حج میں قربانی کرنے کا فلسفہ کیا ہے؟

Rate this item
(1 Vote)

حج میں قربانی کرنے کا فلسفہ کیا ہے؟

چونکہ اسلامی احکام کا قانون ساز اور شارع، خداوند حکیم ہے، اس لئے اسلام کے تمام قوانین اور احکام { مخلوقات کےحق میں} کافی دقیق اورفائدہ بخش صورت میں وضع کئے گئے ہیں ، اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان کے بارے میں بہت سے اسباب اور حکمتوں سے آگاہ نہ ھوں- اسلام کے قوانین اور احکام میں سے یہ بھی ہے کہ جو افراد حج تمتع اور حج قران بجالاتے ہیں، ان پر واجب ہے کہ عید قربان کے دن سر زمین منی پر قربانی کریں-[1]

عالم اسلام کےعلماء نے آیات و روایات سے استفادہ کرکے حج کی قربانی کے متعدد فلسفے اور حکمتیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض کی طرفہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۱-قربانی نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی علامت ہے:

حجاج کا عید قربان کے دن قربانی کرنا، حقیقت میں اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے- جس طرح حضرت ابراھیم {ع}کے لیے خداوند متعال کی طرف سے حضرت اسماعیل{ع} کو ذبح کرنے کا حکم اس لئے تھا کہ حضرت ابراھیم {ع} اس عمل کی روشنی میں اپنے نفسانی تعلقات کے انتہائی اہم ترین عامل ، یعنی بیٹے کی محبت کے ساتھ مبارزہ کر کے خدا کی اطاعت کریں اورنفسانی خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں- اس بنا پر جس طرح اس حکم کی اطاعت نے، حضرت ابراھیم{ع} اورحضرت اسماعیل {ع} کے نفس امارہ کے زندان سے رہا ئی پانے میں ایک اہم تربیتی رول ادا کیا اور ان کے مقام و منزلت کو خدا کے پاس عظمت و بلندی بخشی، اسی بنا پر حجاج کے لئے قربانی بھی حقیقت میں ، دنیوی تعلقات اور مادی وابستگی سے آزاد کرانے میں ایک قسم کا جہاد نفس ہے-[2]

۲-خداوند متعال کا تقرب اور تقوی حاصل کرنا-

اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ہے :" خدا تک نہ ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون – اس کی بارگاہ میں صرف تمھارا تقوی جاتا ہے - - -"[3] بنیادی طور پر خداوند متعال قربانی کے گوشت کا محتاج نہیں ہے، کیونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ محتاج، بلکہ وہ ایک مکمل اور ہر جہت سے بے انتہا وجود ہے-

بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ آپ تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ میں گامزن ھو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ھو جائیں، تمام عبادتیں، تربیت کے کلاس ہیں- قربانی انسان کو جاں نثاری ، فدا کاری ، عفو و بخشش اور راہ خدا میں شہادت پیش کرنے کے جذبے کا درس دیتی ہے اور اس کے علاوہ حاجتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے-[4]

اگرہم حج کی قربانی کی صرف مذکورہ حکمتوں کو مد نظر رکھیں، اور قربانی کے گوشت سے کوئی استفادہ بھی نہ کیا جائے، پھر بھی یہ حکمتیں حاصل ھو سکتی ہیں-

۳-حاجتمندوں کی مدد { انھیں کھانا کھلانا}:

قرآن مجید کی آیات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے گوشت سے صحیح استفادہ کیا جائے، قربانی کرنے والا بھی اس سےفائدہ اٹھانے اور فقیروں و محتاجوں تک بھی پہنچا یا جائے-[5]

اس قابل قدر مقصد کی بنا پر، مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ قربانی کے گوشت کو منی میں زمین پر چھوڑ دیں اور یہ گوشت سڑ جائے یا اسے زمین میں دفن کیا جائے، بلکہ منی کی مقدس سر زمین پر قربانی کے گوشت کو پہلے درجہ میں اسی سر زمین کے حاجتمندوں تک پہنچانا چاہئیے اور اگر اس دن اس سر زمین پرکوئی حاجتمند اور فقیر نہ ملے تو اسے دوسرے علاقوں میں بھیج کر محتاجوں اور فقیروں تک پہنچانا چاہئیے، حتی کہ اس فلسفہ کی بنا پر اگر یہ گوشت بر وقت حاجتمندوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے سڑ بھی جائے، تو کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ پس قربانی کی ہی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہئیے کہ جدید علمی طریقوں کو بروئے کار لا کراور اس عظیم سرمایہ کو ضائع ھونے سے بچا کر جلد از جلد حاجتمندوں تک پہنچا دیں، بہ الفاظ دیگر یہ نہیں کہنا چاہئیےکہ، چونکہ قربانی کا گوشت حاجتمندوں تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اس لئے قربانی نہیں کرنی چاہئیے، بلکہ کہنا یہ چاہئیے کہ قربانی کرنا واجب ہے اور اس کی حکمتوں میں سے صرف ایک حکمت اس کا گوشت حاجتمندوں تک پہنچا نا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری وسائل فراہم کرنے چاہئیں -

خوش قسمتی سے حالیہ برسوں کے دوران، مکہ کے ذبح خانوں میں بہت سے اچھے امکانات فراہم کئے گئے ہیں اور گوشت کو منجمد کرکے حاجتمندوں تک پہنچا کر اسراف کی کافی حد تک روک تھام کی جاتی ہے-

اگر چہ اس سلسلہ میں ابھی سو فیصدی کامیابی حاصل نہیں ھوئی ہے، پھر بھی حاصل شدہ کامیا بیوں کے پیش نظر وہ دن دور نہیں ہے جب اس سلسلہ میں سو فیصدی کامیابی حاصل ھوگی-

حوالاجات

[1] مناسك حج (المحشى للإمام الخميني؛ ص: 100مناسك حج (للخامنئي)، ص: 16

[2] ماخوذاز سایت پرسمان قرآن

[3] حج،37:" لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَ لا دِماؤُها وَ لكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى‏ مِنْكُمْ"

[4] تفسير نمونه، ج‏14، ص: 107

[5] تفسير نمونه، ج‏14، ص: 83

Read 5402 times