20 جمادی الثانی، حضرت فاطمہ زہرا کا یوم ولادت با سعادت

Rate this item
(2 votes)

20 جمادی الثانی، حضرت فاطمہ زہرا کا یوم ولادت با سعادت

جمادی الثانی کوثرولایت ، مادرامامت، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا یوم ولادت باسعادت ہے

پیغمبراعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یگانہ روزگاربیٹی اورقرۃ العین الرسول بعثت کے پانچویں سال اس دنیاميں تشریف لائیں اورخانہ وحی میں اپنے پدربزرگوارکے دامن تربیت میں پروان چڑھیں اورعلم ومعرفت اورکمال کی اعلی منزلیں بھی آپ کے کمال لازوال کے سامنے ھیچ نظرآئيں ۔

ہجرت کے دوسرے سال آپ ، امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوئيں ۔

رسول اسلام کی لخت جگرنے حضرت علی علیہ السلام کے کاشانہ علم ومعرفت میں بحیثیت ایک زوجہ ذمہ داریوں اورفرائض کا اعلی ترین نمونہ پیش کیا اورایک ماں کی حیثیت سے رہتی دنیاتک لئے ایسی لافانی مثال قائم کی کہ ماں کی آغوش سے اولاد کومعراج عطاہونے لگی ۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے کہ جن کا یوم ولادت بھی آج ہی ہے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ اگرکسی دن کویوم نسواں یاپھر روزمادرسے منسوب کرنا ہے تو شہزادی کونین کے یوم ولادت باسعادت سے بہترموقع یا دن اورکون ہوسکتا ہے اسی مناسبت سے آج کے دن اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیاکے مختلف ممالک میں مسلمان یوم نسواں یا روزمادرمناتے ہيں ۔شوہراپنی شریک حیات کی زحمتوں اوراسی طرح اولاد اپنی ماؤں کی شفقتوں اوران کی لازوال محبتوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کوتحفے اورتحائف پیش کرتے ہيں اوریوں اس مبارک دن کو کوثرولایت کے یوم ولادت کے طورپر ایک خوبصورت معنوی جشن سے معمورکرتے ہيں ۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اس دن کی مناسبت سے اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا اعطیناک الکوثر ۔ فصل لربک وانحر ۔ ان شانئک ھو الابتر

بشریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی احسان مند ہے ، ان کا فیض ، انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک ہی محدود نہیں ہے اگر ہم حقیقت پر مبنی اور منطقی نظر سے دیکھیں تو ، ہمیں نظر آئے گا کہ پوری انسانیت پر ان کا احسان ہے یہ کوئی مبالغہ نہيں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ جس طرح سے انسانیت پر اسلام ، قرآن ، انبیائے خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کا احسان ہے ۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے ۔ آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے اور روز بروز اسلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معنویت کا نور زيادہ واضح ہوتا جائے گا اور بشریت اسے زیادہ واضح طور پر محسوس کرے گی ۔

ہمیں خود کو پیغمبر اعظم کے خاندان سے منسوب ہونے کے لائق بنانا چاہئے

ہمارا فرض یہ ہے کہ خود کو اس خاندان سے منسوب کرنے کے لائق بنائيں ۔ البتہ خاندان رسالت ، ان کے اعزاء اور ان کی ولایت میں معروف لوگوں سے منسوب ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ زیارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ہم ، آپ کی محبت اور دوستی میں مشہور ہیں ۔ اس سے ہمارا فرض اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ یہ خیر کثیر ، جس کی خوش خبری خدا وند عالم نے سورہ کوثر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دی اور کہا ہے ، انا اعطیناک الکوثر ، ہم نے تمہیں خیر کثیر عطا کیا تو اس کی تفسیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں ۔ در اصل وہ ان تمام خیروں و بھلائی کا سرچشمہ ہیں جو روز بہ بروز دین محمدی کے آبشاروں سے ، تمام انسانیت اور تمام خلق خدا کو نصیب ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگوں سے اسے چھپانے اور اس سے انکار کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو پائے ، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ، اور اللہ تو اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے بھلے ہی کافروں کو برا لگے ، ہمیں خود کو نور کے اس منبع سے قریب کرنا چاہئے ۔ اور نور کے مرکز سے قربت کا لازمہ اور نتیجہ ، نورانی ہونا ہے ۔ ہمیں عمل کے ذریعے ، خالی محبت کے ذریعے ہی نہيں ، نورانی ہونا چاہئے ۔ یہ وہ کام ہے جس کی تاکید ہماری محبت ، ولایت اور ایمان کرتا ہے اور ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس کام سے ہمیں اس خاندان کا حصہ اور اس سے منسوب ہونا چاہئے ۔ ایسا نہيں ہے کہ علی کے گھر کا قنبر بننا آسان کام ہے ، ایسا نہيں ہے کہ سلمان منا اھل البیت کے منزل تک پہنچنا آسان ہے ، ہم اہل بیت کے پیروکار اور ان سے محبت کرنے والے ، ان سے یہ توقع رکھتے ہيں کہ وہ ہمیں اپنوں میں اور اپنی چوکھٹ پر بیٹھنے والوں میں شمار کریں ، وہ کہیں کہ فلاں ہماری درگاہ کے خاک نشینوں میں سے ہے ۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اہل بیت ہمارے بارے میں ایسا سوچیں ، لیکن یہ کوئی آسان بات نہيں ہے ۔ یہ صرف دعوا کرنے سے ملنے والی چیز نہيں ہے ۔ اس کے لئے ، عمل ، قربانی و ایثار اور ان کے اتباع کی ضرورت ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بڑی مختصر عمر میں بہت سے فضائل حاصل کئے ؟ کس عمر میں ان فضیلتوں کو حاصل کیا ؟ کس عمر میں اتنے عظمتوں تک پہنچ گئیں ؟ بہت چھوٹی عمر میں ، اٹھارہ برس ، بیس برے ، پچیس برس ، روایتیں مختلف ہيں ۔ یہ ساری فضیلتیں یونہی حاصل نہیں ہوتیں ، امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ ، خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کا امتحان لیا ، خداوند عالم کا نظام ، حساب کتاب کے ساتھ ہے ۔ جو کچھ عطا کرتا ہے حساب سے عطا کرتا ہے ۔ اسے اپنی اس خاص کنیز کی قربانیوں و معرفت کا بخوبی علم ہے اسے لئے اس نے انہيں اپنی برکتوں کے سرچشمے سے جوڑ دیا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عمل میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکار ہونا چاہئے ، ہمیں اسی راستے پر آگے بڑھنا چاہئے ، چشم پوشی کرنا چاہئے ، قربانی دینا چاہئے ، خدا کی اطاعت کرنی چاہئے ، عبادت کرنی چاہئے ۔ کیا ہم نہيں کہتے کہ انہوں نے اتنی عبادت کی کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا ، اتنی عبادت ! ہمیں بھی خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی خدا کے ذکر کرنا چاہئے ۔ ہمیں بھی اپنے دلوں میں روز بروز خدا کی محبت میں اضافہ کرنا چاہئے کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ نقاہت کے عالم میں مسجد گئيں تاکہ اپنا حق واپس لے سکیں ؟ ہمیں بھی ہر حالت میں حق کی واپسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے ، کیا ہم یہ کہتے کہ وہ ، تن تنہا اپنے زمانے کے اس بڑے سماج کے سامنے کھڑی ہو گئيں ؟ ہمیں انہی کی طرح جیسا کہ ان کے شوہر نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ ہدایت کے لئے ساتھیوں کی کم تعداد سے نہيں ڈرتی تھیں ہمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے ظلم و سامراج سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے ، کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے ایسا کام کیا کہ ان کے اور ان کے شوہر اور بچوں کے بارے میں سورہ دہر نازل ہوا ؟ غریبوں کے لئے قربانی و ایثار ، بھوکی رہ کر ؟ و یوثرون علی انفسھم ولو کان بہم خصاصہ ، ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کا دم بھريں ، ان کی محبت کا دم بھریں جنہوں نے بھوکے کا پیٹ بھرنے کے لئے ، اپنے چہیتوں ، حسن و حسین اور ان کے والد کے ہاتھوں سے لقمہ لے کر فقیر کو دے دیا ، ایک دن نہيں ، دو دن نہیں ، تین دن ! کیا ہم نہيں کہتے کہ ہم ایسی شخصیت کے پیروکار ہيں ؟ لیکن ہم نہ صرف یہ کہ اپنا لقمہ کسی حاحت مند کو نہيں دیتے ، بلکہ اگر ہمارا بس چلے تو کسی غریب کا لقمہ بھی چھین لیں ! یہ کافی اور دیگر کتابوں میں جو روایت ہے شیعوں کی علامتوں کے بارے میں ، اس کا مطلب یہی ہے ۔ یعنی شیعہ کو ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی زندگی میں ان کی زندگی کی جھلک لانی چاہئے بھلے یہ جھلک بہت ہی ہلکی ہی کیوں نہ ہو ۔ ہم کہاں اور بزرگ شخصیتیں کہاں ؟ ہم کہاں اور وہ بارگاہ کہاں ؟ ظاہر ہے ہم تو ان کے مقام کے قریب پھٹکنے کی سوچ بھی نہيں سکتے لیکن ہمیں خود کو ان کے جیسا ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہم ان اہل بیت کی زندگی کی مخالف سمت میں تو نہيں بڑھ سکتے وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ ہم تو اہل بیت کے چاہنے والے ہيں ۔ کیا یہ ہو سکتا ہے ؟ مثال کے طور پر کوئي امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے زمانے میں ، اس قوم کے دشمنوں میں سے کہ جن کے بارے میں امام خمینی ( رح) ہمیشہ گفتگو کیا کرتے تھے ، کسی کا اتباع کرتا ، تو کیا وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ امام خمینی کا پیروکار ہے ؟ اگر کوئي ایسی بات کرتا تو کیا آپ لوگ ہنستے نہیں؟ یہی صورت حال اہل بیت کے معاملے میں ہے ۔

تڑک بھڑک اور عیش و عشرت کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکارنہيں بنا جا سکتا ہمیں اپنی اہلیت و صلاحیت کو ثابت کرنا ہوگا ۔ کیا ہم نہيں کہتے کہ ان کا جہیز ایسی چیزیں تھیں جن کا نام سن کر آدمی کی آنکھیں برس پڑتی ہيں ؟ کیا ہم یہ نہيں کہتے کہ وہ دینا اور دنیا کی خوبصورتیوں میں کوئی دلچسپی نہيں رکھتی تھیں ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم دن بہ دن اپنے سامان عیش و عشرت اور تڑک بھڑک میں اضافہ کرتے جائيں ، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے .

Read 3756 times