عورت کا پردہ معاشرہ کا فطری تقاضا ہے اور بے پردگی ، بے حیائی اورآوارگی نسلوں کی تباہی و بربادی کا سبب ہے ، دین اسلام نے روز اول ہی سے بے پردگی اور عفت کے مخالف اعمال سے مخالفت کا اعلان کیا ہے، خداوند متعال نے سوره نور کی 31 ویں ایت شریفہ میں مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے پیغمبر اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں ، اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں ، علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے ، اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پر رکھیں ، اپنی زینت کو اپنے باپ ، دادا، شوہر، شوہر کے باپ دادا ، اپنی اولاد ، اپنے شوہر کی اولاد ، اپنے بھائی اور بھائیوں کی اولاد ، اپنی بہنوں کی اولاد ، اپنی عورتوں ، اپنے غلام ، کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے ، وہ بچےّ جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں تاکہ جو زینت چھپی ہوئی ہے اس کا اظہار ہوجائے اور صاحبانِ ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہوجائے ۔
قران کی اس ایت اور اسلام کے اس حکم کے مطابق، عورت کا پورا بدن یوں ڈھکا اور چھپا رہے کہ جب وہ کسی نامحرم کے سامنے آئے تو اُس کا سراپا دیکھ کراُس کے قد وقامت کا اندازہ نہ لگا سکے ، جب عورت اپنے بدن کی نمائش کرتی ہے تو اجنبی مردوں کو نظر بازی کی دعوت دیتی ہے ، شریعت اور دینی معاشرہ ایسی عورت کو بے حیا کہتا ہے ، حیا کا تعلق ایمان سے ہے ، مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی فرمایشات کے مطابق شرم و حیا ایمان کی ایک شاخ ہے ، گویا بے حیا عورت ایمان کی نعمت سے محروم ہوجاتی ہے ۔
ماضی میں مسلم حکومتوں نے خواتین سے مخصوص بازاروں کی بنیاد رکھی تھی جس میں فروخت کرنے والی بھی خواتین ہوا کرتی تھی ، ان کے پردے اور باوقار انداز رہاش سے متاثر ہوکر غیر مسلم خواتین نے بھی اپنے پردہ کا اھتمام کیا ، وہ نقاب تو نہیں پہنتی تھی مگر ان کے بدن پورے طورے سے کپڑے میں چھپے رہتے تھے ، سر پر آنچل اور سینے پر موجود پلو ، الھی ایات میں موجود پیغام کی نشانی ہے ۔
مگر عیسائی اور یہودی قوموں کی بَنی بَنائی سازش نے اسلامی معاشرہ کی دیوار میں لرزہ پیدا کردیا ، عورتوں کا مردوں سے میل جول ، کلبز اور ہوٹلوں میں نامحرموں اور غیر مردوں سے آزادنہ میل جول ، شراب خواری اور رنگ ریلیوں نے ، انسانی معاشرہ کی دھجیاں اڑا کر رکھدیں ، جس سے کم و بیش اسلامی معاشرہ بھی متاثر ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لَایُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُیُوبِهِنَّ وَ لَایُبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَهِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَ لَایَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِن زِینَتِهِنَّ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِیعًا أَیُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔ قران کریم ، سوره نور ، ایت 31 ۔