حجاج کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت علیہم السلام کی یاد اور خوشبو سے ہر حاجی کا مشام معطر ہوجاتا ہے اور اس کا دل خود بخودان کی طرف کھچتا چلا جاتا ہے ۔مدینہ منورہ میں ہر شخص کے اندر ایک خاص حس پائی جاتی ہے،مدینہ عشق ومحبت کا خاص مرکز ہے ، زائرین ایسے شہر میں قدم رکھتے ہیں جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدائے مبارک گونج رہی ہے ۔سفر کے اولین لمحات میں ہر انسان نئی فکر نئے جذبات محسوس کرنے لگتا ہے ، زیارت کاشوق اور خود کو نمونہ قرار دینے کا جذبہ پیدا ہوتاہے ، زیارت یعنی آئینہ کے سامنے حاضر ہونے کے مترادف ہے ۔انبیاء کرام اور ائمہ علیہم السلام کے قبور مطہر سے معرفت وہدایت کانور چمکتاہے ، ہر زائر کو چاہئیے کہ وہ حقیقی زائر بنے تاکہ وہ اس نور سے خود کو منور کرسکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ و مدینہ سے رحلت کئے ہوئے کئی صدیاں گذر گئی ہیں، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زائرین جب مدینہ منورہ میں داخل ہوتے ہیں تو تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں،شرک ،ظلم اور جہالت سے مقابلے کے سلسلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جد جہد اور کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں ،ان مقامات پر جہاں پیغمبر اسلام (ص) رہتے تھے اور آپ نےجو مختلف مشکلات برداشت کی ہیں انھیں یاد کرکے لوگوں کے دل ان کی تعظیم اور محبت سے لبریز ہوجاتے ہیں۔
تاریخ میں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کے قریب منزل قبا پہونچے تو مدینہ کے لوگ اشتیاق میں آپ کے استقبال کے لئے آئے ، گرمی کے دن تھے ،گرمی بہت زیادہ پڑرہی تھی ایک صحابی نے کھجور کے ایک درخت کے اوپر ایک چادر ڈال کر سائبان درست کیا تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نیچے تھوڑی دیر آرام کرسکیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کیا کہ یہ درخت کس کا ہے ؟ ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ یہ درخت میرا ہے ۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم مجھے اس درخت کے نیچے آرام کرنے کی اجازت دیتے ہو اس شخص نےپیغمبر اسلام (ص) کے تواضع و انکساری کو دیکھکر تعجب سے کہا کہ اے فرستادہ خدا آپ جب تک اس درخت کے نیچے آرام کرنا چاہیں آرام کرسکتے ہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ متواضعانہ اخلاق نئی اقدار پرمبنی ایک طاقتور معاشرے کی تشکیل کے لئے پہلا قدم تھا جس نے انسانی تہذیب وتمدن کو دگر گوں کردیا ،
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حج میں حجاج کرام کے لئے بہت سی سبق آموز تعلیمات ہیں ۔ساتویں صدی ہجری میںایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حج عمرہ انجام دیا ، مکہ سے ہجرت کے بعد مکہ میں یہ مسلمانوں کا پہلا اجتماع تھا۔ تبلیغی پروگرام پر مبنی اس معنوی سفر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرکین پر مسلمانوں کی عظمت کو ظاہر کرنا چاہتے تھے ۔حجاج کرام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نگینہ کی طرح اپنے درمیان لئے ہوئے تھے ،عبداللہ بن رواحہ رسول خدا کے اونٹ کی مہار ہاتھ میں لئے ہوئے تھے اور بلند آواز میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے کہ اے کفر وشرک کے فرزندو! پیغمبر کے لئے راستہ کھول دو اس لئے کہ یہ خیر وبرکت کا سرچشمہ ہیں ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اشعار سن کر عبداللہ سے فرماتے ہیں کہ ان اشعار کے بجائے اس طرح سے پڑھیں لا الہ الا اللہ وحدہ وحدہ وحدہ ،صدق وعدہ ،نصرعبدہ واعزہ جندہ، خدائے وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہیں ہے ،اس کا وعدہ سچا ہے ، اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے لشکر کو عزت بخشی ۔محدثین ومورخین کاکہنا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کے بعد کئی مرتبہ عمرہ بجالائے اور عمر کے آخر میں ایک مرتبہ حج تمتع انجا م دیا جو حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے ۔ اس موقع پر سورہ حج کی ستائیسویں آیت نازل ہوئی کہ اے پیغمبر لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردیں کہ لوگ آپ کی طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں گے ، پیغمبر اسلام (ص) نے مؤذنون کو حکم دیا کہ لوگوں کے درمیان اعلان کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال حج پر جارہے ہیں ۔رسول خدا چاہتے تھے کہ مسلمان اس سال آپ کے ساتھ تمام ترعظمت وپرشکوہ کے ساتھ حج انجام دیں ۔ اسی لئے انھیں ترغیب دلاتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو بھی حج پر جانا چاہتا ہے وہ تیاری کرے ۔ مسلمان مدینہ کی طرف سے امڈ پڑے تاکہ پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ حج ادا کرسکیں ۔ ظہور اسلام کو صرف 23 برس ہوئے تھے اور مسلمان غربت ،مشکلات ،جنگ اور بہت سی مصیبتوں کو دیکھ چکے تھے ، لہذا وہ اسلام کی عظمت وشوکت کے دن کامشاہدہ کرنا چاہتے تھے ۔چنانچہ مسلمانوں کا ایک عظیم قافلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوا ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کے مطابق اعلی انسانی اخلاق کے حامل اور خدا کی مرضی کےعاشق تھے ، ندائےوحدت کے ساتھ جب مقام میقات پر پہونچے تو آپ نے غسل فرمایا اور احرام باندھا ، ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب خدا کی دعوت پر لبیک کہا جس نے انسان کو خلق کیا ،جس نے ابراہیم و محمد کو حکم دیاکہ حجاج کے درمیان حج کااعلان کریں تاکہ حج کے لئے آئیں اور ان کے دل خدا کی طرف متوجہ ہوجائیں ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوص اور محبت کے ساتھ لبیک کہتے تھے اور فرماتے تھے ۔لبیک الہم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد النعمۃ لک والملک لا شریک لک ۔آپ لبیک یا ذالمعارج لبیک بہت زیادہ کہتے تھے یعنی پروردگار میں آگیا میں آگیا ۔آپ جب کسی کو دیکھتے یا بلندی کی طرف جاتے یا نیچے کی طرف اتر تے تو لبیک کہتے نیز رات میں اورنماز کے بعد ان کلمات کو دہراتے تھے ،پیغمبر اسلام (ص) کے شوق وجذبات کو دیکھ کر لوگ وجد میں آجاتے اور ان کے شوق ومعرفت میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چار ذی الحجہ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے جب آپ مسجد الحرام میں جانے اور طواف کعبہ کے لئے تیار ہوئے تو آپ نے پہلے غسل کیا اور پھر حاجیوں کے ساتھ بیت اللہ الحرام کی جانب روانہ ہوگئے ۔ آپ جب بنی شیبہ کے دروازہ پر پہونچے تو آپ نے خدا کی حمد وثنا کی اور حضرت ابراہیم پر درود بھیجا اور جب آپ کی نظر کعبہ پر پڑی تو آپ نے اپنے دستہائے مبارک کو بلند کیا اور اللہ اکبر کہا اور فرمایا کا پروردگار اس گھر کی عظمت وشرافت اور نیکی میں اضافہ فرما اور جو بھی حج اور عمرہ کے لئے آئے اس کی کرامت ، شرافت اور نیکی میں اضافہ فرما ۔ا س کے بعد کعبہ کی طرف بڑھے حجر اسود پر دست مبارک پھیرا اور اس کے بعد طواف کیا ۔ عبد اللہ ب سنان ایک حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب طواف کیا اور اس کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھےدورکعت نماز پڑھی ،چشمہ زمزم پر گئے آب زمزم نوش فرمایا اور کعبہ کی طرف رخ کیا اور یوں دعا کی کہ خدایا تجھ سے علم نافع ،رزق واسع اور ہر بیماری سے شفا چاہتا ہوں ۔ اس کے بعد اپنے چاہنے والوں سےفرمایا کہ کعبہ سے جدا ہوتے وقت حجر الاسود کو مس کرو اور خودآپ نے حجر الاسود پر اپنا دست مبارک پھیرا اور صفا کی طرف گئے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے تمام اعمال انجام دئیے اور دوسروں کو حج کے اعمال کا طریقہ بتایا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستے میں حجاج سے تاکید فرماتے تھے ۔ اے لوگوں حج اونٹ اور گھوڑے کی طرح سے دوڑنا نہیں ہے ۔خداسے ڈرواور آرام وسکون کے ساتھ چلو، مبادا کسی کمزور مسلمان کا حق پامال کرو اعتدال ومیانہ روی سے کام لو ۔ لوگ رسول خدا (ص) کے ساتھ چل رہے تھے اور آنحضرت لوگو ں کو طہارت وپاکیزگی کی تلقین ،برائی اور اچھائی کو بیان فرماتے جاتے تھے اور لوگوں سے فرماتے کہ پاکیزگی سے بہرہ مند ہوں اور برائی سے اجتناب کر کے کمال و ترقی کے لئے اسباب فراہم کر یں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عدل وانصاف پر تاکید فرماتے تھے اورظلم و ستم سے دور معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے تاکہ لوگ آپس میں مفاہمت آمیز زندگی گذار سکیں ۔صداقت وسچائی کے حامل پیغمبر چاہتے تھے کہ لوگ چھوٹ نہيں بولیں ،دوسروں کے اموال کو ناحق پامال نہ کریں اور دوسروں پر ناحق ظلم نہ کریں ۔ آپس میں مہربان رہیں ،چھوٹے بڑوں کا احترام کریں اور اپنی نماز وعبادت اور دعا ومناجات کے ذریعہ خدا وند تعالی سے نزدیک ہونے کی کوشش کریں ۔ خدا کا درود وسلام ہو خدا کے منتخب بندے محمد پر جویکتا پرستی اورصلح وامن کے ہادی ہے اور تمام خوبیوں سے مزین ہیں۔