انسانی فطری طور پر اپنی سعادت اور خوش بختی کا متمنی ہے اور اس کے لیے کوشش و جستجو کرتا رہتا ہے۔ وہ سعادت تک پہنچنے کے خیال سے مسرت و شادمانی میں غرق رہتا ہے اور مخدوش مستقبل اور محرومی کے تصور سے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایمان ایک ایسی الہی نعمت ہے کہ جو دنیا کے بارے میں انسان کی سوچ تبدیل کر دیتی ہے اور وہ تخلیق اور خلقت کو بامقصد سمجھتا ہے اور یہ مقصد خیر اور کمال ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کائنات کے نظام اور اس کے قوانین کو مثبت نگاہ سے دیکھتا ہے اور زندگی کو معنی و مفہوم اور مقصد دیتا ہے۔ اسی احساس اور جذبے کو محترمہ والٹرور نے محسوس کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں اپنے ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ جس وقت میں نے خدا کی اطاعت شروع کی اسی وقت سے میری حقیقی زندگي کا آغاز ہوا۔
محترمہ والٹرور زندگی کے بہت سے تجربات حاصل کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ جب سے میں اسلام سے آشنا ہوئي ہوں اور میں نے اسلام قبول کیا ہے تو میری زندگی بامقصد ہو گئی ہے۔ کیونکہ اسلام نے مجھے ایمان کی نعمت سے نوازا ہے۔
کائنات میں ایک باایمان فرد کی حالت اس فرد جیسی ہے کہ جو ایک ایسے ملک میں زندگي بسر کرتا ہے کہ جس کے نظام اور قوانین کو وہ صحیح اور عادلانہ سمجھتا ہے اور اس نظام کو چلانے والوں کی نیک نیتی پر بھی وہ ایمان و یقین رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے اور تمام افراد کے لیے ترقی و پیشرفت کا راستہ ہموار دیکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جو چیز اس کی پسماندگي اور محرومی کا سبب بن سکتی ہے وہ اس کی اور اس جیسے افراد کی سستی اور ناتجربہ کاری ہے۔ لیکن کائنات میں ایک بےایمان فرد ایک ایسے فرد کی مانند ہے کہ جو ایک ایسے ملک میں رہتا ہے کہ جس کے نظام اور قوانین کو وہ غلط اور ظالمانہ سمجھتا ہے اور انہیں قبول کے سوا اس کے پاس کوئي چارہ نہیں ہے۔ ایسے شخص کے اندر ہمیشہ کینہ و عداوت چھپی ہوتی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنی اصلاح کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ يہ خيال کرتا ہے کہ پوری کائنات اور ہستی ظلم و ستم اور ناانصافی سے بھری ہوئي ہے اور اس کے لیے زندگی کا کوئي معنی و مفہوم نہیں ہے۔
*****
محترمہ والٹرور جرمنی میں پیدا ہوئيں۔ انہوں نے اپنا بچپن غربت و تنگ دستی میں گزارا اور انہوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ لیکن زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا کہ جب مادی لحاظ سے ان کی زندگي آسودہ تھی لیکن وہ محسوس کرتی تھیں کہ وہ اپنی زندگي سے راضی نہیں ہیں اور ان کی زندگي میں کسی چیز کی کمی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:
میرا بچپن بہت ہی غربت اور مشکلات میں گزرا۔ میرے بچپن کی تربیت میں مذہب کا کوئي کردار نہیں تھا۔ لیکن میں کم و بیش اپنی زندگی میں خدا کا وجود محسوس کرتی تھی۔ جب میں بڑی ہوئي تو میں نے ایک کمپنی میں سیکرٹری کی نوکری کر لی۔ آہستہ آہستہ میری مالی حالت اچھی ہونے لگی جس کی وجہ سے میری خواہشات میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ میں مہنگے کپڑے خریدنے لگي اور ایک آسودہ زندگی کے لیے زیادہ خرچ کرنے لگی۔ میرے پاس اگرچہ سب چیزیں موجود تھیں لیکن مجھے دلی سکون نہیں ملتا تھا۔ میری خواہشات اور تمناؤں کی کوئی انتہا نہیں تھی لیکن اس کے باوجود مجھے باطنی اور قلبی سکون میسر نہیں تھا اور مجھے اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ جب میں نے کئی دوسرے ملکوں کا سفر کیا تو میرے اندر تبدیلی کی خواہش جاگ اٹھی۔
محترمہ والٹرور کو ایک مسلمان ملک کے سفر کے دوران ایسے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگي پر بہت ہی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ گویا ان کو اپنے باطن میں کوئی گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:
جب میں پہلی بار ترکی گئي تو سحر کے وقت میں ایک خوبصورت اور دل انگیز آواز سے بیدار ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر کوئي چيز زندہ ہو گئی ہے۔ بعد میں میں متوجہ ہوئي کہ وہ صبح کی آذان کی آواز ہے کہ جو مسلمانوں کو صبح کی نماز کی دعوت دیتی ہے اسے سن کر مسلمان صبح کی نماز ادا کرتے ہیں۔ آذان میں مسلمان خدا کی بڑائی اور بزرگی کا ذکر کرتے ہیں اور حضرت محمد (ص) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔ آذان کی آواز نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ ترکی اور کئی دیگر اسلامی ملکوں کا سفر کرنے کے بعد میرے اقدار اور معیارات تبدیل ہو گئے اور اسلام میں میری دلچسپی بہت بڑھ گئی۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کے حقائق اور معارف کچھ اس طرح ہیں کہ وہ اپنے مخاطب کو آسانی سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات چونکہ انسان کی باطنی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اس لیے تشنگان حقیقت کو سیراب کرتی ہیں۔ اسی بنا پر محترمہ والٹرور اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں:
میں اس حقیقت تک پہنچ گئی کہ میں جس باطنی اور قلبی آرام و سکون کی تلاش میں تھی وہ مجھے اپنے ملک میں نہیں ملا بلکہ وہ مجھے اسلام میں نظر آیا۔ اسلام سے آشنائی نے میرے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے فارغ اوقات میں اسلامی ثقافت کے بارے میں مطالعہ کروں گی۔ میں اپنی چھٹیاں تیونس سمیت اسلامی ملکوں میں گزارنے لگی البتہ تفریحی مقامات پر نہیں بلکہ لوگوں کے درمیان خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں۔ میں نے مختلف طبقات اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے میل جول بڑھانے اور واقفیت پیدا کرنے اور بات چيت کرنے کی کوشش کی۔
*****
محترمہ والٹرور کی اس رفت و آمد اور سفر کا نتیجہ ان کے اسلام لانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عصر حاضر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ محترمہ والٹرور کو ایک اور حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔ وہ زالٹس برگ یونیورسٹی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ایک فلم دیکھتی ہیں۔ وہ خود اس کے بارے میں کہتی ہیں:
البتہ یہ تنقیدی فلم کمیونسٹوں نے دکھائی تھی۔ اس کے باوجود کہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے، مجھ پر اس فلم کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ میری نظر میں ایران کا اسلامی انقلاب اس حقیقت کا ایک مصداق تھا کہ خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس سے مدد مانگنے سے بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے چونکہ اسلام اور دین سے رہنمائی حاصل کی اسی لیے محترمہ والٹرور پر اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور ان کے دل میں انقلاب کے بارے میں مزید جاننے کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ انقلاب کے بارے میں یہ فلم دیکھنے کے بعد ویانا میں ایران کے کلچر سینٹر سے رابطہ کرتی ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:
اس رابطے کے نتیجے میں مجھے مطالعہ کے لیے بہت اچھی کتابیں مل جاتی ہیں جن میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور مفکر اسلام استاد شہید مرتضی مطہری کی کتابیں شامل ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد میرے اندر بہت اچھی تبدیلیاں پیدا ہو گئيں۔ شہید مطہری کی ایک کتاب میں میں نے مذہبی ایمان کے بارے میں پڑھا جو میرے لیے بہت ہی دلچسپ اور پرکشش تھا۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ تمام اخلاقی اصولوں کی بنیاد مذہبی ایمان ہے۔ کرامت، تقوی، سچائی، فداکاری اور وہ تمام کام جن کو انسانی فضیلت کا نام دیا گيا ہے، ان کی بنیاد ایمان ہے۔ مذہبی ایمان انسان کے اندر استقامت و مزاحمت کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اسی بنا پر مذہبی افراد، جتنا ان کا ایمان قوی و مضبوط ہوتا ہے، اتنا ہی وہ باطنی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
محترمہ والٹرور اسلام پر ایمان لانے سے اپنے اندر ایک دلنشیں آرام و سکون محسوس کرتی ہیں۔ ایک ایسا آرام و سکون کہ جو حتی سخت ترین حالات میں بھی متاثر نہیں ہوتا۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنے لیے زینب نام منتخب کیا۔ وہ کہتی ہیں:
جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں میں نے اپنی زندگی دوسرے انسانوں کے لیے وقف کرنے اور اسلامی نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ پردے اور حجاب کی وجہ سے مجھے اپنی پہلی ملازمت اور اچھی آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔ لیکن یہ نقصان میرے لیے بہت ہی شیریں تھا کیونکہ میں نے ایک بڑے مقصد کی خاطر اسے برداشت کیا۔ البتہ خدا نے مجھ پر لطف و کرم کیا اور مجھے دوسری جگہ مناسب نوکری مل گئی۔ میرے خیال میں اگر انسان خدا کی راہ میں کام کرے تو وہ خود کو ہمیشہ سربلند و سرفراز سمجھتا ہے اور کبھی بھی مادی نقصان کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں جتنا خدا کے راستے میں قدم بڑھاتی ہوں تو اپنے اندر اتنا ہی زیادہ آرام و سکون محسوس کرتی ہوں۔ جب میں مغرب میں نوجوانوں کو بڑی تعداد میں اسلام کا گرویدہ ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے سورۂ نصر یاد آ جاتی ہے جس میں ارشاد خداوندی ہے:
جب خدا کی مدد اور فتح آ جائے اور آپ لوگوں کو دین خدا میں جوق در جوق داخل ہوتا دیکھیں تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کریں بے شک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔