انسان کو اسمائے الہٰی کا مظہر کہا جاتا ہے۔ خداوند کریم نے انسان کو اپنا نائب بنایا تو اس کو اپنی صفات بھی ودیعت کیں، تاکہ اس منصب کے ساتھ عدل ہو اور ان صفات کو نکھار کر ہی انسان کمال حاصل کرسکتا ہے۔ چونکہ یکتائی صرف خدا کی ذات کو زیبا ہے اور اسی کا حق ہے، اس لیے اس نے کائنات میں موجود ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب مبین میں فرماتا ہے: "وَمِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَيۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ"، "اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں، تاکہ تم نصیحت پکڑو" (الذاريات:49)
اسی طرح انسان کو بھی اس نے جوڑے کی صورت میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اور پھر اس میں سے مذکر اور مؤنث بنائے۔ یعنی ایک کامل مرد اور ایک کامل عورت کے ملاپ سے ہی "انسان کامل" وجود میں آتا ہے۔ کمال انسانی تک تنہاء مرد یا تنہاء عورت کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ معاشرے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ جب مرد اور عورت کو اتنی زیبائی سے خدا نے لازم و ملزوم قرار دیا ہے تو ان کے تعلق میں یہ خوبصورتی نظر کیوں نہیں آتی؟ یہ ایک دوسرے کی ارتقا و کمال کا موجب کیوں نہیں بنتے؟ کیوں ایک دوسرے سے اتنا بےزار ہیں۔؟
ایک جواب جو میری ناقص عقل میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی حقیقت اور فطرت سے ناآشنا ہیں۔ جیسے اقبالؒ کہتے ہیں:
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے
یہاں ہر ایک دوسرے جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر ایک دوسرے سے برتر ہونے کی کاوش میں مصروف ہے۔ جیسے کوئی دوڑ لگی ہو کہ WHO IS SUPERIOR? دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے ہم خود اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ اپنی ضروریات اور انفرادیت فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ آج میں یہاں فقط "انثی" کی بات کروں گی، کیونکہ میرا تعلق بھی اس صنف سے ہے اور میرا موضوعِ سخن بھی فی الحال یہی ہے۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے، مگر اس مصرعے کو سن کر میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ یہ عورت جس کی بدولت کائنات رنگین ہے، اس کا اپنا رنگ کیا ہے؟ اس کی شناخت اور اس کا مقام بحیثیت عورت کیا ہے۔؟ یہ سوالات ہر عورت کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے! موجودہ دور میں عمومی طور پر عورت کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ پہلی قسم کو "مشرقی عورت" کا نام دیتے ہیں اور اس کے تمغوں کی لسٹ میں رجعت پسندی، قدامت پسندی، فرسودہ سوچ اور غلامی آتے ہیں۔ یہ عورت ماضی کی روایات کی اندھی مقلد ہے اور یہ وہ گائے ہے، جسے جس مرضی کھونٹی سے باندھ دو، اسکو فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اسکی زندگی کا نہ کوئی مقصد ہے، نہ اسے اپنے مقام کا فہم ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک Dependent مخلوق ہے، جو نہ اپنے لیے کچھ کر سکتی ہے، نہ معاشرے کے لیے، چونکہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں منجمد ہوچکی ہیں۔۔۔
اس کے مقابلے میں دوسری قسم جو چمکیلی، بھڑکیلی "مغربی عورت" کی ہے، جو اس خام خیالی میں ہے کہ اس نے روایاتِ ماضی سے خود کو آزاد کروا لیا ہے اور وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔ اس لئے وہ "میرا جسم، میری مرضی" کے بےبنیاد نعرے لگا کر اپنی بےچارگی کا اظہار کرتی ہے، مگر اس نادان کو یہ نہیں معلوم کہ درحقیقت اس نے فقط چادر و عفت سے خود کو آزاد کیا ہے، وہ بھی کروایا گیا ہے۔ اس کا ذہن، اس کی فکر اور اس کی زندگی ابھی بھی مقید ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا کہ قیدخانہ بدل گیا۔ پہلے وہ ماضی کی فرسودہ روایات کی اسیر تھی، اب وہ سرمایہ دار طبقے اور استعمار کے لیے ایک کھلونا ہے، جسے وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ دونوں صورتوں میں عورت کا اصل رنگ کونسا ہے؟ اس کی اپنی شناخت کونسی ہے؟ اور عورت کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ مشرقی یا مغربی رنگ اپنائے۔؟
تحریر: سیدہ مرضیہ زہرا نقوی
کوآرڈینیٹر رائٹنگ کلب ہوپ سوسائٹی پاکستان