حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اور عظیم فریضہ الہی ہے۔ قرآن مجید ایک مختصر عبارت میں اس فریضہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: " وَ لِلهِ عَلَي الناسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبيلاً "خدا کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اور اسی آیت کے ذیل میں فرماتا ہے: " وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيُّ عَنِ الْعالَمينَ "جو شخص کفر اختیار کرے تو خدا عالمین سے بے نیاز ہے۔ یہ جملہ کہ حج استطاعت رکھنے والوں پر واجب ہے اور جو شخص حج کا انکار کر دے کافر ہے، حج کی اسلام کے اندر فوق العادہ اہمیت کو واضح کر دیتا ہے۔ اور سورہ اسراءکی ۲۷ ویں آیت" وَ مَنْ كانَ في هذِهِ أَعْمي فَهُوَ فِي اْلا´خِرَﮤِ أَعْمي وَ أَضَلُّ سَبيلاً " کی تفسیر میں جو امام صادق علیہ السلام سے روایت مروی ہے یہ بیان کرتی ہے کہ جو شخص حج واجب کو جان بوجھ کر تاخیر میں ڈالے یہاں تک کہ موت آجائے وہ قیامت میں نابینا محشور ہو گا۔ دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے: جو شخص حج واجب کو بغیر کسی عذر کے ترک کر دے قیامت کے دن نصرانی یا یہودی محشور ہو گا۔ اور اس کے مقابلہ میں حج کی جزا اور پاداش بھی اتنی زیادہ روایات میں بیان ہوئی ہے کہ شاید ہی کسی اور عمل کےبارے میں اتنی جزا بیان ہوئی ہے۔ جیسا کہ امام صادق (ع) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے۔ کہ آپ نے فرمایا: جو لوگ حج و عمرہ کو بجا لائے وہ خدا کے مہمان ہیں وہ جو بھی خدا سے مانگیں گے خدا انہیں عطا کرے گا۔ جو دعا بھی کریں گے خدا مستجاب کرے گا۔ اور اگر کسی کی شفاعت کریں گے خدا ان کی شفاعت کو قبول کرے گا۔ اور اگر وہ اسی راستے میں مر جائیں خدا ان کے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا۔ نیز ایک اور روایت میں پیغمبر اسلام (ص) سے مروی ہے: " اَلْحجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزاء اِلَّا الجَنَّﮥ "؛حج مقبول کی جزا بہشت کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور آپ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ " مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ... خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَومٍ وَلَدَتْهُ اُمُّهُ " جو شخص حج بجا لائے اس طریقے سے گناہوں سے پاک ہوتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ اور یہ عظیم اللہ کی نعمت اور سب سے بہترین جزا ہے کہ انسان کے تمام گناہ بخشے جائیں۔