*صحابی بزرگ "عمار یاسر" کی زندگی کا اجمالی مطالعہ

Rate this item
(3 votes)
*صحابی بزرگ "عمار یاسر" کی زندگی کا اجمالی مطالعہ

عمار یاسرکا مزار، تکفیری گروہوں کے ہاتھوں مسمار ہونے سے پہلے۔ شام

 

مقدمہ

ایک روایت کے مطابق (کہ جسے شیعہ اور اھل سنت نے متواتر نقل کیا ہے ) رسول اکرم (ص) کہ جسے خداوند متعال نے تمام انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ بنا کر بھیجا، فرماتے ہیں کہ حق اور باطل کی پہچان کا معیار عمار یاسر ہے ۔ (1)

لھذا ضروری سمجھتے ہیں کہ عمار یاسر کی حالات زندگی سے آشنا ہو ۔

 

عمار یاسر کی زندگی کا مختصر تعارف

آپ کے والد بزرگوار کا نام یاسر بن عامر ہے جن کا کنیہ "ابویقضان " ہے اور  طيب, مطيب, مذحجى ،عنسى و مولا بنى مخزوم ،القابات میں سے ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا تعلق قبیلہ بنی ثعلبہ عنسی سے ہے اور یمن میں زندگی کرتے تھے آپ کا والد گرامی اپنے گم شدہ بھائی کی تلاش میں مکہ آیا اور ابوحذیفہ کے ساتھ دوستی ہوئی پھر انہوں نے مکہ میں ہی زندگی گزارنے  کا فیصلہ کیا۔ابو حذیفہ نے اپنی ایک کنیز ( کہ جس کا نام سمیہ تھا) کے ساتھ آپ کے والد گرامی کا عقد کیا جس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کی ولادت ہوئی ۔

اگرچہ عمار یاسر کی تاریخ ولادت دقیقاً معلام نہیں  ہے مگر آنے والی شواہد (کہ جن کو بعد میں بیان کیا جاے گا ) کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عمار یاسر کی ولادت 43 سال قبل از بعثت پیغمبر ہوئی ہے ۔

 

عمار یاسر کی ظاہری خصوصیات

عمار یاسر بلند قد و قامت ، بڑی اور خوبصورت آنکھیں اور گندمی چھرہ کے مالک تھے۔آخری عمر میں ان کے جسم پر لرزہ عارض ہوا۔ باتیں کم کرتے تھے ، خاموش پسند اور سمجھدار تھے۔ عمار یاسر کی زبان پر اکثر اوقات یہ ذکر ھوا کرتا تھا (فتنے سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں) (2)

 

عمار یاسر کے خاندان کا اسلام لانا

 جب تک ابوحذیفہ زندہ تھے عمار یاسر اپنے ماں پاب کے ساتھ زندگی کرتے تھے اور جونہی پیغمر اسلام (ص) نے اعلان نبوت فرمایا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، عمار یاسر اور ان کے خاندان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے سب سے پہلے پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دین اسلام کو قبول کیا۔(3)

 

عمار یاسر کا مضبوط ایمان

چونکہ مکہ مکرمہ میں  عمار یاسر کے خاندان کا کوئی دوسرا فرد اور قوم و قبیلہ موجود نہیں تھا لھذا دوسرے مستضعف مسلان، جیسے بلال حبشی ، صهيب رومى اور خباب بن ارت کی طرح قریش اور عرب کے اقرباء پرست ظالموں کی شکنجوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ بنی مخزوم (کہ جن کے بزرگ ابوحذیفہ مخزومی کے ساتھ عمار یاسر اور ان کے والد محترم نے دوستی کا ہاتھ ملایا تھا) نے بھی منہ موڑا۔

مشرکان قریش اِن کو عرب کی جلادینے ولی گرمی میں گھر سے باہر لے جاتے تھے اور ان کے سینون پر بڑے بڑے پتھر رکھتے تھے  اور کبھی کبار تو ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے ان کو لوہے کا زرہ پہناتے اور زنجیر سے صحراء کی گرم ریت پر گسینٹے تھے اور کہتے تھے کہ اگر محمد (ص) کی محبت دل سے نکالیں تو ان عذابوں سے چھٹکارا حاصل کروگے۔ مگر ان صاحبان ایمان حقیقی کے پختہ ایمان کا یہ عالَم تھا کہ وہ ان ازیتوں کو برداشت کرتے تھے مگر ان کے ایمان میں زرہ برابر کمی نہیں آئی۔

یہ دلخراش اور روح کانپنے والی مناظر کو دیکھ کر رسول اکرم (ص) ان کو صبر اور بردباری کی تلقین کرتے تھے اور بہشتِ جاوداں کی خوشخبری سناتے تھے۔(4)

عمار یاسرنے بھی مشرکان قریش کے ظلم و بربریت کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شھادت نوش کیا اور آپ کی زوجہ محترمہ کے شکم پر ابو جھل نے ایک لات مارا جس کے نتیجہ میں آپ کی ولدہ محترمہ (سمیہ) کی شہادت ہوئی۔ یوں آپ اور آپ کی والدہ کو اسلام کے اولین شہداء میں سے ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

ایک تاریخی اشتباہ

ابن قتيبه دينورى نے كتاب "المعارف" میں، ابن سعد نے كتاب "الطبقات"میں، بلاذرى نے كتاب "انساب الاشراف" اور ابن عساكر نے اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھا ہے کہ سمیہ(مادرعمار یاسر) نے "ازرق", غلام حارث بن كلده (کہ جو رومی تھا) سے شادی کی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اوپر بیان کی گئی تفصیلات کے مطابق سمیہ کی شہادت عمار یاسر کی شہادت کے ساتھ یا کچھ ہی عرصہ بعد ہوئی۔

دوسری بات یہ ہے کہ ابن عبدالبر اندلسى کہتا ہے کہ جس سمیہ کے ساتھ ازرق نے شادی کی تھی وہ عماریاسر کی والدہ محترمہ نہیں تھی بلکہ ازرق کے اپنے آقا حارث بن کلدہ کی ھمسر تھی جس کے ساتھ ازرق نے حارث کے مرنے کے بعد شادی کی تھی۔(6)

 

عمار کا تقیہ

عمار یاسر کے والدین کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد عمار کی زندگی میں کفار قریش کی طرف سے سختیاں زیادہ ہوئی اور عمار یاسر کو طرح طرح کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اس دوران عمار یاسر نے پیغمبر اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں میں سے ایک اصل (کہ جو تقیہ ہے) پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں پیروی پیغمبر اور قرآن ثابت کیا۔

مشرکان مکہ کی سختیوں سے بچنے کے لیے مشرکان مکہ کی خواہش کے مطابق "لات" اور "عزى" کی تعریف کی اور پیغبر اکرم (ص) کو ناسزا کہا۔ اس واقعہ کے بعد عمار پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر اظہار ندامت کرتے ہوئے فریاد کی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوا اور کہا کہ اے پیغبر آج میری زبان پر وہ جاری ہوا ہے کہ جو میرے دل میں موجود عقیدہ کے خلاف ہے۔

پیغبر اکرم(ص) نے اپنے دست مبارک سے عمار کے آنسو پونچے اور فرمایا کہ اگر مشرکان مکہ دوبارہ تمہیں اذیت دے اور مجھے ناسزا کہنے کو کہے تو دوبارہ ایسا ہی کرنا۔

اس  طرح عمار نے قرآن ،پیغمبراور معصومین(ع) کے بتایے ہوئے اصولوں میں سے ایک اصل تقیہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو مشرکین کی اذیتوں سے محفوظ کیا۔(7)

بعض لوگوں نے عمار کو تقیہ پر عمل کرنے کی وجہ سے برا بلا کہا ہے اور یہاں تک کہ عمار کو کافر بھی کہا گیا ہے۔ جب لوگوں کی یہ بات پیغبر اکرم (ص) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ عمار ایسا نہیں کہ جیسا لوگ کہ رہے ہیں بلکہ عمار کا پورا وجود ایمان کے نور سے منور ہے اور عمار کے گوشت اور خون میں ایمان مخلوط ہے۔(8)

اس کے بعد سورہ نحل آیہ 107 (من كفر بالله من بعد ايمانه الا من اكره و قلبه مطمئن بالايمان)(9) عمار کی شان میں نازل ہوئی۔(10)

 

عمار یاسر کی مکہ سے مدینے کی طرف ھجرت

جب پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو عمار یاسر بھی ان لوگوں میں شامل ہوا جو اپنا سب کچھ چھوڑ کرپیغمبر اکرم (ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مدینہ کی طرف ھجرت کیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد عمار یاسر "مبشر بن عبدالمنذر" کے گھر میں ٹھرے اور آیہ (والذين هاجروا فى الله من بعد ما ظلموا لنبوئنهم فى الدنيا حسنه و لاجر الاخره اكبر لوكانوا يعلمون) (11) کا مصداق بن گیا۔ (12)

 

تاریخ اسلام  کی پہلی مسجد کہ جسے عمار یاسر نے بنائی

جب پیغمر اکرم (ص) مکہ سے مدرنے کی طرف ھجرت فرمائی اور جب قباء (13) کے مقام پر پہنچے تو عمار یاسر پیغمر اکرم (ص) کی خدمت حاضر ہوا اور پیغمر اکرم (ص) کے لیے سایہ بنایا اور ارد گرد سے پتھر اٹھاکر لایا تاکہ پیغمبر اکرم (ص) کے اطراف دیوار کھڑی کی جا سکے۔  پیغمبر اکرم (ص) نے جمع شدہ پتھروں سے مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور عمار یاسر نے اس مسجد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

اس طرح عمار یاسر نے روی زمیں پر پہلی مرتبہ مسلمانوں کے لیے مسجد بنانے کا اعزاز اپنے نام کردیا۔(14)

جب پیغمبر اکرم (ص) مدینہ پہنچے تو پیغمبر اکرم (ص) نے عمار یاسر اور حذیفہ بن یمان(ایک روایت کے مطابق عمار یاسر اور مقداد) کے در میان صیغہ اخوت جاری فرامایا اور کچھ زمین عمار کو عنایت فرمائی تاکہ عمار اس زمیں پر اپنے لیے گھر بنا سکے۔

ایک اور جگہ پر پیغمبر اکرم (ص) نے دس دینار میں کچھ زمین خریدی اور عمار یاسر سے فرمایا کہ وہ اس جگہ پر مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کے لیے مسجد بناے۔(15)

عمار یاسر اپنی پوری قدرت کے ساتھ مسجد کی تعمیر میں حصہ لیتے تھے ایک مرتبہ عمار اپنی پشت پر مٹی کا بار اٹھاکر لے آ رہا تھا پیغمبر کے ساتھ رو برو ہوا تو عمار نے کہ یا رسول اللہ یہ لوگ اپنے سے دو برابر مجھ پر سوار کرتے ہیں اور مجھے اذیت دیتے ہیں۔ رسول اکرم (ص) نے اپنے دست مبارک سے عمار کے جسم سے گرد و غبار صاف کرتے ہوے فرمایا کہ افسوس اے سمیہ کے بیٹے یہ لوگ تجھے نہیں مارینگے بلکہ ایک گمراہ قوم تجھے قتل کریگی۔(16)

نظام کی حفاظت سب کی ذمداری ہے

کسی بھی آیین یا دین اور نظام کی بقاء کے لیے مدافع کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عمار یاسر نے بھی اپنے زمانے میں جب جب نظام اسلام خطرے میں دیکھا، اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس نظام کی خوب دفاع کی، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہے۔

جناب ابوبکر کی خلافت کے دور میں جب مسیلمہ کذاب نے یمامہ میں ادعاے نبوت کی اور لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کیا تو عمار یاسر عقیدہ اسلام کی دفاع کرنے کے لیے  اس گروہ میں شامل ہوا جو مسیلمہ کذاب سے جنگ کرنے کے لیے یمامہ گئے۔ اس جنگ میں عمار یاسر کا کان زخمی ہوا، اس کے باوجود عمار یاسر سپاہ اسلام سے مخاطب ہوکے رجز پڑھ کر سپاہ اسلام کو دین اسلام کی دفاع کی تشویق دلاتے رہے۔(17)

عمار یاسر خلیفہ دوم جناب عمر ابن خطاب کے دور خلافت میں خلیفہ کی جانب سے کوفہ کا گورنر منصوب ہوا۔ خلیفہ نے عھدنامہ میں کوفیوں سے مخاطب ہوکرعمار یاسر کی تعریف کرتے ہوے  کہا کہ عمار یاسر پیغمر اکرم (ص) کے بزرگ صحابیوں میں سے ہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد عمار یاسر کو معزول کرکے ابوموسی اشعری کو گورنر کا منصب دیا گیا۔(18)

عمار یاسر نے حفظ نظام اسلام کی خاطر خاموشی کے ساتھ اس منصب کو منتقل کیا۔

عمار یاسر مدائن کے فتح کے موقع پر کہ جسے خلیفہ ثانی کے دور خلافت میں سعد بن ابی وقاص کی سربراہی میں سولہویں ھجری میں فتح کیا گیا، لشکر اسلام کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور بعد میں کئی مرتبہ مدائن کا دورہ کیا۔

اسی طرح عمار یاسر جناب عثمان بن عفان کے دور خلافت میں پیش آنے والے غیر معمول واقعات اور حادثات کے دوران تمام مسائل کا جارحانہ انداز میں مقابلہ کرتے تھے۔(19)

جب خلیفہ سوم نے ابوذر غفاری کی جلاوطنی کا حکم صادر کیا تو عمار یاسر غضبناک ہوے اور خلیفہ کے اس حکم کے باوجود کہ ابوذرغفاری کو وداع کرنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی، حضرت علی(ع) اور ان کے خاندان کے ساتھ ابوذر غفاری کو وداع کرنے کے لیے اطراف مدینہ تک آے۔(20)

چونکہ عمار یاسر کی فکر انقلابی تھی لھذا کئی مرتبہ معاشرے میں پیدا ہونے والے خرافات اور اختلافات کا مقابلہ کرتے ہوے ظالموں کے ظلم کا شکار ہوے یہاں تک کہ ایک مرتبہ کسی ظالم کی ضربت کی وجہ سے عمار یاسر کی پہلو میں چوٹ لگی اور بے ہوش ہوے۔ بی ہوشی کے عالَم میں ام سلمہ(ھمسر پیغمبر اکرم ص) کے گھر میں لایا گیا اور جب ہوش می آیا تو سب سے پہلے بے ہوشی کے دوران قضا ہونے والی نمازوں کو ادا کیا اس کے بعد بارگاہ الھی میں ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا کہ خدایا تیرا شکر ادا کرتا ہوں، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ عمار تیری راہ میں دشمنوں کے شکنجوں کا شکار ہوا ہو۔(21)

 

عمار یاسر اور اھل بیت (علیھم السلام)

عمار یاسر ایسی شخصیت ہے کہ جس کی اھل بیت (علیھم السلام) بالخصوص پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) سے محبت کسی سے مخفی نہیں ہے

عمار یاسر کو پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی زندگی میں ہی عمار کے والدین کی شفاعت اور بھشت میں داخل ہونے کی خوشخبری سنائی۔اور عمار کو "الطیب المطیب" کہکر پکارا۔ (22)

اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ جو عمار سے دشمنی رکھتا ہے خدا اس سے دشمنی رکھتا ہے اور جو عمار کی بے حرمتی کرے خدا اس کو ذلیل و خوار کریگا۔(23)

پیغمبر اکرم (ص) نے عمار کی فضیلت بیان کرتے ہوے فرمایا کہ بہشت علی، سلمان اور عمار کی مشتاق ہے۔(24)

پیغمبر اکرم (ص) نے مزید فرمایا کہ لوگوں کو عمار سے کیا نسبت؟ عمار تو دشمنوں کو بھی بہشت لے جانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ دشمن عمار کو آگ میں پھینکنا چاہتا ہے، یہی اچھے اور برے لوگوں میں واضح فرق ہے۔(25)

عمار یاسر امیر المؤمنین امام علی (ع) کے دور خلافت میں رات کی تاریکی میں روشن چراغ کی طرح، کم ایمان اور عام فکر رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں نور ھدایت اور نور ایمان روشن کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور پیغبر اکرم (ص) کے فرمان کی پیروی کرتے ہوے "کہ پیغمبر اکرم (ص) نے عمار سے فرمایا تھا کہ اے عمار اگر سارے لوگ ایک طرف اور علی ابن ابی طالب دوسری طرف ہو تو تم علی ابن ابی طالب کا راستہ اپنالینا"(26) ہمیشہ علی ابن ابی طالب کے شانہ بشانہ رہتے تھے۔(27)

عمار یاسر خلیفہ دوم کے دور میں کسی قسم کے خطرے کی پروا کئے بغیر کھا کرتے تھے کہ اگر خلیفہ دوم کی وفات ہوئی تو میں علی ابن ابی طالب کی بیعت کرونگا۔ اپنے اس نظریہ پر عمل کرتے ہوے سب سے پہلے امام علی (ع) کی بیعت کی اور دوسروں کو بھی امام کی بیعت کی تبلیغ کرتے رہے۔(28)

عمار یاسر کی فداکاری جنگ جمل اور صفین میں (ان دونوں جنگوں میں عمار سپاہ امام کے سردار تھے) سب پر واضح اور آشکار ہوئی۔

 

 

عمار یاسر معیار شناخت حق

عمار یاسر کہ جس نے پیغمبر اکرم (ص) سے "بیعت رضوان" کے زریعے اپنے آپ کو پیغمبر اکرم (ص) خدمت اور ان کے حکم پر لبیک کہنے کے لیے ہمیشہ آمادہ رکھا اور حضرت علی ابن ابی طالب کی ھم رکابی میں جنگ صفین میں آٹھ سو صحابی پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ شرکت کر کے اسی زمانے کو ان افراد کے لیے (کہ جن کو حضرت علی (ع) کی حقانیت پر شک تھا) اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے یہ واضح کردیا کہ حضرت علی (ع) حق پر ہے اور جو ان کے مقابلے آیا ہےوہ باطل پر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خزیمہ بن ثابت (صحابی رسول) کہ جو حق کی شناخت نہ ہونےکی وجہ سے جنگ جمل میں بلکل بے طرف رہے اور جنگ صفین میں بھی شک و تردد کا شکار تھے جیسے ہی صفین میں دشمن کے ہاتھوں عمار یاسر شہید ہوے تو پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کے مطابق "کہ آنحضرت نے فرمایا تھا کہ عمار کسی باطل اور گمراہ گروہ کے ہاتھوں شہید ہوگا" خزیمہ بن ثابت کو معاویہ اور ان کے حواریوں کا باطل پر ہونا ثابت ہوا اور فورا ہاتھ میں شمشیر اٹھایا اور دشمن سے مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں علی ابن ابی طالب کی ھم رکابی میں شھادت کا شرف حاصل ہوا۔(29)

اسما بن خارجہ فزاری کہتا ہے کہ جنگ صفین میں زوال ظھر کے وقت میں عمار یاسر کے قریب بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور عمار سے کہا کہ ایک سوال ہے اکیلے میں پوچھوں یا یہیں سب کے سامنے پوچھوں؟ تو عمار نے کہا کہ جیسے مناسب سمجھو، تو اس شخص نے کہا کہ کل تک مجھے علی کی حقاینت اور معاویہ اور ان کے ساتھیوں کے باطل پہ ہونے پر کوئی شک نہیں تھا مگر جب سے طرف مقابل میں سے اذان اور نماز کی آواز آئی ہے میں شک میں مبتلا ہواہوں۔ یہی سوال حضرت علی سے پوچھا تھا مگر انہوں نے فرمایا کہ عمار کو تلاش کرو اور ان سے اس سوال کا جواب طلب کرو۔

عمار یاسر نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر اکرم (ص) کی سربراہی میں جنگ بدر، احد اور حنین میں اسی سیاہ پرچم اٹھانے والوں کے ساتھ جنگ کی ہے کہ جو پرچم آج عمرو ابن عاص کے ہاتھ میں ہے۔ اور چوتھی مرتبہ آج اسی سیاہ پرچم کے مقابلے میں جنگ کررہا ہوں، میری نظر میں طرف مقابل کی حالت پہلے جنگوں کے طرف مقابل کی نسبت خراب نہ ہوئی ہے تو بہتر نہیں ہوئی ہے۔ اور آج ہمارا مقام بلکل وہی ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے پرچم کے سائے میں آنے والوں کا ہے اور اُن کا مقام اس زمانے کے مشرکین اور احزاب کے مقام کی طرح ہے اور معاویہ اور ان کے حواریوں کا خون، چڑیا کے خون کی طرح اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور کسی قسم کے شک و تردد کا شکار نہیں ہوں۔(30)

جنگ صفین میں عمار یاسر کی شھادت نے دشمنوں کی صفوں میں طلاطم بر پا کیا۔ ابو عبد الرحمٰن سلمی (کہ جو امیر المؤمنین کے ساتھیوں میں سے ہے) کہتا ہے کہ جب عمار یاسر کی شہادت ہوئی تومیں رات کی تاریکی میں دشمن کی صفوں میں چلا گیا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ عمار کی شہادت نے وہاں کیا اثر چھوڑا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ معاویہ عمرو ابن عاص، ابو اعور سلمی اور عبد اللہ ابن عمرو کے ساتھ ٹھل رہے تھے۔ میں نے سنا کہ عبداللہ ابن عمروابن عاص نے اپنے باپ سے کہا کہ آج ایک ایسے مرد کو مارا ہے کہ جس کی شان  رسول اکرم(ص) نے بیان فرمایی ہے، عمروابن عاص نے پوچھا پیغمبر نے کیا فرمایا ہے؟ تو ان کے بیٹے نے کہا کہ کیا آپ اس وقت نہیں تھے کہ جب تمام مسلمان رسول اکرم کے حکم پر مسجد بنا رہےتھے اور سب ایک ایک پتھر اٹھا رہے تھے جبکہ عمار یاسر دو دو پتھر اٹھارہےتھے جس کے نتیجہ میں عمار بے ہوش ہوا تھا، اس وقت رسول اکرم(ص) عمار کے سرہانے آے اور عمار کے چھرہ سے مٹی کو صاف کیا اور فرمایا کہ افسوس ہے سمیہ کا بیٹا خدا کی خوشنودی اور قیامت کے ذخیرہ کے لیے دو دو پتھر اٹھاتا ہے مگر عمار ایک گمراہ قوم کے ہاتھوں مارا جایگا۔

عمرو ابن عاص یہ سنتے ہی معاویہ سے کہا"سن رہے ہو عبداللہ کیا کہرہا ہے"معاویہ نے لا علمی کا اشارہ کرتے ہوے سر ہلایا تو عمرو عاص نے دوبارہ پیغمبر اکرم (ص) کی حدیث دہرائی تو معاویہ کو بہت غصہ آیا اور تحقیرانہ انداز میں کہا کہ اے بوڑے تم ابھی اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرسکتے ہو، تم کیا حدیث بیان کروگے؟ اس کے بعد کہا کہ کیا عمار کو ہم نے مارا ہے؟ نہیں ہم نے نہیں مارا ہے، بلکہ عمار کو اس نے مارا ہے کہ جس نے عمار کو جنگ میں لایا ہے(یعنی اگر علی شام میں ہماری خلافت کی مخالفت نہ کرتے تو جنگ نہیں ہوتی اور اگر جنگ نہ ہوتی تو عمار مارا نہیں جاتا، پس عمار علی کی وجہ سے مارا گیا ہے)(31)

نادان لوگوں نے جب اس تجزیہ کو سنا تو اپنے خمیموں سے باہر آیا اور کہا کہ عمار کو اس نے مارا ہے کہ جس کی وجہ سے جنگ لڑی جارہی ہے۔(32)

 

صفین عمار یاسر نظر میں

عمار یاسر کہ جس فوج کی فرماندھی کی ذمہ داری تھی (33) دشمن پر حملہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ

نحن ضربـناكم على تنزيله                 فاليوم نضربكم على تإويله

یعنی اے دشمنان اسلام ھم نے اُس وقت تم پر تلوار اٹھائی تھی کہ جب قرآن کریم نازل ہوا تھا اور تم نے نزول قرآن سے انکار کیا تھا اور آج تم پر تلوار اس لیے اٹھائی ہے کہ تم نے قرآن کے نزول کا تو اقرار کیا مگر تاویل اور تفسیر قرآن سے انکار کیا ہے۔

عمار نے جس راستہ کا انتخاب کیا تھا اس پر اتنا محکم ایمان تھا کہ کہتا تھا خدایا تو جانتا ہے کہ اگر تیری رضایت اس میں ہو کہ میں اپنے آپ کو کسی بلندی سے نیچے پھینکوں یا کسی دریا میں غرق کردوں یا اپنے ھاتھوں سے تلوار اپنے پیٹ میں گھونس دوں، میں یہ سب انجام دینے کے لیے تیار ہوں  لیکن میں جانتا ہوں کہ آج فاسقوں کے ساتھ جنگ سے بہتر کچھ بھی نہیں ہے۔

ابو عبد الرحمن سلمی کہتا ہے کہ صفین میں جتنے اصحاب رسول اکرم (ص) امام علی کے ہمراہ تھے سب کے سب اسی طرف حملہ کرتے تھے جس طرف عمار یاسر حملہ کرتے تھے۔ جب حملہ کرتے ہوے عمار یاسر ھاشم بن عتبہ مرقال (کہ جو صفین میں امام علیہ السلام کی فوج کا پرچمدار تھا) سے ملے تو کہنے لگے کہ جبت ہماری تلواروں کی چمک اور نیزوں کی دھاروں کے نیچے ہے اور حورالعین آسمان پر مزین ہو کر بیٹھی ہیں۔ پھر ایک شعر پڑھا جس کا مفوم یہ ہےکہ آج میں پیغمبر اکرم(ص) اور اپنے اعمال کے جزاء کے ساتھ ملاقات کرونگا۔(34)

عمار یاسر رجز پڑھتے ہوے اصحاب پیامبر کے ہمراہ دشمن سے جنگ کررہے تھے اور دشمن کی فوج کو تہ وبالا کررہے تھے، مگر اسی دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امام علی کا بہتریں ساتھی، رسول خدا کا تیریانوے 93 سالہ صحابی منصب شھادت پر فائز ہوے اور ان کی شھادت نے امام علی کے دل کو غمگین کردیا۔ عمار کی شھادت کے بعد امام علی نے فرمایا کہ خد رحمت کریں عمار پر اس دن کہ جس دن عمار نے اسلام قبول کیا۔ خدا رحمت کریں عمار پر اس دن کہ جس دن عمار نے شھادت پائی اور خدا رحمت کریں عمار پر اس دن کہ جس دن سب کو اٹھاے جاینگے۔ عمار کو بھشت مبارک ہو اور عمار کا قاتل کا ٹھکانا جہنم ہے۔ (35)

 

عمار یاسر کا قاتل

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ عمار یاسر کا قاتل "عقبہ بن عامر" ہے عقبہ بن عامر وہی کہ جس نے عثمان کی خلافت کے دوران عثمان کے حکم پر عمار کو بہت زیادہ تکلیف پہنچائی تھی۔(36)

لیکن اکثر مورخین کا کہنا ہے کہ عمار یاسر کا قاتل "ابو غازیہ جھنی" ہے  ابو غازیہ جھنی کہتا ہے کہ بیعت "عقبہ" کے ہم نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوے سنا کہ کہ اے لوگو بے شک  جان و مال مسلمانان محترم ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو خون بہاے ، میرے بعد کافر مت ہونا اور ایک دوسرے کا خون مت بہانا۔

ابو غازی جھنی کہتا ہے کہ صفین میں جب معاویہ اور حضرت علی کے لشکر میں جنگ عروج پر پہنچ چکی تھی اور اسی دوران عمار یاسر کو دیکھا کہ اس کے سر پر جنگی ٹوپی نہیں ہے تو میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ایک وار عمار کے سر پر کیا جس کے نتیجہ میں عمار کی شہادت واقع ہوئی۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے ابوغازیہ جھنی جیسا گمراہ انسان نہیں دیکھا، اس لیے کہ وہ رسول اکرم (ص) کی حدیث نقل کررہا تھا اور اس کے باوجود عمار کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اپنے ارادہ پر عمل کرتے ہوے عمار کو قتل کیا۔

ابو غازیہ جھنی نے گفتگو کے دوران تشنگی کا اظہار کیا تو ان کے لیے کسی شیشے کے برتن میں پانی لایا گیا تو ابو غازیہ نے نہیں پیا اور جب کسی عام برتن مین پانی لایا گیا تو پیا، اس محفل میں موجود ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا کہ تقوا اور پرہیزگاری کی وجہ سے شیشے کے برتن میں پانی نہیں پیتے ہو جبکہ عمار یاسر صحابی رسول کو قتل کرنے کی تمہیں پروا تک نہیں ہے۔ (37)

عمار یاسر کو قتل کرنےکے ایک اور شخص آیا اور اپنے کھوڑے سے اترا اور عمار یاسر کا سر بدن سے جدا کیا، جب ابو غازیہ جھنی نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دونوں اس پر جگڑنے لگےکہ ایک کہتا تھا عمار کا قاتل میں ہوں اور دوسرا کہتا تھا کہ عمار کا قاتل میں ہوں، عمرو بن عاص نے جب ان کی باتیں سینں تو کہا کہ خدا کی قسم دونوں جھنم میں جانے کے لیے لڑرہے ہیں۔

 

 

 

عمار یاسر کی زندگی کے آخری لمحات

عمار یاسر کو شہادت سے پہلے رسول اکرم (ص) کی بات یاد آئی کہ پیغمبر نے فرمایا تھا کہ اے عمار اس دینا میں تمہارا آخری غذا لسی ہوگی، عمار نے فورا لسی طلب کیا اور لسی پینے کے بعد وصیت کی کہ مجھے اسی خون آلود لباس میں ہی دفن کیا جاے پھر دشمن پر حملہ کیا اور شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوا۔

امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) نے عمار یاسرپر نماز پڑھائی اوراس کے اپنے خون آلود لباس میں غسل کے بغیر صفین کے میدان میں دفن کیا۔ یہ افسوناک واقعہ سینتیسویں ھجری کے ماہ صفر کے آخر میں پیش آیا اور پیغمبر اکرم (ص) کے اس عظیم صحابی نے ایک صدی عمرِ با برکت گزارنے کے بعد دعوتِ حق کو لبیک کہتے ہوے جام شہادت سے سیراب ہوا۔ حضرت علی (ع) عمار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "رحم الله عمارا يوم اسلم, و رحم الله عمارا يوم قتل, و رحم الله عمارا يوم يبعث حيا"

 

عمار یاسر کا مزار

شام کے صوبہ رقہ میں عمار یاسر کا مزار واقع ہے جو آخری چند سالوں میں دنیا کے گوشہ و کنار سے آنے والے زائرین کی خاص توجہ کا مرکز رہا، اس زیارتگاہ میں بعض دوسرے شہداء صفین بھی مدفون ہیں جیسے اویس قرنی اور ابی بن قیس وغیرہ

یہ زیارتگاہ تقریبا تیس سال پہلے تک دو چھوٹے اور سادہ کمروں پر مشتمل تھا جسے انقلاب اسلامی ایران کے بعد امام خمینی کے فرمائش پر شام کے سابقہ صدر حافظ اسد کی اجازت سے زمین خریدی گئی اور وہاں ضریح نصب کی گئی اور تزئین و آرایش کے ساتھ  اس زیارتگاہ کو تعمیر کیا گیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے 2004 میں باقاعدہ اس زیارتگاہ کا افتتاح کیا گیا۔

اس زیارتگاہ میں ایک لمبا اور بڑا صحن تھا جس کے ارد گرد ھال اور کمرے بنے ہوے تھے، ان کمروں میں سے بعض میں انتظامی اور بعض میں مذھبی امور انجام دیا جاتا تھا۔ صحن اور باہر کی دیوار کو سنگ مرمر اور کاشی کے زریعے ڈھک دیا گیا تھا۔ صحن کے مغرب میں عمار یاسر کی قبر مطھر اور مشرق میں اویس قرنی کی قبر مطھر واقع تھی اور دونوں  قبروں کے اوپر ایک سبز رنگ کا گنبد واقع تھا اور زیارتگاہ کے باہر مشرق میں ایک چھوٹے گنبد کے نیچے ابی بن قیس کی قبر مطھر واقع تھی۔

 

حرم عمار یاسر کی تخریب

21 رمضان المبارک 1434 ھجری کو جب شام کا صوبہ رقہ داعش کے تکفیری گروہ کے قبضہ میں آیا تو مارٹر کے ذریعے عمار یاسر اور اویس قرنی اور اس زیارتگاہ کے صحن کو شھید کیا گیا اور گولی اور راکٹ کے ذریعے حرم کے باہر کی دیوار کو نقصاں پہنچایا گیا۔

24 جمادی اول 1435 ھجری کو داعش کے تکفیری گروہ نے اس زیارتگاہ کے دو میناروں کو دھماکہ خیز مواد ذریعے اڑایا۔

15 رجب 1435 ھجری کو داعش کے تکفیری گروہ نے اس زیارتگاہ کو مکمل خراب کیا۔

 

حوالہ جات

1 ـ احزاب / 21 (ولكم فى رسول الله اسوه حسنه)

2 ـ سير اعلام النبلإ, ج 1, ص 347 و 408.

3 ـ همان, ص 424.

4 ـ "صبرا آل ياسر فان موعدكم الجنه"  ر.ك: مجمع الزوايد, ج 9, ص ;223 مستدرك حاكم, ج 3, ص ;388 سيره ابن اسحاق, ص 192.

5 ـ الاستيعاب, ج 3, سيراعلام النبلإ, ج 1, ص ;409 الاصابه, ج 4, ص 585.

6 ـ المعارف, ص ;256 الطبقات الكبرى, ج 3, ص ;247 الاستيعاب, ج 4, ص ;1863 الاصابه, ج 4, ص 585, انساب الاشراف, ج 1, ص 178.

7 ـ (وقال رجل مومن من آل فرعون يكتم ايمانه...) مرد مؤمن کہ جو فرعون کے خاندان میں سے ہے اپنے ایمان کو مخفی رکھتا ہے۔ بحارالانوار, ج 72, ص 443 ـ 393, بيروت.

8 ـ مجمع الزوائد, ج 9, ص ;395 مجمع البيان, ج 6, ص 388.

9 ـ نحل / 107.

10 ـ مجمع البيان, ج 6, ص ;387 الدرالمنثور, ج 5, ص 169.

11 ـ نحل / 42.

12 ـ مجمع البيان, ج 6, ص 361.

13 ـ دو فرسخ فاصله مدینه سے ، " بنی عمروبن عوف " کا قبیله کے گاوءں تها 

14 ـ وفإالوفإ, ج 1, ص ;250 سيره ابن هشام, ج 2, ص 143.

15 ـ وه حضرت مسجد تیار هونے سے پهلے " ابو ایوب انصاری کا کهر میں رهتاتها . (البدء و التاريخ, ج 2, ص ;178 سيره ابن هشام, ج 2, ص 143).

16 ـ ويح ابن سميه! ليسوا بالذين يقتلونك انما تقتلك الفئه الباغيه. (سيره ابن هشام, ج 2, ص 142).

17 ـ الطبقات الكبرى, ج 3, ص ;181 سيراعلام النبلإ, ج 1, ص 422.

18 ـ الطبقات الكبرى, ج 3, ص 255.

19 ـ سيراعلام النبلإ, ج 1, ص 420.

20 ـ تاريخ يعقوبى, ج 2, ص 70 و 69.

21 ـ انساب الاشراف, ج 6, ص 163 و 162.

22ـ سنن ترمذى, ص 3798.

23 ـ مستدرك حاكم, ج 3, ص 399.

24 ـ رجال كشى, ش 58.

25 ـ تاريخ بغداد, ج 1, ص ;150 سيراعلام النبلإ, ج 1, ص 415.

26 ـ كشف الغمه, ج 1, ص 143, به نقل از مناقب خوارزمى.

27 ـ عمار یاسر کو امیر المؤمنین حضرت علی (ع) سے بہت زیادہ محبت تھی یہی وجہ ہے کہ عمار یاسر مسجد نبوی بناتے وقت اور جنگ احزاب میں خندق کھودنے کے دوران اور غزوہ "ذات العشیرہ" میں حضرت علی کے ھمراہ تھے۔

عمار یاسر غزوہ ذات العشیرہ میں حضرت علی کے ھمراہ تھے اس دن رسول اکرم(ص) نے حکم دیا کہ جب تک سپاہ اسلام اس مقام پراپنا پڑاو ڈالیں، بنی مدلج میں سے ایک گروہ قریب میں موجود کھجوروں کے باغ میں کنوین کے پاس کام میں مشغول ہوجایں۔

حضرت علی نے مشورہ دیا کہ کھجور کے باغ میں کام کرنے والوں کے پاس جائنگے اور ان سے ان کے کام کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں، جب وہاں پہنچے تو تھکن کی وجہ سے سب اس نرم مٹی پر نیند آئی۔ تھوڑی دیر میں رسول اکرم(ص) وہاں تشریف لاے اور حضرت علی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے ابوتراب بیدار ہوجاو۔ اس کے بعد فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کو بتاؤں کہ شقی تریں انسان کون ہے؟ تو ہم سب نے جواب دیا کہ بیان فرماے یا رسول اللہ تو پیغمبر نے فرمایا  شقی ترین انسان احمیر(لقب قدار بن صالح کہ جس نے حضرت نوح کے ناقہ کو تلاش کیا تھا) ہے اور وہ شخص ہے کہ جو آپ کے سر مبارک پر ضربت لگایگا اور آپ کی داڑی کو خون سے رنگین کریگا۔ (مسند احمد, ج 4, ص 264 و 263)

28 ـ شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد, ج 2, ص 25 و ج 4, ص 8.

29 ـ تهذيب الكمال, ج 21, ص ;225 الطبقات الكبرى, ج 3, ص 259.

30 ـ وقعه صفين, ص 321.

31 ـ جب حضرت علی نے یہ سنا کہ معاویہ نے کہا ہے کہ عمار یاسر کا قاتل وہ ہے کہ جس نے عمار کو جنگ میں لے کر آیا تو فرمایا کہ اس طرح تو حضرت حمزہ کا قاتل (نعوذ باللہ) رسول اکرم (ص) ہیں، اس لیے کہ پیغمبر نے حضرت حمزہ کو جنگ میں لے گیا تھا۔ (شذرات الذهب, ج 1, ص ;45 كشف الغمه, ج 1, ص ;260 اعيان الشيعه, ج 8, ص 375)

32 ـ تاريخ طبرى, ج 50, ص 41 و 40.

33 ـ وقعه صفين, ص 215.

34 ـ تاريخ طبرى, ج 5, ص 39 و ;38 الكامل فى التاريخ, ج 3, ص 309 و 308.

35 ـ الطبقات الكبرى, ج 3, ص 262.

36 ـ انساب الاشراف, ج 3, ص 93.

37 ـ الطبقات الكبرى, ج 3, ص 260.

حجاج کی حکمرانی کے دور میں جب ابو غازیہ مر گیا تو حجاج نے اعلان کیا کہ ابوغازیہ کی تشییع جنازہ میں کوئی شریک نہ ہوجاے اس لیے کہ حجاج منافق ہے۔ (انساب الاشراف, ج 3, ص 91).

38 ـ همان, ص ;264 سيراعلام النبلإ, ج 1, ص 426.

Read 6892 times