تحریر و ترتیب: مجتبیٰ ابن شجاعی
طلوع اسلام سے قبل مختلف ادیان میں عورت کے بارے میں دل دہلانے والے شرمناک اور افسوسناک عقائد و افکار تھے۔ مکتبِ جاہلیت کے پروردہ انسان نما درندوں نے جنسیت کی بناء پر عورت کے مقام کو نیچے گرا دیا تھا۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا۔ سنگ دل باپ شرم و عار محسوس کرکے بے رحمانہ انداز میں اپنی معصوم کلی کو زندہ درگور کرتا تھا۔ قرآن پاک اس دردناک واقعہ کی تصویر کشی کرتا ہے ”اور جب خود ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی تھی تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا تھا اور خون کے گھونٹ پینے لگتا تھا، گویا بہت بری خبر سنائی گئی ہے۔“(سورہ نحل آیت نمبر 58-59) اسی واقعہ کے تناظر میں کلام پاک ان ظالم اور جابر افراد کے احساسات و اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں ارشاد فرماتا ہے ”جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ انہیں کس خطاء میں مارا گیا۔“(سورہ التکویرآیت نمبر 8-9)
جہالت کے گھٹا ٹوپ دور میں جب صدر اسلام کا نور چمکا تو آپ نے عورت کو عزت، وقار، رتبہ اور مقام و منزلت بخشا۔ مساوات، برادری اور برابری کا نظریہ پیش کیا۔ جنسیت، حسب و نسب رنگ اور نسل کو مرد و عورت کے درمیان برتری و بلندی کا میعار قرار نہیں دیا بلکہ واضع الفاظ میں بیان فرمایا کہ ”اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے، جو سب سے زیادہ صاحب تقویٰ ہے۔“(سورہ الحجرات آیت 13) کلام پاک کی رو سے مرد اور عورت از لحاظ جنسیت ایک دوسرے کے مساوی ہیں۔ کلی طور پر اگر دیکھا جائے تو مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے دونوں کے مقام و منزلت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں جنس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے انسانی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جو صرف مردوں یا صرف خواتین پر مشتمل ہو۔ سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ”تمہاری بیویاں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔“ قرآن پاک میں عورت کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں، جن کے ذریعے عورت کی فضیلت مقام و مرتبے کا ادراک کیا جاسکتا ہے اور یہ آیات قرآنی مرد و عورت کے مابین فرق کے نظریہ کو خارج کر دیتے ہیں۔
سورہ مبارکہ نحل آیت نمبر 97 میں اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبان ایمان ہو، ہم اسے پاکیزہ حیات عطاء کریں گے۔“ اس آیہ کریمہ میں مرد و عورت کو از لحاظ جنسیت مساوی حیثیت دے کر واضح کر دیا گیا کہ جنسی اعتبار سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں، اگر ایک دوسرے پر فوقیت ہے تو وہ صرف ایمان، اخلاق، تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ہے، یعنی تقویٰ و پرہیزگاری کو محبوبیت کا بنیادی عنصر قرار دیا گیا ہے۔ ایک دوسری آیت میں خداوند عالم کا ارشاد ہے: ”اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے، تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔“(سورہ حجرات آیت نمبر 13) اسی طرح سورہ مبارکہ روم آیت نمبر 31 میں زن و مرد کے مساوی ہونے کی دلیل پیش کی گئی ہے: ”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے حسین بیویاں پیدا کیں، تاکہ تمہیں سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لیے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔“
سورہ بقرہ میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے، اسی طرح سورہ احقاف آیت نمبر 15 میں دوران حمل ماں کی زحمت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے والدین (ماں باپ) کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ گویا قرآن کریم کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کا وجود مساوی ہے۔ کلام پاک کے علاوہ رسول اکرم و ائمہ اطہار ؑکی نگاہ میں بھی مرد و عورت جنسیت، حسب و نسب اور رنگ و نسل کے اعتبار سے مساوی ہیں۔ پیامبر گرامی اسلام کا ارشاد ہے کہ ”لڑکیاں تمہاری بہترین اولاد ہیں۔“(مکارم الاخلاق ص 219)۔ روایات میں ہے کہ جب رسول گرامی اسلام کو بیٹی کی پیدائس کی بشات دی گئی تو اصحاب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اصحاب کے چہرے سے کراہیت سی ظاہر ہونے لگی تو رسول اسلام نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ "تمہیں کیا ہوگیا، لڑکی ایک پھول ہے، جسے ہم سونگھتے ہیں اور اس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپر ہے۔“(بحار الانوار جلد 20)
اس طرح سے قرآن و احادیث مرد و عورت کے مساوی ہونے کی وکالت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت انسانی معاشرہ کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہے۔ انسانی معاشرہ کا نصف حصہ مثل ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں۔ نسل انسانی کا ذریعہ ہے۔ مرد کی ترقی، کامیابی اور کامرانی میں اس صنف نازک کا ایک اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ بڑے دلکش انداز میں اہمیت عورت کی تصویر کشی کرکے فرماتے ہیں:
وجود زن سے ہیں تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
طول تاریخ میں مثالی خواتین نے وقتاً فوقتاً ایک کردار نبھایا۔ وحدانیت، رسالت اور امامت کے پرچار میں شانہ بشانہ مردوں کا ساتھ نبھایا۔ عظیم الشان خواتین نے انبیاء و اولیاء ﷲکے مقدس مشن کی آبیاری میں اپنا آرام حرام کر دیا۔ مریم ؑ ، آسیہ، ہاجرہ ؑ، بی بی آمنہ، فاطمہ بنت اسدؑ، حضرت خدیجہ، دیگر امہات المومنین، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا ؑ اور شیر دل خاتون جناب زینب ؑ جیسی مثالی، نڈر اور باہمت خواتین نے دین مبین اسلام کے تئیں بیش بہا خدمات انجام دے کر اسلامی و انسانی معاشرے کا لازمی کردار ہونے کا ثبوت پیش کیا۔
عصر حاضر میں سید علی خامنہ ای شہید قاسم سلیمانی، شہید محسن حججی، شیخ زکزکی، شیخ باقر نمر النمر، سید حسن نصراللہ، خالد مشعل جیسے عظیم المرتبت مجاہدین اور شہدائے اسلام کی خواتین نے جس انداز سے اپنے مرد مجاہدوں کا حوصلہ بڑھایا، جہاد برائے اسلام میں ان کا ساتھ نبھایا اور اسلامی معاشرے میں خواتین کی آزادی کا جیتا جاگتا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا۔ صدیوں کی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مغربی اور یورپی نظام کی پروردہ خواتین کو ”نام نہاد آزادی نسواں“ کے نظریئے کے باوجود بھی اس طرح کی آزادی نصیب نہیں ہوگی۔ امام خمینی (رہ) فرما رہے ہیں کہ ”مرد در دامن زن بہ معراج می رود“(صحیفہ امام) یعنی ایک مرد کے کمال تک پہنچنے میں خاتون کا اہم رول ہوتا ہے اور زن باہوش کے بلند قامت حوصلوں کے سائے تلے ایک مرد قرب خدا کی معراج حاصل کرسکتا ہے۔ قول خمینی ؒ کی تازہ مثال شہید قاسم سلیمانی، شہید حججی جیسے شہداء ہیں، جن کے جذبہ جہاد اور شوق شہادت میں ان کی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کا حوصلہ اور ہمت پوشیدہ ہے۔ علامہ اقبال (رہ) نے عورت کی اہمیت دلکش الفاظ میں بیان کی ہے:
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
افسوس کا مقام ہے کہ اگرچہ عورت شعور و ادراک کے اعتبار سے ناقص نہیں تو پھر معاشرے میں عورت کے مقام کو کیوں کر اور کس طرح گرا دیا گیا۔ عورت پس سے پست ترین اور کمزور مخلوق کیوں سمجھی گی۔ کمتری کا برتاو کرکے عورت کو صرف گھر کی نوکرانی کے روپ میں پیش کیا گیا۔ نرم اور نازک مزاج عورت پر آئے روز دست درازی، محض مرد کی جنسی تسکین کا ذریعہ اور کھلونا کیوں سمجھا جا رہا ہے۔ ان سختیوں اور اذیتوں نے صنف نازک کو احساس کمتری کا شکار بنا دیا۔ تاریخ کے جھروکوں سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی پستی اور گراوٹ کا ذمہ دار مغرب کا استعماری نظام ہے، جس نے نام نہاد آزادی نسواں کے نام پر عورت کا استحصال کیا۔ عورت کو نوکرانی کے روپ میں پیش کرکے اس کا مقام حد درجہ گرا دیا۔ آزادی زن کے پرچم تلے عورت کی عصمت اور شرم و حیا کا سودا کیا۔ جنسی آزادی کے نام پر خواتین کو ہوس کے غلیظ و بدترین قید خانے کی جانب دھکیل دیا۔
آج کے انسانی معاشرے میں اگر کسی جگہ عورت کے ساتھ دست درازی، عصمت دری، چھیڑ خوانی اور قتل و غارتگری کے واقعات رونما ہو رہے ہیں تو یہ مغرب کی ہی دین ہے۔ اسلامی نظام کے ہوتے ہوئے کسی کی مجال نہیں تھی کہ کہ عورت کی جانب میلی نظروں سے دیکھے۔ استعماری نظام کے ہوتے ہوئے ان نظروں کی ہمت بڑھ گئی اور بے چاری عورت ہوس و درندگی کا شکار بن گئی، یہ مخلوق مظلوم تر بن گئی۔ بقول ڈاکٹر شریعتی ”مغرب کے استعماری نظام کا سب سے گھناونا حربہ فرائڈزم کی جنسی آزادی کا تصور تھا۔“ ڈاکٹر شریعتی کہتے ہیں کہ ”ہمارے دور میں مشرقی عورت کی تین قسمیں ہیں، ایک وہ جو روایات کہنہ کا شکار ہے اور ان روایات کو مذہب سمجھ کر انہیں ناقابل تغیر سمجھتی ہے، عورتوں کی دوسری قسم وہ ہے، جو مغرب کی نقالی کو اپنی نجات اور آزادی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ عورتوں کی تیسری قسم وہ ہے، جو آگاہ اور باشعور ہے، جو اپنے لیے خود انتخاب کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ عورت ہے، جو نہ چہرہ موروثی کو قبول کرتی ہے اور نہ مغرب سے درآمد شدہ مکروہ اور انسانیت دشمن نظریات میں گرفتار ہونا چاہتی ہے۔“
اگر اجتماعی طور پر دیکھا جائے کہ ان تینوں قسموں میں دوسری قسم کی عورت سب سے زیادہ ہوس کا شکار بن رہی ہے۔ اس قسم کی عورت نے مغربی نظام کے ساتھ اپنے جسم کا سودا کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ سودا کرنے والی عورت کا جنسی ہوس کا شکار ہونا یقینی ہے۔ افسوس صد افسوس اس قسم کے طبقے میں مغرب نقال مسلم خواتین کی ایک تعداد شیطانی خواتین کے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنی زندگی برباد اور معاشرہ آلودہ کر رہی ہیں۔ ہماری وادی کشمیر جسے ایک وقت ”پیرہ واری“ کے نام سے جانا جاتا تھا، میں بھی مغرب نقال خواتین کی ایک بڑی تعداد صاف و پاک معاشرے کو آلودہ اور اسلامی تہذیب و تمدن کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ بے جا نہ ہوگا کہ اس وادی گلپوش میں آئے روز عصمت دری اور چھیڑ خوانی کے جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، اس کی ذمہ دار مغرب نقال خواتین ہیں۔ بڑی حد تک مغرب پرست والدین بھی ہیں، جو اپنے اولاد کی تربیت شیطان کو سونپ رہے ہیں۔
ڈاکٹر شریعتی مزید کہتے ہیں کہ مغرب سے درآمد شدہ نظریات انسانیت اور حرمت کے دشمن ہیں، یہ آزادی کے نام پر عورت کو جنسی بے راہ روی کے دام میں گرفتار کرکے اپنے مذموم مفادات اور پست مقاصد کو حاصل کرتے ہیں۔(مسلمان عورت اور عہد حاضر کے تقاضے) اگرچہ آزادی ہر فرد کا بنیادی اور فطری حق ہے، لیکن انقلاب فرانس کے بعد اس اصطلاح کو ہائی جیک کرکے مغربی اور یورپی نظام نے آزادی زن کے نام پر انسانی معاشرہ کو آلودہ کیا۔ اس غلیظ ترین نظام نے بیہودہ اور جاہلانہ قوانین تیار کرکے آزادی کے نام پر عورت ذات کا استحصال کروایا۔ اس نظام نے عورت کا مقام مفلوج زدہ کر دیا۔ ڈریس کوڑ اور دیگر ذرائع سے عورت کی عصمت کو سرعام نیلام کر دیا۔ حماقت کی بات ہے کہ آزادی زن کے نام پر مغرب کے اس بیہودہ تصور نے بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی تمدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سادہ لوح مسلمان نے تعلیمات قرآنی اور اسوہ معصومین کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کے فرسودہ نظام کا جوش و جذبہ کے ساتھ استقبال کیا اور اپنے بدنصیب کندھوں پر شریعت کا جنازہ نکال کر اپنی پستی، ذلالت و رسوائی کا اعلان کر دیا۔
مغرب نے سب سے پہلے حجاب کو ہدف تنقید کا نشانہ بنایا، مسلمان خواتین کے ایک طبقے نے بے شرم معاشرہ کی نقالی کرتے ہوئے اپنے سروں سے حجاب اتار دیا۔ اپنے تنوں کو تنگ لباس سے عریاں کر دیا، یہ بے حجابی ان کی تذلیل و تحقیر کا بنیادی سبب بنی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نام نہاد آزادی زن کے ڈھنڈورے پر فرماتے ہیں کہ ”مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہے، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گیا ہے؟ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گیا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں، اسے چاہیئے کہ سجے سنورے، تاکہ مردوں کو اچھے لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔“
قرآن پاک بھی بے حجابی، بیہودگی اور عریانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے: ”اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناو سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز کی ادائیگی کرو، زکواۃ دو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو۔“(احزاب آیت 33) الغرض مغربی نظام نے آزادی نسواں کے نام پر جس عورت کو کھلونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اسلام نے اسی مخلوق کو حجاب کے سائے میں عظیم رتبہ اور مقام دیا ہے۔ عورت اس وقت جو احساس کمتری کا شکار ہوگئی ہے، ظلم و تشدد کا نشانہ بن گئی ہے، اس میں زیادہ تر عورت کا ہی ہاتھ ہے، ساتھ ہی ساتھ والدین اور چھوٹے بڑے مسلم حکمران بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ دورحاضر کی خواتین اگر خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ اور ثانی الزہراؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائیں تو ان کی تمام مشکلات کا حل بغیر کسی کے جھنڈے تلے حل ہو جائیں گے۔ خواتین کا جو طبقہ رسول اسلام کی میلاد کو یوم رہبر، مولائے کائنات کے یوم ولادت کو یوم پدر، حضرت زہرا ؑ کے میلاد باسعاد کو یوم مادر اور جناب ذینب ؑ کے یوم ولادت کو یوم خواہر کے طور پر مناتا ہے اور ان کی سیرت پر عمل پیرا ہوتا ہے، وہ طبقہ دین و دنیا میں سرخرو ہے۔ مادران را اسوہ کامل بتول ؑ۔(اقبال)
آزادی نسواں کے نام پر خواتین کا استحصال
Published in
خواتين