اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد

Rate this item
(1 Vote)

امام جعفر صادقٴ کي نظر ميں

اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد

خاندان انساني سوسائٹي کا ايک چھوٹا يونٹ ہے اور اس کے اندر موجود اچھے يا برے روابط کا اثر سوسائٹي ميں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ کئي عظيم مردوں نے باشعور ماوں کے دامن اور ہمدرد باپ کي شفقت کے زيرِ سايہ پرورش پائي ہے۔ اگر گھر کے اندر مہر و محبت اور عقل و شعور کي حکمراني ہو تو شوہر اور بيوي دونوں آرام و سکون سے رہتے ہيں اور اس عظيم اور سايہ دار درخت کے سائے ميں سمجھدار مرد و عورت اور لائق بچے تربيت پاتے ہيں۔ ليکن بے سکون اور کشمکش کے شکار خاندان کے بچوں کي رشد و تربيت کي بنياديں کمزور ہوتي ہیں اور وہ ناکارہ بچے سوسائٹي کے حوالے کرتے ہيں۔

 

مکتبِ اہلبيتٴ کے عظيم علمبردار، حضرت امام جعفر صادقٴ نے اپنے کلمات اور مفيد و کارآمد ہدايات ميں زندگي کا درست انداز سکھايا ہے اور خاندان کے اندر باہمي تعاون کے راستے مسلمانوں کو بتائے ہيں۔ ان رہنما اصولوں ميں مياں اور بيوي ايک دوسرے کے رقيب يا بزنس پارٹنر نہيں بلکہ ايک دوسرے کے مونس و غمخوار اور باہمي ترقي و کمال کا باعث ہيں اور آپس کي ہمدلي اور درست تعاون کے زيرِ سايہ ايک الہي خاندان تشکيل پاتا ہے۔

 

مکتبِ امام صادقٴ ميں انساني زندگي کے تار و پود کا ملاپ انساني جذبات او رعشق و ايثار کے ذريعے ہوتا ہے اور زوجين کے درميان عشق و محبت کا دوطرفہ تعلق نہ ہو تو کوئي انساني قانون اور معاشرتي يا حکومتي امر و نہي کے اندر يہ طاقت نہيں ہے کہ وہ گھر کے اندر سکون پيدا کرسکے۔

 

شوہر اور بيوي کے ايک دوسرے کے باہمي دو طرفہ حقوق ہوتے ہيں جن کا درست طور پر خيال رکھا جائے تو ايک محبت بھرا، بانشاط اور ترقي کرتا ہوا خاندان تشکيل پاتا ہے اور اس کے اندر اپني اور بچوں کي ترقي و کمال کے لئے فضا سازگار ہو جاتي ہے۔ اگر دونوں ميں سے کوئي بھي اپني حدود کي خلاف ورزي کرے تو اس بنيادي يونٹ (خاندان) کي ترقي نہ صرف يہ کہ تعطل کا شکار ہوجاتي ہے بلکہ آرام و سکون کي جگہ لڑائي جھگڑے کي نوبت آجاتي ہے۔

 

امام صادقٴ نے خاندان ميں کاميابي کے لئے شوہر اور بيوي کو چند نکات کا خيال رکھنے کي جانب توجہ دلائي ہے:

’’لاغنيٰ بالزوج عن ثلٰثۃ اشيائ فيما بينہ و بين زوجتہ، و ہي الموافقۃ ليجتلب بھا موافقتھا و محبتھا ھواھا و حسن خلقہ معھا و استمالۃ قلبھا بالھيئۃ الحسنۃ في عينھا و توسعتہ عليھا۔

 

و لا غنيٰ بالزوجۃ فيما بينھا و بين زوجھا الموافق لھا عن ثلاث خصال و ھنّ: صيانۃ نفسھا عن کل دنس حتيٰ يطمئنّ قلبہ الي الثقۃ بھا في حال المحبوب و المکروہ، حياطتہ ليکون ذلک عاطفاً عليہا عند زلّۃ تکون منھا، و اظہار العشق لہ بالخلابۃ و الھيئۃ الحسنۃ لھا في عينہ۔‘‘ (تحف العقول)

امام صادقٴ نے اس روايت ميں خاندان کي کاميابي کے لئے پہلے مرد کي ذمہ دارياں بيان کي ہيں:

 

الف: شوہر کے لئے ہدايات

لاغني بالزوج عن ثلاثۃ فيما بينہ و بين زوجتہ۔

جو معاملات شوہر اور اس کي زوجہ کے درميان ہوتے ہیں ان ميں مرد تين باتوں سے بے نياز نہيں ہے:

 

١۔ بيوي کے ساتھ موافقت:

 

امام جعفر صادقٴ نے شريکِ حيات کے ساتھ بہتر روابط کي برقراري ميں مرد کے لئے سب سے پہلي بنياد بيوي کے ساتھ موافقت اور ہم آہنگي کو قرار ديا ہے اور اس کے انتہائي مثبت نتائج بيان کئے ہيں۔

و ھي الموافقۃ ليجتلب بھا موافقتھا و محبتھا و ھواھا۔

اس کے ساتھ موافقت (کرے) تاکہ اس کي موافقت، محبت اور دلبستگي حاصل ہو۔

موافقت، وفق سے نکلا ہے جس کے معني ہمراہي، اچھي طرح سے پيش آنا، نرم روي اور مصالحت کے ہيں يعني سختي اور شدتِ عمل کے مقابلے ميں۔

 

مطلب يہ ہے کہ شوہر اپني بيوي کي خاطر بعض معاملات ميں اپني خواہشات سے صرفِ نظر اور اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائے۔ کيونکہ مياںبيوي زندگي کے ہر معاملے ميں دن رات ايک دوسرے کے شريک اور ہمدم ہوتے ہيں، کبھي مشترکہ زندگي ميں ان کے درميان سليقہ ميں اختلاف رائے بھي پيدا ہو جاتا ہے۔ لہذا رائے اور خواہشات کا يہ اختلاف زندگي کي بنيادوں کو نہ ہلا سکے، اس کے لئے مناسب ہے کہ مياں بيوي اپني ذاتي خواہشات اور مطالبات سے دوسرے کي خاطر دستبردار ہو جائیں۔

 

جيسا کہ مرد کو زندگي ميں سرپرست کي حيثيت حاصل ہوتي ہے اور اس کے اندر اپني خواہشات کو قبول کروانے کي زيادہ طاقت ہوتي ہے اس لئے بيوي کي کسي معمولي خواہش کے مقابلے ميں اقتدار کے باوجود شوہر کي نرمي (البتہ عزت کے ساتھ) بيوي کے حق ميں ايک قسم کا احترام سمجھا جائے گا اور اس کي محبت ميں مزيد اضافے کا باعث بنے گا۔ شوہر کے عفو و درگذر سے کام لينے اور بيوي کے ساتھ مسالمت آميز رويہ رکھنے سے بيوي اس کے عشق ميں ڈوب جائے گي اور وہ اپني تمام محبتوں کا مرکز و محور اپنے شوہر کو قرار دے دے گي۔

 

امام صادقٴ نے اس روايت ميں بيوي کي موافقت کے حصول کے نتائج کے بارے ميں فرمايا ہے:

٭ بيوي کے ساتھ مصالحت آميز رويہ رکھنے سے وہ بھي اپنے شوہر کے خواہشات پر سر تسليم خم کردے گي۔

٭ بيوي اپني تمام محبتوں اور اخلاص کو شوہر کے قدموں ميں نچھاور کر دے گي۔

 

شوہر جب بيوي کے ساتھ مسالمت آميز رويہ رکھتا ہے تو بيوي کے دل ميں اس کے ساتھ عشق کے لئے زمين ہموار ہو جاتي ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ اس کا تعلق مزيد بڑھ جاتا ہے۔

 

امام صادقٴ نے ايک اور روايت ميں شوہر کے لئے حسنِ معاشرت کو ايک ضرورت شمار کيا ہے اور تاکيد فرمائي ہے کہ شوہر کو تکليف اٹھا کر اور کوشش کر کے بھي اپنے اندر يہ صلاحيت پيدا کرني چاہئے۔

 

المرئ يحتاج في منزلہ و عيالہ الي ثلاث خصال يتکلفھا و ان لم يکن في طبعہ ذلک: معاشرۃ جميلۃ و سعۃ بتقدير و غيرۃ بتحصن۔

 

بے شک مرد کو اپنا خاندان اور گھر چلا نے کے لئے تين خصلتوں کي ضرورت ہوتي ہے، اگرچہ يہ خوبياں اس کي سرشت ميں موجود نہ ہوں: خوش رفتاري، مناسب حد تک آسائش کي فراہمي اور بردباري کے ساتھ غيرت۔

 

ہمراہي اور مصالحت حسنِ معاشرت کا ايک مصداق ہے۔ اسي ہمدلي کے سائے ميں گھر ميں سکون و اطمينان کي فضا قائم ہوتي ہے، زوجين اس زندگي سے لطف اندوز ہوتے ہيں، بچے پُرسکون ماحول ميں پرورش پاتے ہيں اور رزق و روزي کے دروازے ان پر کھل جاتے ہيں۔ ايک روايت ميں خاندان کے اندر ہمدلي اور مصالحت و مسالمت کو رزقِ حلالِ کي فراواني اور رحمت و برکتِ خدا کے دروازے کھولنے کا سبب قرار ديا گيا ہے۔

ايما اہلبيت اعطوا حظھم من الرفق فقد وسع اللّٰہ عليہم من الرزق۔

 

٢۔ حسنِ اخلاق:

 

خاندان کے اندر ايک مرد کي ذمہ داري اور آدابِ معاشرت کا ايک پہلو حسنِ اخلاق بھي ہے۔

حسنِ خلق يعني اچھي اور پسنديدہ عادت جس کے مقابلے ميں بري عادات اور خراب رويہ ہے۔

 

يہ مکارمِ اخلاق کي ايک شاخ ہے جيسے عفو، بخشش، صبر، شکر غيرت، شجاعت اور وفا جيسي دوسري نيک انساني خصلتيں ۔

 

نبي اکرم ۰ نے فرمايا: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ ميں اخلاق کي تکميل کے لئے خدا کي جانب سے مبعوث ہوا ہوں۔

 

حسنِ اخلاق يعني نرم روي، چہرے کي بشاشت، اچھا رويہ رکھنا۔ امام صادقٴ ايک روايت ميں اس کي حدود بيان فرماتے ہيں۔ چنانچہ حسن بن محبوب نے بعض اصحاب سے روايت کي ہے کہ:قلت لابي عبد اللّٰہ: ما حد حسن الخلق؟ قال: تلين جانبک و تطيب کلامک و تلقي اخاک ببشر حسن۔

 

ميں نے امام صادقٴ سے پوچھا کہ حسن اخلاق کي حد کيا ہے؟ فرمايا:لوگوں کے ساتھ نرمي اور گرمجوشي کے ساتھ ملو، بات چيت کو پاکيزہ (باادب) رکھو اور اپنے بھائيوں کے ساتھ کشادہ رو اور تبسم کے ساتھ ملاقات کرو۔

 

بنابريں، اچھي عادات جيسے سلام کرنے ميں سبقت لينا، مصافحہ کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، خوشبو لگانا، بيماروں کي عيادت کرنا، جنازوں ميں شرکت کرنا، غمزدہ لوگوں کو تسلي دينا، آنے والوں کا استقبال اور جانے والوں کو الوداع کہنا وغيرہ يہ سب حسنِ اخلاق ميں شامل ہيں اور اللہ کے رسول۰ کي ذمہ داريوں ميں سے ايک ذمہ داري اچھے آداب کو لوگوں کے درميان رائج کرنا ہے۔

 

امام جعفر صادقٴ نے تاکيد فرمائي ہے کہ مرد کو چاہئے کہ اپنے گھر ميں مہر و محبت کي حرارت پيدا کرنے کے لئے حسنِ اخلاق سے کام لے۔

 

و حسن خلقہ معہا و استعمالہ استمالۃ قلبھا بالھيئۃ الحسنۃ في عينھا۔اور اس (زوجہ) کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پيش آئے اور اس کا دل جيتنے کے لئے ايسے ذرائع استعمال کرے جو اس کي نگاہوں کو بھلے لگیں۔

 

امامٴ کي اس تاکيد کے مطابق، خوش اخلاقي کا تقاضا يہ ہے کہ مرد کو بردبار اور متحمل مزاج ہونا چاہئے۔ نہ صرف يہ کہ وہ اپنے غضب پر قابو پائے بلکہ اپنے غم و اندوہ کو بھي دل ميں چھپا لے اور زبان پر نہ لائے اور اپني زوجہ کے لئے مستحکم ستون بن جائے تاکہ اس کا ساتھي (زوجہ) اپنے روزانہ کے دکھ درد اس کو اپنا مونس و غم خوار اور مضبوط پناہ گاہ سمجھتے ہوئے بتا سکے اور مرد کي ہمدردي حاصل کر کے کچھ سکون پائے۔ اسے خوش اخلاق ہونے کے علاوہ خوش گفتار بھي ہونا چاہئے اور خوبصورت و حسين اور اميد افزا الفاظ زبان پر لائے اور ملال آور اور دردانگيز کلمات کے استعمال سے پرہيز کرے۔

 

علمائے اخلاق نے تاکيد کي ہے کہ: مرد گھر ميں داخل ہوتے وقت سلام کرے، اپني زوجہ کي دلجوئي کرے اور بچوں کي نگہداشت اور گھر گرہستي ميں جو زحمت وہ اٹھاتي ہے اس کي قدرداني کرے اور اپني تمام کاميابيوں کو اس کي زحمتوں کا مرہونِ منت گردانے۔ اپني بيوي کے رشتہ داروں کي احوال پرسي کرے اور اپنے آپ کو ان کے لئے فکرمند ظاہر کرے۔ يہ باتيں عورت کي محبت کے حصول کے لئے کيميا کي حيثيت رکھتي ہيں۔ امام باقرٴ نے محبت کے اثرات کے بارے ميں فرمايا ہے:البشر الحسن و طلاقۃ الوجہ مکسبۃ للمحبۃ و قربۃ من اللّٰہ و عبوس الوجہ و سوئ البشر مکسبۃ للمقت و بعد¾ من اللّٰہ۔

خوش و خرم اور بشاش چہرہ محبت کے حصول کا ذريعہ اور اللہ سے قربت کا وسيلہ ہے اور ترش روئي اور چہرے کي سختي دشمني کا سبب اور اللہ سے دوري کا موجب ہے۔

 

خاندان کا سربراہ اپنے احترام کا خيال رکھے:امام جعفر صادقٴ خوش اخلاقي کي تاکيد کرتے ہوئے اضافہ کرتے ہيں کہ مرد کو خوش خلقي کے علاوہ اپني گفتار و رفتار ميں بھي نزاکتوں کا خيال رکھنا چاہئے۔ وہ حلال و حرام خدا کا احترام کرے اور اپنے خاندان اور بچوں کے درميان عدالت سے پيش آئے اور اس کے ہاتھ اور نگاہيں گناہوں سے دور رہيں تاکہ بيوي کو اطمينان رہے اور زوجہ اس کو عزت کي نگاہوں سے ديکھے اور اپنے شوہر پر فخر کرے؛ کيونکہ گناہ کرنے اور خدائي حدود کي پامالي سے مرد اپني زوجہ کي نگاہوں ميں گر جاتا ہے اور نافرماني کے لئے اس کے دل ميں فضا سازگار ہو جاتي ہے۔

 

جملہ استعمالہ استمالۃ قلبھا بالہيئۃ الحسنۃ في عينھا سے استفادہ ہوتا ہے کہ مرد کو باوقار، حاکمانہ طبيعت اور مستحکم ہونا چاہئے تاکہ بيوي کي نظريں اس پر جم جائيں اور اس قدر نرم خو، خوفزدہ اور احمق نہ ہو کہ بيوي کي نظر ميں بے اہميت ہو جائے۔ کيونکہ جو چيز مرد و عورت کو ايک دوسرے کے ساتھ دلچسپي لينے پر مجبور کرتي ہے وہ دونوں کي طبيعت ميں موجود فطري اختلاف ہے۔ کيونکہ عورت جذبات، نرمي، صلح جوئي کا مظہر اور سکون اور ممتا کے احساسات کي مالک ہوتي ہے اور مرد منطق، سختي، مردانگي، اقتدار اور مديريت کا مرقع۔

 

جس قدر يہ خوبياں مرد کے اندر زيادہ ہوں گي اتنا ہي عورت کي نگاہوں ميں اس کي عزت زيادہ ہوگي۔ اور اگر مرد زنانہ صفات کا مالک ہو تو بيوي کي نظر ميں ہيرو نہيں بن سکتا اور نہ وہ اس کو اپنا آئيڈيل بنا سکتي ہے۔

ذاتي آرائش و زيبائي:

مرد کا اپني ذاتي آرائش و زيبائي پر توجہ دينا اس کي زوجہ کي نگاہوں ميں عزت احترام کا ايک سبب ہے۔ کيونکہ ظاہري شکل و صورت کا بناو سنگھار انسان کو محبوب بناتا ہے اور خوبصورتي کي جانب انسان کا رجحان ايک طبيعي امر ہے۔ لوگوں کو اچھا لباس اور آرائش اچھي لگتي ہے اور اس کو نظم و ضبط اور تہذيب و شعور کي علامت سمجھا جاتا ہے۔ لہذا قرآن و سنت ميں مسلمانوں کو آرائش اور زينت کي جانب تشويق کيا گيا ہے۔ امام صادقٴ نے فرمايا :ان اللّٰہ يحب الجمال و التجمل۔بے شک اللہ خوبصورتي اور آرائش کو پسند کرتا ہے۔

چھٹے امامٴ اپنے جد، عليٴ سے نقل کرتے ہيں:خدا خود حسين ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے اور وہ يہ بھي پسند کرتا ہے کہ بندوں ميں اپني نعمتوں کے آثار ديکھے۔

 

نبي اکرم ۰ مومنين سے ملاقات کے لئے اپني آرائش کيا کرتے تھے اور بے ترتيب بالوں سے پرہيز کرتے تھے۔ جب کسي مومن کے ساتھ مختصر وقت کي ملاقات کے لئے آراستگي کي اہميت ہے تو دائمي مونس و ہمدم کا حق يقينا اس سے بڑھ کر ہے۔ طبرسي۲ نے اس بارے ميں لکھا ہے: نبي اکرم ۰ خاندان تو دور کي بات ہے اصحاب کے ساتھ ملاقات کے لئے آرائش کيا کرتے تھے ۔

 

شوہر کا حسنِ اخلاق، نرمي، خوش کلامي اور زينت و آرائش بيوي کو وجد ميں لے آتي ہے۔ اس کي افسردگي دور ہو جاتي ہے جس کے نتيجے ميں عورت بھي خوش اخلاق اور خندہ رو ہوکر مرد کے سامنے آتي ہے۔ خوش اخلاق بيوي کو ديکھ کر مرد کي تھکن دو رہو جاتي ہے ۔

مرد کو عورت کے صبر کي ضرورت ہوتي ہے۔ اس کي توقع ہوتي ہے کہ دن بھر تلاشِ معاش کے بعد جب وہ تھک ہار کر گھر پہنچے تو بيوي بچوں کي صحبت اسے ہلکا پھلکا کردے اور گھر کے اندر وہ ہنستے مسکراتے چہرے ديکھے۔ ترش اور سخت چہرے اس کي توقع کو پورا نہيں کرسکتے۔

 

روحاني آثار کے علاوہ حسنِ اخلاق کے اثرات ميں رونق و برکت اور زندگي کا آباد ہونا بھي ہے۔ کيونکہ ہم آہنگي، تعاون اور نشاط و توانائي کام کي صلاحيت کو بڑھاتي ہے اور زندگي ميں برکت کا باعث بنتي ہے۔ امام صادقٴ کے بقول:البر و حسن الخلق يعمران الديار و يزيدان في الاعمار۔نيکي او رخوش اخلاقي زمينوں کو آباد اور عمروں کو طويل کرتي ہے۔

 

٣۔ رزق ميں وسعت:

بيوي بچے مرد کے عيال اور اس کے محتاج ہوتے ہيں اور ہميشہ اس کے لئے چشم براہ۔

امت مسلمہ کے رہبر نے تاکيد کي ہے: ايک پرسکون گھر اور باسعادت زندگي کي تعمير کے لئے مرد کو بخل سے پرہيز کرنا چاہئے اور جو روزي اللہ نے اسے عطا کي ہے اس کے ذريعے اپنے اہل و عيال کے لئے آسانياں اور آسائشيں فراہم کرے اور ان کو خوراک، لباس، سواري اور رہائش ميں سہولتيں دے۔ خود اسي سے گھروالوں کے نزديک مرد کي عزت و شوکت ميں اضافہ ہوگا۔

 

امام صادقٴ نے فرمايا:کفي بالمرئ اثما ان يضيع من يعول فيہ۔مرد کے گناہ کے لئے يہي کافي ہے کہ وہ اپنے (اہل و) عيال کو ضائع کردے۔

 

عيال ميں وہ سب لوگ شامل ہيں جن کے اخراجات کسي مرد کے ذمہ ہوں۔

خاندانوں ميں ہونے والي طلاقيں اور چپقلشوں ميں سے بعض کا تعلق اسي غفلت سے ہے جو مرد گھريلو اخراجات کے معاملے ميں کرتا ہے۔ چنانچہ مرد کنجوسي، نشہ کي عادت يا جہالت کي وجہ سے اپني آمدن کو گھريلو اخراجات ميں خرچ نہيں کرتا اور گھر کے افراد کو تنگدستي ميں رکھتا ہے جس کے اثرات طويل مدت ميں ايک دھماکے کي صورت ميں مرتب ہوتے ہيں۔

 

امام صادقٴ نے بخيلوں کو خبردار کرتے ہوئے ايک روايت ميں فرمايا ہے:

ان عيال الرجل اسراوہ فمن انعم عليہ اللّٰہ فليوسع علي اسرائہ، فان لم يفعل يوشک ان تزول تلک النعمۃ عنہ۔

بے شک انسان کے اہل و عيال اس کے قيدي ہيں۔ تو جس شخص پر اللہ نے نعمتيں نازل کي ہوں، اسے چاہئے کہ اپنے قيديوں کو سہولتيں فراہم کرے۔ بصورتِ ديگر ممکن ہے کہ يہ نعمتيں زائل ہو جائيں۔

 

امام صادقٴ نے آبادکاري او رخاندان کي آسائشوں کے لئے سعي و کوشش اور جدوجہد کو مادي اور معنوي سعادت کے حصول کے لئے ايک موثر عامل قرار ديا ہے اور اپنے ماننے والوں کو تاکيد کي ہے کہ: سستي اور کاہلي سے پرہيز کريں۔ امامٴ نے مزدوروں کي محنت کو مجاہدين اسلام کي اسلامي سرحدوں کے لئے دي جانے والي قربانيوں کے برابر قرار ديا ہے ۔ علاوہ ازيں، ائمہ طاہرينٴ خود کام کيا کرتے تھے اور اپنے عمل کے ذريعے لوگوں کو محنت اور جدوجہد کي دعوت ديا کرتے تھے:

عن ابي عبد اللّٰہ: الکادّ علي عيالہ کالمجاہد في سبيل اللّٰہ۔

امام صادقٴ نے فرمايا: جو شخص اپنے خاندان کي روزي کے لئے محنت کرتا ہے وہ راہِ خدا ميں جہاد کرنے والے کي طرح ہے۔

عن ابي عمرو الشيباني قال: رآيت ابا عبد اللّٰہ و بيدہ مسحاۃ و عليہ ازار غليظ يعمل في حائط لہ و العرق يتصاب عن ظہرہ۔ فقلت جعلت فداک اعطني اکفک۔

فقال لي: اني احب ان يتآذيٰ الرجل بحرّ الشمس في طلب المعيشۃ۔

ابوعمرو شيباني کہتا ہے: ميں نے امام صادقٴ کو ديکھا کہ ان کے ہاتھ ميں بيلچہ اور بدن پر کھردرا لباس ہے اور اپني زمين (باغ) ميں محنت کر رہے ہيں اور ان کي کمر سے پسينہ بہہ رہا ہے۔ ميں نے عرض کيا: بيلچہ مجھے دے ديجئے تاکہ آپ کا کام انجام دے دوں۔فرمايا: ميں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ انسان حصولِ معاش کے لئے سورج کي تمازت کو برداشت کرے۔

 

صادقِ آلِ محمدٴ ايک اور مقام پر تاکيد فرماتے ہيں: اپنے لئے، اپنے بيوي بچوں کے لئے، صلہ رحم، صدقے اور حج و عمرے کے اخراجات کے لئے کوشش کرنا دنيا طلبي نہيں ہے۔

 

خاندان ميں عورت کي ذمہ دارياں

 

عورت مرد کي وزير ہوتي ہے اور خاندان کے اندر مرد کي معاون اور مشير بھي۔ لہذا مرد کي نسبت اس کي بھي کچھ ذمہ دارياں ہيں۔ اگر وہ انہيں درست طور پر انجام ديدے، تو مرد بھي اپني ذمہ داريوں کي ادائيگي ميں کامياب رہے گا اور دونوں زندگي کا لطف اٹھائيں گے اور گہري جڑوں والے اس مضبوط درخت سے ميٹھے پھل سوسائٹي ميں پہنچيں گے۔

 

امام صادقٴ اس روايت ميں فرماتے ہيں:و لاغنيٰ للزوجۃ فيما بينھا و بين زوجھا عن ثلاث خصال۔بيوي اپنے شوہر کے ساتھ معاملات ميں تين خصلتوں سے بے نيز نہيں ہے۔

 

١۔ طہارت و پاکيزگي:

 

صيانۃ نفسھا من کل دنس حتيٰ يطمئن قلبہ الي الثقۃ في حال المحبوب و المکروہ۔

اپنے آپ کو ہر قسم کي غلاظت سے پاک رکھے تاکہ اس کا شوہر پسنديدہ اور ناپسنديدہ ہر حال ميں اس سے مطمئن رہے۔

 

عفت، عورت کي زينت ہے۔ ايک عورت کو چاہئے کہ اپنے جسم و روح کو ہر قسم کے گناہ اور لغزش سے محفوظ رکھے اور خاندان کي حرمت کو نامحرموں کي نگاہوں اور ہاتھوں سے بچائے۔ مناسب ہے کہ ايک عورت نامحرموں سے گفتگو ميں حدود کي پابندي کرے اور لباس پہننے اور چال ڈھال ميں خودنمائي سے پرہيز کرے اور اپنے حسن و جمال اور مال و دولت کے دکھاوے سے دور رہے کيونکہ اس کي وجہ سے جہاں غريبوں اور ناداروں کو تکليف ہوتي ہے وہاں ايسے لوگ جن کي روح بيمار ہوتي ہے ان کے لئے گھر ميں داخل ہونے کے دروازے کھل جاتے ہيں اور نامحرموں کو بري نظر ڈالنے اور ہاتھ بڑھانے کي جرآت ہونے لگتي ہے۔

اپني عفت و حجاب کي حفاظت کر کے بيوي اپنے تئيں شوہر کے نزديک عظمت حاصل کرليتي ہے اور مرد اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اس سے مل کر خوش ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بہشت بريں ميں محسوس کرتا ہے نيز کبھي بھي بدگماني کو راہ نہيں ديتا۔

 

(شيخ سعدي کے اشعار کا ترجمہ)

 

نيک اور فرمانبردار بيوي اپنے غريب شوہر کو بادشاہ بنا ديتي ہے۔

اگر وہ تمہارے لئے اچھي دوست ہو تو روزانہ پانچ بار اس کے پاس جاو۔

 

اگر دن بھر تم پريشان ہوتے ہو تو بھي غم نہ کرو، کہ رات کو ايک غمگسار تمہارے ساتھ ہے۔

جس کي باحيا بيوي خوبصورت بھي ہو، وہ اس کے ديدار سے جنت کي خوشبو پاتا ہے۔

 

اس شخص نے دنيا سے اپنا حصہ وصول کيا جس کا آرامِ دل اس کے ساتھ ہو۔

اگر بيوي نيک اور خوش کلام ہو تو اس کي خوبصورتي اور بدصورتي کو ديکھنے کي ضرورت نہيں۔

 

اچھي عادات کي مالک بيوي دل ميں گھر کر ليتي ہے اور وہ عيوب پر پردہ ڈالتي ہے۔

 

جو عورت احمق، کم عقل اور بري عادات کي مالک ہو اور مشکوک ميل جول سے پرہيز نہ کرتي ہو يا بري محفلوں ميں آمد و رفت رکھتي ہو يا ممکن ہے کہ سادہ لوحي يا اخلاقيات کو نظرانداز کرتے ہوئے مذاق کو خوش اخلاقي کي علامت سمجھتي ہو يا اس نے دوسروں کي نقالي ميں مغرب زدہ ہوکر مادر پدر آزادي اپنا لي ہو، ايسي عورت پر سے مرد کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ شک کے کانٹے شوہر کے دل ميں خراشيں ڈالتے ہيں اور پھر محبت کي جگہ کدورت لے ليتي ہے اور مياں بيوي کے درميان ہونے والي معمولي سي تلخ کلامي سے مرد کے دل ميں بدگماني کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے اور يہي خاندان کي بربادي کا پہلا قدم ثابت ہوتا ہے۔

 

اسي وجہ سے ائمہ طاہرينٴ نے ہميں ايسے مقامات پر آنے جانے سے روکا ہے جہاں سے تہمت لگنے کا انديشہ ہو۔ امام عليٴ نے فرمايا:اياک و مواطن التہمۃ۔ايسي جگہ سے پرہيز کرو جو تہمت کا مقام ہو۔

 

٢۔ خانداني ملکيت کي حفاظت:

و حياطتہ لتکون ذلک عاطفھا عليہا عند زلۃ۔امورِ خانہ ميں عورت کا احتياط کرنا تاکہ غلطي ہو جائے تو مرد کي محبت اسے اپنے سائے ميں لے لے۔

حياطت، احاطہ سے ہے اور اس کے معني نظارت اور احتياط کے ہيں۔ ليکن اپنے قسيم کے اعتبار سے اس کے اندر ذاتي عفت اور حرمت سے زيادہ وسيع مفہوم پوشيدہ ہے اور ممکن ہے کہ مقصود يہ ہو کہ عورت کا کردار وزير کا ہے جو گھر کے تمام امور اور شوہر کي ملکيت اور عزت و آبرو کي نگراني کرے اور اس کو خطرات سے محفوظ رکھے اور فضول خرچي، لاابالي پن اور خاندان کے اخراجات ميں اسراف سے بچے اور گھر کے سکون اور رونق ميں اضافے کے لئے اپني کوششيں اور اہتمام کرے۔ گھر اور شوہر کے لئے عورت کي ہمدردي، شوہر کو بيوي پر مہربان کر ديتي ہے اور وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کبھي وہ اپنے اختيارات ميں غلطي کر بيٹھے اور گھر کو کوئي نقصان پہنچ جائے تو نہ صرف يہ کہ مرد اسے الزام نہيں دے گا بلکہ اس کي حمايت کرے گا اور اس کي غلطي کومعاف کر دے گا۔

 

حضرت عليٴ عورت کے بخل کو اس کي خوبي اور مرد کے لئے مفيد شمار کرتے ہيں اور فرماتے ہيں: و اذا کانت بخيلۃ حفظت مالھا و مال بعلھا۔ يعني جب وہ بخيل ہوگي تو وہ اپنے اور اپنے شوہر کے مال کي حفاظت کرے گي۔

 

٣۔ شوہر کے ساتھ اظہارِ عشق:

 

زوجين کا ايک دوسرے کے ساتھ اظہارِ عشق کرنا دونوں کے درميان محبت پيدا کرنے کے لئے کيميا کا حکم رکھتا ہے۔ نبي اکرم ۰ اس بارے ميں فرماتے ہيں کہ شوہر کا کوئي جملہ اس سے بڑھ کر بيوي کے دل ميں جگہ نہيں بناتا کہ ’’ميں تم سے محبت کرتا ہوں‘‘۔

 

عورت باحيا ہوتي ہے، وہ مرد کے لئے دل ميں موجود جذبات کو ہميشہ چھپا کر رکھتي ہے اور اس کي حيا اسے شوہر کے ساتھ اظہارِ محبت سے روکتي ہے۔ يہ بھي ممکن ہے کہ کسي خطے ميں اپنے شوہر کے ساتھ اظہارِ محبت کو بھي برا سمجھا جاتا ہو۔ ليکن اسلامي تہذيب اس سے مختلف ہے اور عورتوں کو اپنے شوہر کے ساتھ اظہارِ عشق کرنا چاہئے تاکہ باہمي تعلق ميں اضافہ ہو۔ اس روايت ميں امام صادقٴ عورتوں کو زندگي کے تعلقات ميں بہتري کے لئے تاکيد کرتے ہيں کہ و اظہار العشق لہ بالخلابۃ يعني عورت زبان سے شوہر کے ساتھ اپنے عشق کو بيان کرے۔

 

خلابہ کا لفظ بتا رہا ہے کہ کسي تکلف اور ريا کے بغير اظہارِ عشق سے معاملہ کہيں بڑھ کر ہے۔ يہ لفظ رہنمائي کر رہا ہے کہ عورت کي محبت دل نثار کرنے، مہر و محبت سے پيش آنے اور دلفريبي کے ساتھ ہو تاکہ شوہر کا دل اپني مٹھي ميں لے لے اور اپني محبت و وفا و خلوص کے جال ميں جکڑ لے۔

 

کيونکہ جس طرح ايک عورت پھول کي طرح مہر و محبت کي محتاج ہوتي ہے اسي طرح مرد بھي روحاني سہارے اور عورت کي مہر و محبت کا نيازمند ہوتا ہے۔ اور عورت کي جانب سے اظہارِ محبت اسے حوصلہ دلاتي ہے۔

 

جناب فاطمہ زہراٴ کو حضرت عليٴ سے شديد محبت اور مودت تھي اور وہ اظہارِ عقيدت بھي کيا کرتي تھيں۔ ممکن ہے کہ امامٴ کي کاميابيوں کي وجوہات ميں سے ايک وجہ يہ بھي رہي ہو۔ چنانچہ آپٴ کے جملوں ميں سے ايک جملہ يادگار کے طور پر محفوظ ہے:روحي لروحک الفدائ و نفسي لنفسک الوقائ۔ميري روح آپ کي روح پر فدا اور ميري جان آپ کي جان کے لئے محافظ بن جائے۔

 

مرد کے لئے عورت کي آرائش:

 

امامٴ نے عورت کي جانب سے اظہارِ محبت کي تاکيد کرنے کے بعد اضافہ فرمايا کہ مرد کے لئے عورت کي آرائش خاندان کے استحکام کا سبب ہے۔ و الہيئۃ الحسنۃ لھا في عينہ۔ کيونکہ عورت پھول ہے اور اسے چاہئے کہ ہميشہ اپنے شوہر کے سامنے آرائش کے ساتھ آئے اور معطر و خوش کلام رہے۔ بعض عورتيں گھر سے باہر ہونے والي دعوتوں کے لئے آرائش کرتي ہيں ليکن گھر کے اندر ہميشہ معمولي اور سادے کپڑوں ميں رہتي ہيں۔ يہ عورتيں اس بات سے غافل ہوتي ہيں کہ وہ گھر کي ملازمہ ہونے سے پہلے، شوہر کے لئے مونس اور ساتھي ہیں اور اسے مرد کے سکون و اطمينان اور خوشي و مسرت کے لئے ہر کام کرنا چاہئے جس ميں ظاہري حسن و آرائش بھي شامل ہے۔ البتہ عورت کي اندروني خوشي اور رضامندي بھي اس کے چہرے کي رونق اور خوبصورتي ميں اضافے کا باعث بنتي ہے۔ لباس کي آراستگي اور چہرے کي رونق کے سبب سے خدا کا ديا ہوا حسن مزيد نکھر جاتا ہے اور شوہر کي نظر ميں عورت زيادہ حسين معلوم ہوتي ہے جس سے وہ گھر ميں زيادہ دلچسپي لينے لگتا ہے۔

 

پيامبر اکرم ۰ نے فرمايا: تم لوگوں ميں بہترين عورت وہ ہے جو ماں بننے والي اور مہربان ہو اور اپنے آپ کو چھپائے اور پاکدامن رہے۔۔ اپنے شوہر کے سامنے زينت کرے اور اجنبي مردوں سے اپني حفاظت کرے۔

 

جناب فاطمہ زہراٴ اپنے آپ کو اور گھر کو ہميشہ معطر رکھا کرتي تھيں اور ہميشہ اپنے پاس عطر رکھا کرتي تھيں۔

ام سلمہ کہتي ہيں: ميں نے فاطمہٴ سے عطر مانگا اور کہا: کيا آپ کے پاس کوئي ايسا عطر ہے جسے آپ نے اپنے لئے رکھا ہوا ہو۔ وہ لے کر آئيں اور ميرے ہاتھ پر تھوڑا سا رکھ ديا۔ اس سے ايسي خوشبو اٹھي جو ميں نے کبھي نہيں سونگھي تھي۔

 

اسمائ بنت عميس کہتي ہيں: فاطمہ نے اپني زندگي کے آخري لمحات ميں مجھ سے کہا: ميرا وہ عطر جو ميں ہميشہ لگايا کرتي تھي، لے آو۔

Read 4828 times