جنسی اخلاق کا اسلام اور مغرب میں تصور

Rate this item
(0 votes)
جنسی اخلاق کا اسلام اور مغرب میں تصور
جنسی اخلاق کا اسلام اور مغرب میں تصور- مصنف: شھید مرتضی مطھری
جنسی اخلاق دراصل عام اخلاق ہی کا ایک حصہ ہے۔ یہ ان انسانی عادات‘ جذبات اور رجحانات پر مشتمل ہوتا ہے جن کا تعلق جنسی خواہشات سے ہو۔
عورت کا مرد سے شرمانا‘ مرد کی غیرت‘ بیوی کی شوہر سے وفاداری اور عزت و ناموس کی حفاظت‘ مخصوص اعضاء کا ستر‘ غیر محرموں سے عورت کا بدن چھپانا‘ زنا کی ممانعت‘ غیر عورتوں سے لمس اور نظربازی کے ذریعے لذت حاصل کرنے کی ممانعت‘ محرموں سے شادی پر پابندی‘ ماہواری کے دنوں میں بیوی سے ہمبستری پر پابندی‘ فحش تصاویر کو شائع نہ کرنا‘ تجرد مقدس ہے یا ناپاک‘ یہ تمام مسائل جنسی اخلاق و عادات کا حصہ ہیں۔

ویل ڈیورنٹ کا نظریہ
جنسی اخلاق کا تعلق چونکہ انسانی اخلاق سے ہے اور اس میں (اثرانداز ہونے کی) غیر معمولی طاقت بھی موجود ہے‘ لہٰذا وہ ہمیشہ سے اخلاق کا بہترین حصہ شمار ہوتا چلا آ رہا ہے‘ ویل ڈیورنٹ لکھتا ہے:
"جنسی تعلقات کی نگہداشت ہمیشہ سے اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی رہی ہے‘ کیونکہ محض تولید نسل کی خواہش نہ صرف شادی کے دوران میں بلکہ اس سے پہلے اور بعد میں بھی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف اس خواہش میں شدت و حدت سے اور دوسری طرف اس کے نتیجے میں قانون شکنی اور فطری طریقے سے انحراف سے سماجی اداروں میں بدنظمی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔"(تاریخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۶۹)

جنسی اخلاق کا سرچشمہ
یہاں سے ابتدائی طور پر جو علمی اور فلسفی بحث چل نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ جنسی اخلاق کا سرچشمہ کیا ہے؟ عورت میں حیاء اور عفت کی خصوصیات کس طرح پیدا ہوتی ہیں؟ مرد اپنی عورت کے معاملے میں اتنا غیرت مند کیوں ہے؟ کیا یہ غیرت دوسرے لفظوں میں وہی "حسد" تو نہیں جس کی انسان مذمت کرتا ہے اور استثنائی طور پر صرف اپنی بیوی کے معاملے میں اس جذبے کو قابل تعریف سمجھتا ہے یا یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے؟ اگر وہی "حسد" ہے تو اسے مستثنیٰ کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اگر یہ کوئی دوسرا جذبہ ہے تو اس کی کیا توجیہہ ہو گی؟ اسی طرح عورت کے ستر کھولنے‘ فحاشی‘ محارم سے شادی کرنے وغیرہ کو کیوں برا سمجھا گیا ہے؟ کیا ان سب کا سرچشمہ خود فطرت اور طبیعت ہے؟ کیا فطرت اور طبیعت نے اپنے مقاصد کے حصول اور انسانی زندگی کو منظم کرنے کے لئے‘ جو کہ فطرتاً معاشرتی زندگی ہے‘ انسان میں مذکورہ بالا جذبات اور احساسات پیدا کئے؟ یا اس کے دوسرے اسباب ہیں‘ یعنی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ جذبات انسانی روح پر اثرانداز ہوتے رہے اور بتدریج انسانی اخلاق اور ضمیر کا حصہ بن گئے؟
اگر جنسی اخلاق کا سرچشمہ طبیعت اور فطرت ہے تو موجودہ دور میں قدیم اور وحشی قبائل‘ جن کا طرز زندگی ہنوز سابقہ اقوام کی طرح ہے‘ کیوں ان خصوصیات سے بے بہرہ ہیں؟ جو کم از کم ایک مہذب انسان میں پائی ہیں۔ بہرحال اس کا سرچشمہ اور مقصد کوئی بھی ہو اور انسانیت کا ماضی کچھ بھی رہا ہو‘ ہمیں اس پر شک کرنے کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اب کیا کیا جائے؟ انسان جنسی رویے کے بارے میں کونسا راستہ اختیار کرے جس سے وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے؟
کیا قدیم جنسی نظام اخلاق ہی برقرار رکھا جائے یا اسے فرسودہ سمجھ کر اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جائے؟
ویل ڈیورنٹ اگرچہ اخلاق کی بنیاد فطرت کی بجائے ان واقعات پر رکھتا ہے جو تلخ‘ ناگوار اور ظالمانہ رہے ہیں‘ تاہم اسے دعویٰ ہے کہ اگرچہ قدیم جنسی اخلاقی نظام میں قباحتیں موجود ہیں لیکن چونکہ وہ راہ تکمیل میں مناسب تر انتخاب کا مظہر ہے‘ لہٰذا بہتر ہے اس کی حفاظت کی جائے۔
ویل ڈیورنٹ بکارت کے احترام اور شرم و حیاء کے احساس کے بارے میں لکھتا ہے:
"قدیم سماجی عادات و اطوار اس انسانی مزاج کا آئینہ دار ہیں‘ جو ان میں کئی صدیاں گزر جانے اور بے شمار غلطیاں کرنے کے بعد پیدا ہوئے‘ لہٰذا کہنا پڑے گا کہ اگرچہ بکارت کے احترام اور حیاء کا جذبہ نسبی امور ہیں اور شادی کے ذریعے عورت کو خرید لینے سے متعلق ہیں اور اعصابی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں‘ تاہم ان کے کچھ سماجی فوائد بھی ہیں۔ ان عوامل کا شمار جنسیت کی بقاء کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہوتا ہے۔"(تاریخ تمدن‘ ج ۱‘ ص ۸۴)
فرائیڈ اور اور اس کے شاگردوں کا نظریہ (ویل ڈیورنٹ سے) مختلف ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جنسی معاملات میں قدیم اخلاقی نظام کو تبدیل کر کے اس کی جگہ جدید اخلاقی نظام نافذ کیا جانا چاہئے۔ فرائیڈ اور اس کے ہم نواؤں کے خیال میں قدیم جنسی اخلاق کی بنیاد "محدودیت" اور "ممانعت" پر رکھی گئی ہے۔ آج انسان کو جن پریشان کن مسائل کا سامنا ہے وہ اسی ممانعت‘ محرومیت اور خوف کے لامتناہی سلسلے سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ وحشتیں ان مسائل کو مزید الجھا دیتی ہیں جو ان پابندیوں کے باعث انسانی ضمیر پر مسلط ہو چکی ہیں۔

رسل کا نظریہ
رسل نے جدید اخلاق کا جو تصور دیا ہے اس کی بنیاد بھی مذکورہ دلائل ہی پر ہے‘ وہ بزعم خود اس جنسی اخلاق کے فلسفہ کا دفاع کرتا ہے جس میں شرم‘ عفت‘ تقویٰ‘ عزت (لیکن بقول رسل "حسد") وغیرہ احساسات کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا‘ انہیں وہ "تابو" کہتا ہے۔
برائی اور رسوائی کا تاثر اور مفہوم دینے والے اعمال کی وہاں کوئی جگہ نہیں‘ وہاں محض عقل و فکر پر اعتماد کرنا پڑتا ہے۔ رسل جنسی محدودیت کا صرف اسی حد تک قائل ہے جس قدر بعض غذائی پرہیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ تابو (ممنوع و مقدس) اخلاق کے بارے میں ایک سوال:
"کیا آپ ان لوگوں کو کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے جو جنسی مسائل کے بارے میں کوئی صحیح اور دانشمندانہ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟"
کے جواب میں کہتا ہے:
"اب جنسی اخلاق کے مسئلے پر بھی دوسرے مسائل کی طرح بحث و تمحیص کی ضرورت ہے‘ اگر کسی فعل کے ارتکاب سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچتا تو ہمارے پاس کوئی جواز نہیں کہ ہم اس کے ارتکاب کی مذمت کریں۔"(جہانی کہ من می شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)

ایک دوسرے سوال:
"آپ (رسل) کے نظریے کے مطابق آبرو پر حملے کی مذمت کرنی چاہئے‘ لیکن آپ عصمت کے منافی ان افعال کی مذمت نہیں کرتے جو چنداں نقصان دہ نہ ہوں؟"
کے جواب میں رسل کہتا ہے:
"ہاں ایسی ہی ہے‘ ازالہ بکارت افراد کے درمیان ایک (قسم کا) جسمانی تجاوز ہے‘ لیکن اگر ہم عصمت کے منافی مسائل سے دوچار ہوں تو ہمیں موقع و محل کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ ایسے حساس وقت پر کیا ہمارے پاس مخالفت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں یا نہیں؟"(جہان کہ من می شناسم‘ ص ۶۷-۶۸)
ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے کہ حیاء وغیرہ قسم کے جذبات جنہیں آج جنسی اخلاق کا نام دیا جاتا ہے‘ فطری ہیں یا غیر فطری؟ کیونکہ یہ ایک مفصل بحث ہے‘ لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ خیال نہ کیا جائے کہ علوم نے واقعی اتنی ترقی کر لی ہے کہ ان جذبات کے سرچشمے کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔ اس موضوع پر جو کچھ کہا گیا ہے وہ محض مفروضات ہیں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان مفروضات کو تراشنے والوں کے نظریات میں بھی یکسانیت موجود نہیں ہے‘ مثلاً فرائیڈ کے ہاں حیاء پیدا ہونے کا جو سبب ہے وہ رسل کے ہاں نہیں ہے‘ جبکہ ویل ڈیورنٹ کوئی دوسرا مقصد بتاتا ہے‘ ہم طوالت کے خوف سے ان اختلاف اور تضادات کا ذکر نہیں کرتے۔ ان احساسات کو غیر طبیعی ثابت کرنے کے لئے مذکورہ فلاسفہ کا رجحان ہی دراصل ان احساسات کی صحیح تشریح میں ناکامی کا سبب ہے۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ احساسات کسی طرح بھی فطری نہیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ فرد اور معاشرے کی اصلاح اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے جذبے سے دوسرے امور کی طرح ان کے متعلق بھی کوئی رائے قائم کریں‘ لہٰذا اس بارے میں عقل و منطق کیا حکم عائد کرتی ہے؟ کیا عقل یہ بات قبول کرتی ہے کہ مکمل روحانی سکون اور معاشرتی خوشحالی حاصل کرنے کے لئے تمام حدیں پھلانگ جانی چاہئیں اور سب سماجی پابندیاں اٹھا لینی چاہئیں؟ عقل اور منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ جنسی تعلقات کو فحش قرار دینے والی خرافات اور روایات کے خلاف جنگ لڑی جائے اور آزادی و آزادانہ پرورش کے نام پر (جنسی) خواہش کے لئے پریشان کن‘ گناہ آلود اور ہیجان انگیز سامان فراہم نہ کیا جائے۔

جدید جنسی اخلاق کے حامیوں کے نظریات
جدید جنسی اخلاق کے علمبرداروں کے نظریات مندرجہ ذیل تین اصولوں پر مبنی ہیں:
۱۔ ہر فرد کی آزادی اس حد تک ضرور محفوظ رہنی چاہئے جہاں تک وہ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو۔
۲۔ انسان کی خوشحالی کا راز اس میں موجود تمام صلاحیتو ں اور جذبوں کی پرورش میں پنہاں ہے‘ اگر وہ صلاحیتیں اور جذبات سبوتاژ ہو جائیں تو خود پرستی اور اس قسم کی دیگر (نفسیاتی) بیماریاں عود کر آتی ہیں۔ جب خواہشات میں رد و بدل ہوتا ہے تو اس عمل کے دوران میں وہ درہم برہم ہو جاتی ہیں‘ یعنی بعض خواہشات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور بعض تشنہ رہ جاتی ہیں‘ لہٰذا خوشحال زندگی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی تمام صلاحیتوں اور خواہشات کی یکساں طور پر پرورش ہو۔
۳۔ قناعت اور سیری سے اشیاء کی طرف انسانی رغبت کم ہوتی ہے‘ جبکہ ممانعت سے یہ رغبت بڑھتی ہے۔ جنسی مسائل اور ان کے ناخوشگوار نتائج سے مکمل طور پر انسانی توجہ ہٹانے کے لئے واحد صحیح راستہ یہی ہے کہ تمام (جنسی) پابندیاں اٹھا لی جائیں اور انسان کو آزادی دے دی جائے‘ کیونکہ فتنہ پھیلانا‘ کینہ رکھنا اور انتقام لینا بگڑے ہوئے جنسی اخلاق کی علامتیں ہیں۔
نئے جنسی نظام اخلاق کی بنیاد مذکورہ تینوں اصولوں پر رکھی گئی ہے‘ ہم آگے چل کر ان پر سیر حاصل بحث کریں گے۔

نئے جنسی اخلاق کا تنقیدی جائزہ
قدیم جنسی اخلاق کے بارے میں جدید اخلاقی نظام کے حامیوں کے نظریات اور جنسی اخلاق کی اصلاح کے لئے تجاویز کا ذکر کئے بغیر مذکورہ اصولوں پر بحث کرنا چنداں مفید نہ ہو گا۔
محدود معلومات رکھنے والے لوگ ممکن ہے بحث کے ہمارے موجودہ طریقے کو غیر ضروری اور غیر مفید سمجھیں‘ لیکن ہمارے خیال میں موجودہ معاشرے میں اس قسم کے مسائل پر بحث کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف نامور فلاسفہ اور مفکرین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں‘ بلکہ نوجوانوں کی محفلوں میں بھی زیرموضوع رہے ہیں۔ اکثر نوجوان جن کی فکری صلاحیتیں محدود ہیں اور وہ زیربحث مسائل کا منطقی تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ ممکن ہے ان افکار کو پیش کرنے والے فلاسفہ کی شہرت اور شخصیت سے مرعوب ہو کر انہیں سو فیصد درست اور منطقی سمجھ بیٹھیں۔
لہٰذا قارئین کو اس پس منظر سے پوری طرح آگاہ کرنا ضروری ہے کہ جنسی افکار کا جو سیلاب مغرب سے آیا ہے اور ہمارے نوجوان ان افکار کی صرف ابجد سے واقف ہوئے ہیں اور "آزادی" اور "مساوات" کے خوش نما نعروں سے متاثر ہو کر انہیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں‘ کہاں جا کر رکے گا؟ کب ختم ہو گا؟ کیا انسانی معاشرہ اس طوفان میں اپنا سفری جاری رکھ سکے گا یا یہ آدمی کے قد سے بڑا لباس ہے؟ یہ راستہ انسانی تباہی پر تو ختم نہیں ہو گا؟
اس کشمکش میں (چاہے اختصار کے ساتھ) ان مسائل پر بحث کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
جنسی اخلاق کی اصلاح کے مدعی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قدیم جنسی اخلاق کے جو اسباب اور سرچشمے تھے وہ اب کلی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا ختم ہو رہے ہیں‘ لہٰذا اب جبکہ وہ حالات و اسباب ہی موجود نہیں تو کیوں نہ اس اخلاقی نظام کو بھی خیرباد کہہ دیا جائے جس میں خشکی اور سختی کے سوا کچھ نہیں۔
اس اخلاق کی تخلیق کے باعث ان امور کے علاوہ بعض ایسے جاہلانہ اور ظالمانہ واقعات بھی موجود ہیں جو انسان کی ذاتی حیثیت‘ مساوات اور آزادی کے منافی ہیں‘ لہٰذا انسانیت اور مساوات کی خاطر بھی ایسے اخلاقی نظام کے خلاف جنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مدعی قدیم جنسی اخلاق پیدا ہونے کے جو اسباب گنواتے ہیں‘ یہ ہیں:
"مرد کی عورت پر حاکمیت‘ مردوں کا حسد‘ اپنے باپ ہونے کا اطمینان حاصل کرنے کے لئے مرد کی کوششیں‘(یعنی ایک مرد کی بیوی سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے‘ اس کے بارے میں شوہر کو یہ اطمینان ہو کہ وہی اس کا باپ ہے۔مترجم) جنسی رابطے کے ذاتاً فحش ہونے کے بارے میں راہبانہ اور مرتاضانہ نظریات‘ ماہواری کی وجہ سے عورت کو اپنی ناپاکی کا احساس اور اس مدت میں مرد کی عورت سے کنارہ کشی‘ انسانی تاریخ میں مرد کی طرف سے عورت کو پہنچنے والی ایذائیں اور آخرکار وہ معاشی اسباب جو عورت کو ہمیشہ سے مرد کا دست نگر بنائے رکھے ہیں۔"
جیسا کہ ظاہر ہے یہ عوامل ظلم و ستم یا خرافات کا نتیجہ ہیں‘ چونکہ پہلے پہل زندگی محدود تھی‘ لہٰذا اس ماحول میں ایسے افکار قبول کر لئے جاتے تھے لیکن اب مرد کی عورت پر حاکمیت ختم ہو چکی ہے۔ جدید طب کی ایجاد کردہ مانع حمل ادویہ سے پدری اطمینان حاصل کر لیا جاتا ہے‘ لہٰذا اب ضروری نہیں رہا کہ قدیم وحشیانہ طریقہ ہی اپنایا جائے‘ اب راہبانہ اور مرتاضانہ عقائد دم توڑ رہے ہیں۔ ماہواری کی وجہ سے عورت کو اپنی نجاست کا جو احساس ہوتا ہے اسے (طبی) معلومات بڑھا لینے سے ختم کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ یہ معمول کا ایک جسمانی عمل ہے۔ ایذا رسانی کا دور بھی ختم ہو گیا‘ جو معاشی اسباب عورت کو غلام بنائے ہوئے تھے اب ان کا بھی کوئی وجود نہیں رہا اور آج کی عورت نے اپنا معاسی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں حکومت بتدریج اپنے (سماجی) اداروں کو وسعت دے رہی ہے جو عورت کو دورانِ حمل‘ وضع حمل اور دودھ پلانے کے دنوں میں اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور اسے مرد سے بے نیاز کرتے ہیں‘ اس طرح دراصل باپ کی جگہ خود حکومت لے لیتی ہے۔ حسد کو اخلاقی ورزشوں سے ختم کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا ان تبدیلیوں کے ہوتے ہوئے قدیم اخلاقی نظام پر پابند رہنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
یہ وہ اعتراضات ہیں جو قدیم جنسی اخلاق پر کئے جاتے ہیں اور انہی دلائل کی موجودگی میں جنسی اخلاق کی اصلاح کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

 
Read 3270 times