علم وآگاہی

انسان میں علم حاصل کرنے کی استعداد موجود ہے اور انسان کسی چیز کو اگر سونگھ لے تو اس سے اس کے علم میں اضافہ ہوگا کہ یہ خوش بودار چیز ہے یا بد بودار چیز یا یہ کون سے پھول کی خوش بو ہے اسی طرح اگر کسی چیز کو چھو لے اگر اس سے سردی وگرمی کا احساس ہو تو اس کے علم میں اضافے کا سبب بنے گی اسی طرح کسی چیز سے جاہل ہو تو تو اس سے علم حاصل کرنے کی استعداد وقوت ہر انسان میں ہے برحال خلاصہ یہ ہے کہ تربیت کیلے علم جیسی استعداد انسان میں موجود ہے ۔

٦۔سعادت طلبی

انسان فطرتاً سعادت کا خواہاں ہے اور اس میں سعادت طلب کرنے کی استعداد موجود ہے لہذا تربیت سے بہرہ مند ہوسکتا ہے اور اپنے آپ کو اس دنیا میں سعید وخوش بخت بناسکتا ہے اور سعادت یا دنیا کی ہو گی یا آخرت کی یا اپنی ذات کی سعادت کو طلب کرنا چاہتا ہے یا دوسروں کی سعادت کی فکر کرتاہے کہ جس طرح انبیاء کرام ومعصومین نے سب کی سعادت کو مد نظر رکھ کر زحمتیں اٹھائیں۔

٧۔ قدرت وتوانائی

تربیت کو اگے بڑھانے کیلے جس کی تربیت کی جارہی ہے اس میں قدرت وتوانائی ہونی چاہئیے کہ اور یہ فطری بات ہے کہ خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے اور اس میں یہ قدرت ہے کہ وہ تربیت کے زرین اصولوں پر عمل کرکے اپنی استعداد بڑھا سکتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ خدا کی ساری مخلوق میں قدرت وتوانائی اس کی اپنی حیثیت کے مطابق پائی جاتی ہے مثلاً جمادات میں دیکھیں نمو پایاجاتاہے نباتات میں بھی ہے حیوانات میں بھی ہے اور انسان میں بدرجہ اتم (پورے طورپر) موجود ہے

٨۔عقل وفکر

عقل وفکر بھی استعداد تربیت کے عوامل میں سے ایک ہے اور حیوان وانسان کے درمیان بڑا فرق عقل کی وجہ سے ہے کہ انسان مکلف ہے تو عقل کی وجہ پھر اگر عقل نہ ہوگی تو تربیت کیسے ہوسکے گی اسلام کے سب احکام پر عمل کرنا عقل کی وجہ سے ہے جو عقل نہیں رکھتا اس پر کوئی تکلیف نہیں لہذا عقل تربیت کی استعداد بڑھانے میں سے ایک عامل ہے اس کے علاوہ دوسرے عوامل مثلاً اختیار وتقلید ،تجربہ ،حافظہ وآزادی احساس ووعظ ونصیحت کہ جن کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے یہ سب تربیت کے عوامل میں سے ہیں خدا ہمیں یہ قوت وطاقت دے کہ ہم اپنی اور اپنی اولاد و معاشرے کی تربیت کرسکیں آمین ۔

تربیت کے اصول

١،محبت٢،اعتدال٣،تشویق٤،ماحول،٥آزادی٦،مشاہدات٧،تفکر٨،نصیحت٩،نمونہ١٠،قصے وغیرہ ١١،عا د ت ١٢، سزا

١۔محبت

انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے اور اپنے نفس سے محبت کرتاہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی ہر لذت سے بہرہ مند ور ہو اور بہت سی آسائش اور نعمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا خواہشمند ہے مثلاً چاہتاہے کہ اس کی عمرطویل ہو اور اسے ہر آدمی چاہے اور محبت کرے بلکہ وہ تمام کائنات کا محور ومرکز بن جائے ،وانہ لحب الخیر لشدید سورہ عادیات آیت٨ وہ مال ودولت وخیر میں زیادہ مبتلاہے ان خواہشوں وتمنائوں کے حصول میں حائل ہونے والی ہر مادی ومعنوی رکاوٹ کو انسان ناپسند کرتاہے اور ان لوگوں سے نفرت کرتاہے جو اس کے درپے آزار ہوں بہرحال محبت ونفرت کے جذبات انسان کے نفس کی گہرائیوں میں موجود ہیں ۔اسلام فطرت کے ان میلانات سے برسر پیکار ہونے کی بجائے ان کو مہذب اور شائستہ بناتاہے اسی لیے اسلام نے محبت ونفرت کے جذبات پر روح اور عقل کے ضوابط قائم کیے ہیں۔

کہ ان ضوابط کو خدا کی ذات سے مربوط وپیوست کردے اسلام انسان کو اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ اپنی ذات سے محبت نہ کرے کیونکہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کو عمل کرنے پر ابھارتاہے مگر اسلام کی نظر میں حب ِنفس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ انسان لذتوں کے حصول کے پیچھے دوڑتارہے بلکہ اسلام کی نظر میں حب ِنفس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نصیحت کرتارہے اور اسے صحیح سمت کی طرف راہنمائی اور تربیت کرے تاکہ تربیت ا وراہنمائی جو اسے دنیا اور آخرت کی فلاح وکامیابی کی جانب لے جائے اور اسلام انسان کو حد ِاعتدال کی تعلیم وتربیت کرتاہے کہ حبِ نفس میں انسان حد ِ اعتدال سے کام لے اور اسلام نے ہر وقت لذتوں اور حبِ نفس کے تعاقب میں رہنے کو ظلم سے تعبیر فرمایا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر لحظہ نفس کو وسوسو ںاور خواہشوں میں ڈالنا نفس کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے ۔

٢۔اعتدال

انسان تربیت کرنے کیلئے اعتدال سے کام لے چاہے وہ اپنی تربیت کررہاہو یا دوسروں کی تربیت میں مصروف ہو انسان کو ہر چیز میں عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے اور کسی کام میں حد سے زیادہ بڑھنا اور تجاوز کرنا درست نہیں ہے اسلام ہمیشہ انسان کو حد اعتدال کا درس دیتاہے چاہے وہ مربی ہوتو اسے چاہئے کہ جو تربیت کے دوران اعتدال اور میانہ روی کو محفوظ رکھے اورچاہے وہ اپنی تربیت کررہاہو تب بھی اسے چاہئے کہ اسلام کے قوانین کی رعایت کرے کیونکہ اعتدال اور عدالت ایک ایسا فطری قانون ہے خدا جسے پوری کائنات میں مشاہدہ کیاجاسکتاہے خداجسے پوری کائنات نے خط ِ سیر ِ جہان کو عدالت کی بنیاد پر قائم کیاہے جس سے تخلف نا ممکن ہے خود انسان اپنے بدن کے اندر کے اعضاء کے درمیان اسرار آمیز ہم آہنگی وہمکاری کا مطالعہ کرسکتاہے جو عالم ِتخلیق کی عظیم دستگاہ کا حیرت انگیز مبنی بر تعادل ِ دقیق کا درخشاں ترین نمونہ ہے اور میانہ روی ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو شائستہ وپسندیدہ اعمال کے بجالانے پر آمادہ کرتی ہے ۔میانہ روی اور عدالت ایک ایسی چیز ہے جو انسانی معاشرے کو ایک دوسرے سے مرتبط کرتی ہے اور معاشرے کے ہر انسان کے درمیان محبت والفت پیدا کرتی ہے بلکہ انسان کو خیر وصلاح کے راستے پر چلانے کا سبب ہوتی ہے۔

٣۔تشویق ورغبت

انسان کے عدم ِپابندی کے میلان کو اسلام اس طرح بروئے کار لاتاہے کہ نفس ِانسانی میں پہلے سے یہ جذبہ ِشوق پیدا کرتاہے کہ انسان جو کہ کچھ بھی تربیت کے فرائض انجام دے رہاہے اور جو ذمہ داریاں پوری کررہاہے وہ کسی ذاتی غرض کی تکمیل کیلے نہیں کررہا ہے بلکہ خالصتاً خدا کیلے کررہاہے جو ایمان کا ایک حقیقی ثمرہ ہے اور خدا وند عالم بھی انسان کے اچھے افعال وکردار کے عوض بہشت کی خوش خبری دیتاہے اور انسان اسی طرح رغبت وشوق سے مزید اپنے افعال وکردار کو سدھاتارہے اور تربیت اگر مربی ہے تو بچوں کو مزید اچھے کاموں پر شوق دلائے اور اچھے امور کو انجام دینے پر ان بچوں کی تعریف کرے تاکہ تربیت میں وہ آگے بڑھ سکیں۔

٤۔ماحول

انسان کی تربیت میں ماحول زیادہ مؤثر ہے ،ماحول ایک دفعہ گھریلوہے تو گھر میں ایسا ماحول بنائیں جو اسلام کی نظر میں مفید ہے ایک دفعہ گھر سے باہر کا ماحول ہے ،اگر گھر کا ماحول تو اچھا ہے لیکن باہر کا ماحول اچھا نہیں تب بھی تربیت پر برا اثر پڑے گا لہذا گھریلوں ماحول کے ساتھ ساتھ باہر کا ماحول بھی اسلامی ماحول ہو تو تب تربیت کا اثر ہوتاہے اس لیے تربیت کے دوران ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو تربیت میں مثبت اثرات رکھتاہو کیونکہ اسلام کے دستورات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایسے ماحول سے دور رکھے جس میں مذہبی واسلامی رسومات آزادی کے ساتھ انجام نہ پاسکے کیونکہ اسلام نے ماحول کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور تاکید کی ہے کہ اگر کسی نئے ماحول میں جانا چاہتے ہو تو وہاں کے ماحول کی تحقیق کرو اور جس ماحول میں زندگی گزارہاہے اگر وہ صحیح نہیں تو اسے چاہیے کہ اس ماحول ومعاشرے سے ہجرت کرے البتہ ماحول کے بنانے یا بگاڑنے میں آفراد کا کس قدر کردار ہے؟ یہ بحث معاشرے شناس افراد کا کام ہے لیکن یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ ماحول کا کردار ِانسانی تربیت میں بہت زیادہ مؤثر ہے کیانکہ انسان کے افعال اس کی فکر کا نتیجہ ہیں اور انسان اسی ماحول کی طرز فکر کو اختیار کرتاہے جہاں وہ زندگی بسر کرررہاہے ۔

٥۔ آزادی

اسلام نے انسان کیلئے حدود معین کی ہیں جو فرائض اس کے ذمہ لگائے ہیں ان پر چل کر تربیت کے ہدف کو پورا کیا جاسکتاہے ۔انسان ایک حد تک آزاد ہے لیکن یہ آزادی حد ِاعتدال سے نہ بڑھے یعنی اسلام کے دستورات پر عمل کرے اور جن چیزوں سے اسلام نے اسلام روکے ان سے رکے اور جن چیزوں کی اجازت دے انہیں انجام دے اسلام نہ بالکل آزادی ِمطلق کا قائل ہے اور نہ بالکل انسان کو قید وبند کی صعوبتوں میں رکھنے کا قائل ہے بلکہ آزادی میں انسان میانہ روی اختیار کرے تو تربیت جیسے فرض کو پورا کیاجاسکتاہے چاہے وہ انسان اپنی تربیت کررہاہو جو یا بچوں کی یا ایک معاشرے کی ۔

٦۔مشاہدات وحادثات

انسانی زندگی حادثات ومشاہدات سے لبریز ہے اور یہ حادثات ومشاہدات ایسے اسباب کے تحت وجود میں آتے ہیں جو انسانی ارادے سے ماوراء ہوتے ہیں اور ایک ماہر تربیت کرنے والا ان مشاہدات وحادثات وواقعات کو نفس ِانسانی کی تربیت کرنے اور صلاحیتوں کو صیقل کرنے میں لگاتاہے ۔تربیت کے ذرائع میں حادثات ومشاہدات ایک ذریعہ تربیت کے طور پر زیادہ مؤثر کردار ادا کرتے ہیں اس لیے کہ حادثات سے انسان کی طبعیت میںنرمی پیدا ہوتی ہے اور انسان مکمل طور پر تربیت کیلئے آمادہ ہوجاتاہے اور اس حالت میں انسان تربیت کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتاہے اور تربیت وہدایت کے گہرے اور دیر پااثرات مترتب ہوسکتے ہیں ۔

٧۔تفکر وعقل

انسان اپنی فکر کی اسی طرح تربیت کرے جس طرح اسلام نے تعلیم دی ہے اسلام نے تفکر وعقل کی تربیت اور جسم کی تربیت دونوں کو اس کی روح کے ساتھ پیوست کرکے ایک تربیت شدہ انسان تعبیر فرمایا یعنی اگر انسان اپنی فکر کی تربیت نہ کرے فقط جسم کو رشد وکمال کی حد تک پہنچادے تو اس کوصرف تربیت ِ جسمی تو کہا جائے گا لیکن انسان مرکب ہے جسم وروح سے اس لیے تربیت ِانسانی کا نام اس پر صادق نہ آئے گا کیونکہ عقل وفکر جسم ِانسانی کا ایک حصہ ہیں جب تک انسان اپنے سارے اعضاء وجوارح کی تربیت نہیں کرے گا اس وقت تک اسے تربیت شدہ انسان نہیں کہا جائے گا اسلام چونکہ دین ِفطرت ہے اس لیے وہ خدا کی عطا کردہ تمام انسانی قوتوں اور صلاحیتوں کا احترام کرتاہے اور ان صلاحیتوں کی صحیح قدرت عطا کرتاہے اور ان کو انسانیت کے مفاد میں بروئے کار لاتاہے لہذا اپنی تربیت اور بچوں کی تربیت میں عقل وفکر کوصحیح طریقے سے استعمال کرے۔

٨۔نصیحت

تربیت کے اصولوں میں سے ایک اصول نصیحت کرنا ہے چاہے خود اپنے آپ کو نصیحت کرے یا دوسروں کو انسانی نفس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کلام ونصیحت کا اثر قبول کرتا اور تأثیر نصیحت وجدان کے ذریعہ نفس ِانسانی پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے بہرحال تربیت کیلے نصیحت ایک لازمی اور ضروی عمل ہے اس لیے کہ انسان میں ایسے فطری رجحانات موجود ہوتے ہیں جن کو مسلسل تہذیب اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے لہذایہی وجہ تھی انبیاء کرام اپنی امتوں کو تربیت کرتے وقت مسلسل نصیحت کا عمل انجام دیتے تھے نصیحت کے بارے میں مفصل آحادیث وراویات کو آگے چل کر بیان کریںگے کہ تربیت میں نصیحت کو کتنا دخل ہے۔

٩۔مثالی نمونہ

اسلام نے انسانی تربیت میں بہت سے نمونے پیش کیے ہیں تاکہ انسان ان نمونوں کو سے تربیت سیکھ اور سجھ کر اپنی اور اپنے ارگرد کے لوگوں کی تربیت میں حیران وپریشان نہ رہے لیکن نمونہ کو دیکھ کر جب تک عملی اقدام نہ کریگا اس وقت تک نمونہ سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اسلام نے رسول ِاسلام اور آئمہ معصومین کو لوگوں کیلے نمونہ بناکر بھیجا تاکہ ان ہستیوں کو اپنے لیے نمونہ اور الگو بناکر اپنی اور اپنے ارگرد کے آفراد کی تربیت کریں جیسے خدا فرماتاہے :( لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة )(13) در حقیقت رسول اللہ تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں ۔

١٠۔قصص وکہانیاں

قصوں اور کہانیوں میں ایک پر اثر ہوتاہے جو انسانی تربیت پر اثر انداز ہیں اللہ تعالی نے انسان کی اس

فطرت کو جانتے ہوئے کہ وہ طبعاً قصوں اور کہانیوں کی طرف مائل ہوتاہے اور ان سے متاثر ہوتاہے قرآم مجید میں قصوّںکو بطور ذریعہ تربیت ذکر فرمایا تاکہ انسان اپنے نفس کی تربیت میں گذشتہ واقعات وتجربات سے سبق آموز درس حاصل کرے اور بچوں کیلے بھی بہت مفید ہیں ۔

١١۔عادت

انسان کی تربیت میں عادت کا بڑا اہم کردار ہے اس کی وجہ سے انسان کے بہت سے مشکل امور آسان ہوتے ہیں جیسے انسانی فطرت میں ہے چلنا،بولنا وغیرہ لیکن عادت کا اس قدر عظیم فائدہ ہے وہاں یہ عادت بسا اوقات ایک راکاوٹ بھی بن جاتی ہے جب انسان اپنے شعور وعقل کو کھو بیٹھے اور بری عادات میں پھنس جائے ۔اسلام عادت کو تربیت کیلے ایک ذریعہ کے طور پر کام میں لاتاہے اور خیر واچھائی کے امور کو انسان کی عادت بنادیتاہے تاکہ اس کی انجام دہی میں انسان کیلے مشقت وتکلیف نہ ہو زمانہ جاہلیت ِعرب میں۔

جب اسلام طلوع ہوا تو اسلام نے عرب کے معاشرے میں پھیلی ہوئی بری عادات کے تدارک کیلئے دو طریقے اختیار کیے ایک تو یہ کہ بعض بری عادات کو فوراً ختم کرنے کی کوشش جیسے شرک وبت پرستی اور بعض عادات کو تدریجاً ختم کیا جیسے شراب پینا ،چوری کرنا وغیرہ اور اسلام نے یہ درس دیا ہے کہ اگر تم آس پاس کے ماحول کی تربیت کرنا چاہتے ہو اور یا اس کے ماحول سے ختم کرنا چاہئے جو متعارف کرائے کہ تو اسلام کے اس آئین کو اپنے لیے اپنانے کی کوشش کرو تاکہ تربیت میں آسانی ہو ۔

١٢۔سزا

اسلام نے تربیت میں بہت سے ذرائع تعلیم دیے تاکی انسان تربیت میں حیران وپریشان وسرگردان نہ رہے ۔اگر معاشرے کے بعض آفراد پر نہ تو نصیحت اثر کرے ، نہیں شوق ورغبت اور نہ ہی مثالی نمونہ اثر انداز ہو تو پھر اس انسان کیلئے سزا بطور تربیت ضروری ہے تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے اوراس کا معاشرے کے کار آمد افراد میں شمار ہو سزا وغیرہ ہر انسان کیلئے ضروری نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگ نے مثالی نمونے اور عملی سیرت کی پیروری کرکے اور وعظ ونصیحت پر عمل پیراہوکر اپنے آپ کو تربیت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور انہیں زندگی میں سزا کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تربیت کرنے والا سزا سے تربیت کا آغاز کرے بلکہ تربیت کے تمام اصول وذرائع کے استعمال کرنے کے بعد اگر دیکھیں کہ کوئی ذریعہ تربیت کارگر نہیں تو اسوقت سزا کے چند مراحل میں سے پہلے مرحلہ کو شروع کریں اگر اس میں یہی پہلا مرحلہ مفید ہو تو دوسرے مراحل سے صرف نظر کی جائے سزا کے آغاز سے پہلے اساتذہ اور مربیان تربیت سے ضرورمشورہ کیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے تربیت کیلئے کوئی مفید راہ حل نکل آئے ۔

تربیت کرنے والے کی چند شرائط

تربیت انسانی کا اصلی مربی تو خدا وند عالم کی ذات ہے کہ جس ہستی نے انسان کی تربیت کا بندوبست وسامان انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا اور خود انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کے اندر ایسی صلاحیت ودیعت کی کہ جس کے ذریعہ انسان اگر اپنے وجدان کی طرف توجہ کرے تو اس کا وجدان اسے راہنمائی کرے لیکن خدا وند متعال نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انسان کی ظاہری تربیت کا سامان بھی فراہم کیا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزرا انبیاء کرام بھیجے تاکہ وہ انسان کو اس کی فطرت پر رکھ کر اسے تربیت کرییں لہذا اتنے بڑے انتظامات سے اندازہ ہوتاہے کہ تربیت ایک اہم ترین اور سخت ذمہ داری ہے اس لیے تربیت کرنے والا تربیت کے اصول کی رعایے کرے کہ جن کو ذکر کیاگیاہے اور ان اصولوں کی رعایت کرنے سے مربی تربیت جیسے امور کو اچھے طریقے سے انجام دے سکتاہے ۔مربی کو چائیے کہ چاہے اس کے ماں باپ ہوں یا اسکول کے اساتذہ یا دیگران افراد جو مربی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ درج ِذیل اصول کی رعایت کریں۔

مربی کے چند اصول ِتربیت یا شرائط

١،حسن ِنیت٢،اخلاص٣،صبرواستقامت٤،اصولِ تربیت سے آشنائی ٥، تشویق٦، ارادہ جدیت٧، نمونہ ،ان میں سے ہر ایک اصل کی مختصر وضاحت ۔

١۔حسن ِنیت

تربیت کرنے والے پر ضروری ہے کہ تربیت میں حسن ِنیت کو خاطر میں رکھے اور حدیث میں ہے کہ :(انمالاعمال باالنیات) .(14 )کہ عمل کا دار ومدار نیت پر ہے اگر اصلاح وتربیت کی تو اب سے اسے چاہئیے کہ دوسری اصل کو اپنانے کی کوشش کرے اور وہ ہے اخلاص ِعمل۔

٢۔اخلاصِ عمل

اسلامی تربیت میں عمل ِصالح کو اصلیت حاصل ہے جتنا اخلاص ہوگا اتنی ہی عمل میںمباشیرر ہوگی قرآن میں ہے : (من عمل صالحاً وھو مومن فلیحیینہ حیوة طیبة وننجینھم اجرھم باحسن ماکانوا یعملون). خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ جوبھی عمل صالح انجام دے چاہے وہ مرد ہو یا عورت اور خدا پر اسے یقین وایمان ہو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور اسے اس عمل کی جزا اس سے بھی زیادہ عطا کریں گے جو اس نے عمل انجام دیاہے لہٰذا تربیت میں اخلاص شرط ہے گذشتہ انبیا کو دیکھئے کہ ان کے اعمال وکردار میں کتنا اخلاص تھا لہذا تربیت میں خلوص وتقوی وعمل ِصالح ضروری ہے ۔

٣۔صبر واستقامت

تیسری شرط تربیت ِانسانی میں یہ ہے کہ وہ صبر وحوصلے سے کام لے اپنے فریضے میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ انبیا کرام اور ائمہ معصومیں کی سیرت پر چل کر تربیت جیسے اہم فریضے کو آگر بڑھائے آپ دیکھیں کہ حضرت نوح نے کتنا عرصہ تربیت کی حتی کہ نوح ان کا لقب بن گیا اصل نام تاریخ کی روسے عبد الغفار تھا بہرحال تربیت میں اپنا فریضہ انجام دیتارہے اورانجام ونتیجہ کا منتظر نہ رہے ۔

٤۔ اصول ِتربیت سے آشنائی

مربی کو چائیے کہ اصول وقواعد سے آشنا ہو تاکہ عملی زندگی میں سے خودتربیت کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ب نہ کرنا پڑے اس علمی دورمیں تو تربیت کے اصول سے آشنائی حاصل کرنا کوئی مشکل نہیں لیکن اصول ِتربیت سے فقط آشنا ہونا کافی نہیں بلکہ ان اصول کو عملی جامہ پہنانا اور معاشرے میں اسلامی اصول کو نافذ کرنا مشکل ہے اس کیلئے مربی کو بہت ہمت وحوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے بہرحال اصول ِتربیت سے اشنائی حاصل کرنا ضروری ہے جب تک ان سے آشنا وواقف نہیں ہونگے اس وقت تک تربیت کے امور کو آگے نہیں بڑھا سکیں گی ۔

٥۔اصول ِ تربیت پر عمل

اصول تربیت سے آشنائی کے بعد اسے عملی جامہ پہنانا ضروری ہے جب تک اصول ِتربیت کو عملی جامہ نہیںپہنایا جائے اس وقت تک مربی مربی نہیں بن سکتا آپ رسول ِاسلام کی کا مطالعہ کریں کہ کس طرح رسول ِاسلام مربی ہونے کی حیثیت سے عملاً اصول ِتربیت کو نافذ وجاری کیا لیکن اس میں شرط یہی ہے کہ تربیت خود اپنے نفس سے شروع کریں دیکھیں رسول ِاسلام انسان ِکامل اور مربی کامل تھے جب ہی تو خدا نے مربی کامل ہونے کی سند عطا فرمائی: (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة ).(15) بہرحال مربی کو چائیے کہ اصول ِتربیت کو عملا! انجام دئنے میں شوق ورغبت ہو جب تک شوق ورغبت نہیں ہے یہ اصول انجام نہیں دیے جا سکتے.

٦۔تشویق

مربی کو چائیے کہ خود تربیت کے امور میں شوق وجذبہ رکھتاہو اور تربیت کرنے والے افراد کو بھی شوق دلائے تاکہ اصول ِتربیت خشک وسخت محسوس نہ ہوں نہ اپنے لیئے اور نہ ہی دوسروں کیلئے بلکہ اصول ِتربیت کو شیریں بیان کے ساتھ لوگوں کو بتائے خوش اخلاق وخندہ روئی سے اصول ِتربیت پیش کرے اور پیغمبر ِاسلام کی سیرت کو اپنے لیئے اس میں نمونہ سمجھے کہ جن کے متعلق خدا یہ فرماتاہے :(انک لعلی خلق عظیم ).(16)کہ اے پیغمبر آپ خلقِ عظیم کے مالک ہیں ،یا خود آنحضرت ۖ اپنے بارے میں فرما تے ہیں: (بعثت لاتمم مکارم الاخلاق) (17)

مجھے صفات اخلاق کو منزل تکمیل تک پہنچانے کیلئے بھیجا گیالہذا اصولِ تربیت کو اپنانے کیلے شوق ورغبت کے ساتھ کوئی نمونہ بھی ہوناچائیے تاکہ مربی کیلے تربیت کے امور انجام دینا آسان ہوں اور تربیت کے اصول اپنانے کیلے بھی یہ شرط ہے کہ مبضبوط ارادے سے کام لے مربی کو چست ہونا چائیے اور سستی و احساس کمتری کا مظاہرہ نہیں کرنا چائیے۔

٧۔ ارادہ میں استحکام

اصولِ تربیت میں کمزور ارادہ یا سست ارادہ مربی کیلئے ضرر رساں ہے بلکہ مربی اپنی نظر وفکر کو بلند رکھے اور تربیت کرنے والوں کو اپنے اٹل ارادے سے ہی آگے بڑھا یا جاسکتاہے تربیت کے اصول میں ہمیشہ وہ افراد کامیاب ہوتے ہیں جو ارادہ وجدیت سے کام لیتے ہیں اور ہر آئے دن اپنے ارادے کو نہیں بدلتے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں اور کبھی نہیں گھبراتے بلکہ مربی میں اس قدر تجربہ وسابقہ ہو کہ ہر آنے والے مسائل ومشکلات کو اچھے طریقے سے حل کرنے کی استعداد وقوت اس میں موجود ہو اس کے ساتھ ساتھ مربی کو چاہیے کہ تربیت میں اپنے لیے کوئی نمونۂ عمل انتخاب کرے تاکہ تربیت کے امور کو خوش اسلوبی سے انجام دے سکے ۔

٨۔نمونۂ عمل

مربی کیلئے تربیت کے امور کو انجام دینا اس وقت آسان ہوتاہے کہ جب اس کے لیے کوئی نمونۂ عمل موجود ہو ۔تاریخ میں ایسے کئی مثالی نمونے مل سکتے ہیں جن میں سے کسی ایک کو نمونہ بناکر مربی اپنے امورِ تربیت کو آسان بناسکتاہے قرآن مجید میں کئی بار اللہ تعالی نے تربیت یافتہ مربیوں کا تذکرہ فرمایا ہے اوراس طرح انسان کی تربیت کا سامان فراہم کیاہے خود سورہ حشر کی آیت ٧ میں ہے:(ومااتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتھوا)(18) پیغمبر اسلام جس چیز کا حکم دیں اس کو انجام دو اور جن امور سے تمہیں روکیں رک جائو یا جو تمہیں دیں لے لو اورجس سے منع کریں اس سے رک جائو بہرحال پیغمبر اسلام مربی کامل تھے اور اپنے مربی کامل ہونے کی سند اللہ تعالی سے لی بلکہ لوگوں نے کہا کہ تم صادق وامین ہو اس کے علاوہ مربی کیلے اور بھی مراحل ہیں کہ جو تربیت میں بیان کیے جاسکتے ہیں مثلاً مربی تربیت دینے والوںکو دینی معارف سے اشنا کرائے اور تربیت کرنے والوں کو خدا پرستی کی دعوت دے وغیرہ۔

تربیت کے ذرائع

تربیت کے ذرائع اور مقاصد ہر زمانے اور ہر قوم کے اعتبار سے ،مختلف ہواکرتے ہیں اور ہر ذریعہ کسی نہ کسی مقصد کے حصول کیلے ہواکرتاہے مثلاًجسمانی ورزش بھی ایک تربیت کا رذریعہ ہے یا نصیحت ،کہانیاں اور قصوں کی مدد سے بھی تربیت کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور اس قسم کے متعدد ذرائع موجود ہیں کہ جن کے ذریعہ تربیت کی جاسکتی ہے لیکن ان ذرائع کو مکمل تربیت کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسلام کے ذرائع سے ہی تربیت کے ہدف کو پورا کیا جاسکتاہے کیونکہ اسلام ایک دین فطرت ہے دراصل اسلام کا نقطہ نظر فطرت ِانسانی کے مطابق اور طبیعت کائنات کے مطابق ہے اس طرح سے تربیت کی جائے کہ انسان ایک معزز اور قابل اطمینان فرد کی حیثیت سے زندگی گزار سکے اور خدا کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند ہو دوسرے الفاظ میں اسلامی تربیت انسان کو تکامل کے اعلی مراتب سے ہمکنار اور اعلی درجات کی طرف لے جاتی ہے۔

اسلام کے نظام ِتربیت کا مقصد اچھا انسان تیار کرناہے وہ انسان جو مکمل انسان ہو اور اسلامی تربیت کی بنیادیں ایمان، اخلاق ،علم وعمل پر استوار ہوں ۔ظاہر ہے کہ اسلام تربیت کے مقصد میں ہر ذریعہ کو قبول نہیں کرتا بلکہ مناسب وسائل وذرائع سے استفادہ کرنے کی اجازت دیتاہے غرض تربیت اگرچہ متعدد ذرائع سے حاصل ہوتی ہے اگر متعدد ذرائع وبامقاصد نہ ہوں تو محض وسائل وذرائع کی کوئی قدر وقیمت نہیں ۔اسلام کا نظام ِتربیت اس اعتبار سے کہ بالکل منفرد ہے کہ اس کے جملہ ذرائع اور تمام مقاصد ایک فکر اور ایک نظریہ سے پوری طرح مربوط اور پیوست ہیں اور یہ تربیت کا نظام اس قدر جامع ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اور کوئی گوشہ اس کی راہنمائی اور ہدایت سے خارج نہیں ہے کہ جن کے ذریعہ انسان ایک ایسے متفرق اور مختلف ذرائع کا مجموعہ نہیں ہے کہ جن کے ذریعہ انسان ایک نئی سمت کی طرف حرکت کرے بلکہ اسلام کا تربیتی نظام انسان کے سامنے ایک صاف ،اورسیدھی شاہراہ متعین کرتاہے تاکہ انسان اپنی تمام فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر سلامتی کے ساتھ اس مستقیم شاہراہ پر گامزن ہوسکے جو اسلام نے اسے راہنمائی کے طور پر تربیت کی ہے اسلام کے اس تربیتی نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ انسان کو میدان ِزندگی میں حیران وپریشان نہیں چھوڑتا بلکہ اس کے سامنے زندگی کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کرتاہے تاکہ تربیت پاکر اسلام کیلئے بلندی کا باعث بنے ۔

تربیت کے بارے میں مختلف نظریات

یوں تو تربیت کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔لیکن ان میں اہم نظریات کو بیان کرتے ہیں۔

(١) یہ نظریہ قدیم دور جاہلیت کا طریقہ ِفکر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں تربیت کامفہوم اور مقصدصرف شجاعت تھا۔یعنی ایک ایسا آدمی جوشجاع اور بہادر ہو اور جس میں زیادہ سے زیادہ ظلم کرنے کی قوت ہو اور جنگ کے موقعہ پر اس کا قبیلہ آگے رہے۔

٭یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ شجاعت اور بزدلی طبعی ہوتی ہے ۔اور پھر اسلام کی نظرمیں یہ نظریہ مورد قبول نہیںہے۔

(٢) یہ نظریہ دنیاکے سیاست دان افراد کاہے کہ جن کی غرض افرادکی تربیت سے صرف یہ تھی کہ انسان میں جذبہ وطن پرستی پیداہواس لیے وہ لوگوں کو ہمیشہ وطن پرستی کا شوق دلایاکرتے تھے۔

٭ یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ جذبہ وطن پرستی سے تعصب کی بو آتی ہے اور رسول اکرم ۖ فرماتے ہیں (لاعصبیة فی الاسلام) کہ تعصب سے دشمنی و عناد وجود میںآتاہے۔

(٣) والدین عموماً بچوں کی تربیت فقط اس بنا پر کرتے ہیں کہ وہ ان کی ضعیفی کا سہارا بنیں۔

٭ اور یہ نظریہ یہاں تک جزئی طور پر صحیح ہے کیو نکہ اسلام میں اولاد کے لیے حکم ہے کہ والدین کا احترام کریں اوران کی ضعیفی کا سہارا بنیں اور حتی کہ والدین کو اف تک نہ کہیں اور قرآن میں جہاں خدا کی عبادت ووحدانیت کا حکم آیاہے وہاں والدین کے ساتھ احسان کرنے اور اچھا سلوک رکھنے کا بھی حکم آیاہے۔

اسلام میں تربیت کی خصوصیت

بچے کیلئے والدین کا کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے بچے عموماً معاشرے میں والدین کے اخلاق و کردار کی پیروی کرتے ہیں اور کون اس بات سے آگاہ نہیں کہ صحیح اجتماعی زندگی کی بنیاد اچھے اخلاق پر ہے ۔ اجتماعی امن وامان اور والدین کے اخلاق حسنہ پر باہمی روابط ہی کے سایہ میں میسر ہو سکتے ہیں اور قرآن میں اخلاق پر بہت سی آیات ہیں جن میں اخلاق کی تکید کی گئی ہے۔

١۔ (قولوا للناس حسنا)(19) لوگوں سے ہمیشہ اچھے طریقے سے ہم کلام ہوا کرو۔

٢۔ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا:(ان صاحب الخلق الحسن لہ مثل اجر الصائم القائم)(20)

خوش اخلاق کا اجر و ثواب اس شخص کے ثواب کے برابر ہے جورات کو نماز پڑھتا ہے اور دن کو روزے رکھتا ہے۔٣۔ قرآن :(لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک)(21)

حضرت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب ہے کہ اگر آپ سخت مزاج اور سنگ دل ہوں گے تو لوگ آپ کو چھوڑ کر منتشر ہو جائیں گے۔معاشرے میں والدین کے اخلاق کو دیکھ کر بچے اسی طرح کا اخلاق اپناتے ہیں اگر والدین معاشرے میں بد اخلاق ہوں گے تو اس کا اثر اولاد پر ہی ہوگا کیونکہ حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح باطل کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (22 )

فرزند اور باپ کا کردار

بچے کی تربیت میں جس طرح ماں کا کردارمؤثر ہے اسی طرح باپ کا کردار اور اس کی شخصیت بھی بچے کی تربیت میں موثر ہے باپ، بچے کی جزباتی اور ذہنی نشو نما کیلے وہ اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنی ماں .دوران حمل اور بچے کی زندگی کے پہلے سال میں ذمہ دار ہے باپ کی ہمدردی اور محبت بچے کی ماں کو جذباتی طور پر مدد دیتی ہے اور بچے کی شخصیت کو صحیح طریقے سے پروان چڑھانے کیلے ضروری ہے کہ والدین ذہنی اور جذباتی لحاظ سے تندرست ہوں .اگر ماں باپ ذہنی کشمکش اور مشکلات میں الجھے رہیں گے اور جذباتی لحاظ سے ان کی زندگی خوشگوار نہ ہوگی تو یہ چیز بچے کی ذات پر بھی اثر اندر ہو گی ۔

اولاد کے حق میں سب سے بڑا اور اہم فریضہ صحیح تربیت ہے اولاد کا والدین پر حق ہے کہ وہ انہیں اسلام، دینداری اور اچھے اخلاق کی تربیت دیں۔(قوا انفسکم و اھلیکم نارا)(23)اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہیں۔اولاد کا نفقہ ماں باپ پر واجب ہے جس کی تفصیل فقہی احکام میں

ملاحظہ فرمائیں والدین کو چاہئے کہ اپنی اولادکے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آئیں اور بعض بچوں کو بعض پر ایسی ترجیح نہ دیں کہ جس سے جھگڑے کاخوف ہو ماں باپ ،بیٹے اور بیٹی کا امتیاز قائم کرکے ان کی شخصیت کو حقیر نہ بنائیں انہیں نفسیاتی الجھن میں مبتلا نہ کریں۔کیونکہ ایسا رویہ ان پر ظلم ہے بلکہ معاشرے کے ساتھ خیانت ہے اولاد کی صحت میں افراط و تفریط سے اجتناب کریں کیونکہ بچوں پر اس کے برے آثار مرّتب ہوتے ہیں ۔اولاد کیلئے والدین کی بہترین خدمت دینداری کے بعد علم و کمال کے حصول کی ترغیب و تشویق ہے۔حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

(وتجب للولد علی الوالد ثلاث خصال اختیارہ لوالدیہ لتحسین اسمہ والمبالغة فی تادیبہ)(24) باپ پر واجب ہے کہ وہ بیٹے کے لیے اچھا نام اختیارکرے اور باادب بنائے اور یہاں پر ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین اپنی دعا میںایک پیارا جملہ ارشاد فرماتے ہیں : (الھم اعنی علی تربیتھم وتادیبھم وبرھم) (25) خدایا اپنی اولاد کی تربیت، ادب اور نیکی کرنے میں میری مدد فرما اور اسی طرح بچے کی تربیت کے بارے ایک اور فرمان ان امام کا منقول ہے ۔(وحق ولدک فان تعلم انہ منک ومضاف الیہ فی عاجل الدنیابخیرہ وشرہ وانک مسئول عما ولیتہ بہ من حسن الادب ،والد لالة علی ربہ والمعونة لہ علی طاعتہ)(26) اپنے فرزند کاتم پر ایک حق یہ ہے کہ تم اسے اپنا سمجھو اور یہ بھی جان لو کہ اس دنیا میں اسکی ہر اچھائی وبرائی اور ہر نیکی وبدی کا تعلق تم سے ہے اور تمہیں یہ جاننا چاہئے کہ سرپرست ہونے کی وجہ سے اپنے فرزند میں حسن ادب ،پیوست کرنے کی ذمہ داری تم پر ضرور ی ہے اور اسے خدا کی طرف متوجہ کرنے کا فرض بھی تمہارے سر پر ہے اس کے علاوہ خدا کی عبادت واطاعت میں بچے کی مدد کرنا تمہارا کام ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ اچھی تربیت کرو کہ اگر عہد ہ بر آہوگئے توتم نے گویاحق ادا کردیا اورخدا کی بار گاہ سے تمہیں اچھا اجر ملے گا اور اگر کوتاہی کی تواس کی سزا بھی تمھیں ملے گی۔

 


 

 

(١)سورہ تحریم آیت ٦.

 

(٢)سورہ مائدہ آیت ٣٢.

 

(٣)سورۂ بقرہ آیت ١٥١.

 

(٤)سورہ بقرہ آیت ١٢٩.

 

(5) سورہ آل عمران آیت ١٦٤ .

 

(6)کتاب بحارالانوار ج١٦،ص ٣١٠ .

 

(7)سورہ آل عمران آیت ١٥٩.

 

(8)مقتل خوارزمی ص٧٦.

 

(9)سورۂ احزاب آیت ٢١.

 

(10)مقتل خوارزمی ص٧٦.

 

(11)گفتار دلنشیں قول امام جعفر صادق .

 

(12)سورۂ شمس آیت ٧۔٨.

 

(13)سورہ احزاب آیت ٢١.

 

(14)منیة المرید،ص٤٤.

 

(15)سورۂ احزاب آیت ٢١.

 

(16)سو رۂ نورآیت ٣ .

 

(17)کتاب مکارم الاخلا ق ص ١٧٢.

 

(18)سورۂ حشر آیت٧.

 

(19)سورۂ بقرہ آیت٨٣.

 

(20)اصول کافی ج١،ص١٥٧.

 

(21)سورۂ آل عمران آیت١٥٩.

 

(22)اصول کافی ج٣،ص١٥.

 

(23)سورۂ تحریم آیت ٦ .

 

(24)تحف العقول ٣٣٢.

 

(25)صحیفہ سجادیہ دعا ٢٥ ص ١٧٠.

 

(26)تحف العقول ٢٨٩.

 

تحرير : جعفری

Read 5615 times