اریخ اسلام کی ایک بہت ہی مشہور و معروف اور فضائل و کمالات ، وفا و صبر سے سرشار خاتون جناب رباب ہیں جو امرؤ القیس کی صاحبزادی ، حضرت امام حسین علیہ السلام کی شریک حیات اور جناب حضرت علی اصغر و جناب سکینہ کی مادر گرامی ہيں جن کا نام تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے ۔
تاریخ اسلام کے مشہور مورخ ہشام کلبی نے جناب رباب کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کا شمار بہترین اور بافضیلت خواتین میں ہوتا تھا۔ امرؤ القیس نے جو ایک نہایت مشہور و معروف شخصیت کے حامل تھے خلیفہ دوم کے زمانے میں اسلام لائے اور مستقل طور پر مدینے میں سکونت اختیار کرلی جن کی تین لڑکیاں تھیں آپ نے خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے بے پناہ الفت و محبت کی وجہ سے اپنی تینوں لڑکیوں کی شادی اسی گھرانے یعنی ایک بیٹی کی شادی حضرت علی علیہ السلام ، دوسری بیٹی کی شادی حضرت امام حسن علیہ السلام اور تیسری بیٹی کی شادی جن کا نام رباب تھا امام حسین علیہ السلام سے کردی جناب رباب کی دو اولادیں ہوئیں ایک حضرت سکینہ اور دوسرے حضرت علی اصغر . حضرت علی اصغر میدان کربلا میں چھ مہنیے کی عمر میں اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے باپ کے ہاتھوں پر شہید ہوگئے اور جناب سکینہ سلام اللہ علیہا بھی واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور کربلا سے کوفہ و شام پر رنج و الم راہوں میں یزيدیت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہیں آپ کا شمار بھی عالم اسلام کی عظیم خواتین میں ہوتا ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی محبت و الفت کا تذکرہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے اور آپ کی سیرت دنیا میں موجود افراد کے لئے شریک حیات کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔اسی طرح شوہر کی خدمت و اطاعت میں جناب رباب کا کردار قیامت تک آنے والی عورتوں کے لئے بہترین اسوہ و نمونہ ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب رباب سے اپنی الفت و محبت کا ذکر بہت سے اشعار میں کیا ہے آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں : تمہاری قسم میں اس گھر سے بہت محبت کرتا ہوں جس میں سکینہ و رباب ہوں ۔
جناب رباب بھی حضرت امام حسین علیہ السلام سے والہانہ محبت کرتی تھیں امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد جناب رباب نے اپنی وفاداری و خلوص کا اظہار عملی کردار اور اشعار کی زبان میں کیا ہے۔ جب اسیروں کے ہمراہ آپ دربار ابن زياد میں داخل ہوئیں اور آپ کی نظريں امام حسین علیہ السلام کے سر بریدہ پر پڑی تو آپ اسیروں کے درمیان سے نکل کر سر مبارک کی طرف گئیں اور حاکم کوفہ ابن زیاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرمبارک کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور کہا: میں ہرگز امام حسین کو فراموش نہیں کرسکتی ، ہاں یہ حسین مظلوم جنہیں دشمنوں نے کربلا کے میدان میں تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا اور ان کے سر کو نیزہ پر بلند کیا۔
جناب رباب کربلا کے دلخراش مناظر اور راہ کوفہ و شام میں پڑنے والے مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے جب رہا ہوکر مدینے پہنچیں تو امام حسین علیہ السلام سے وفا و خلوص اور سچی محبت و الفت کی بناء پر کبھی بھی سایہ میں نہ بیٹھیں بلکہ جب تک زندہ رہیں سورج کے نیچے بیٹھی رہیں اور رات کی تاریکی میں کبھی بھی چراغ روشن نہیں کیا۔
آپ نے اپنے باوفا شوہر کے غم میں بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں سے کچھ کا ترجمہ یہ ہے :
وہ نور جس سے لوگ بہرہ مند ہوتے تھے اسے دشمنوں نے کربلا کے میدان میں خاموش کردیا اور دفن کرنے کے بجائے ان کی لاش کو کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں چھوڑ دیا۔ پھر امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتی ہیں اے میرے سید و سردار، آپ عظمت و شرافت کی عظیم چٹان تھے جس میں میں پناہ حاصل کرتی تھی اورآپ محبت و الفت اور دین مبین کے ساتھ میرے ہمراہ تھے آپ کی شہادت کے بعد اب کون ہے جو یتیموں اور اسیروں کی خبر گیری کرے گا ؟ خدا کی قسم آپ کے بعد میں ہرگز سائے میں نہیں بیٹھوں گی یہاں تک کہ قبر میں چلی جاؤں ،
جناب رباب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک برس سے زيادہ زندہ نہ رہیں اور حضرت کے غم میں آنسو بہاتے بہاتے اس دنیا سے عالم جاوداں کی طرف رخصت ہوگئیں ۔