10 رمضان سنہ 10 بعثت کو رسول اکرم (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مکّے میں وفات پائی ۔آپ قریش کی دولت مند اور نامور خاتون تھیں اور بعثت سے 15 سال قبل رسول اکرم (ص) کی زوجیت میں آئیں ۔حضرت خدیجہ(س) پہلی فرد تھیں جو رسول اکرم (ص) پر ایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد پوری قوت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج میں لگ گئیں ۔آپ نے اپنی تمام دولت و ثروت دین الٰہی کی ترویج و اشاعت کے لئے رسول اکرم (ص) کے حوالے کردی اور ہمیشہ آپ (ص) کی مونس و مددگار رہیں ۔حضرت خدیجہ (س) کی ذات گرامی رسول اکرم (ص) کے لئے اتنی زيادہ اہم تھی کہ اس عظیم خاتون کی رحلت کو رسول اکرم (ص) نے بڑی مصیبت قراردیا ۔حضرت خدیجہ (س) کی رحلت پر رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ : خدا کی قسم خدیجہ (س) سے بہتر خدا نے مجھے کوئی چیز عطا نہیں کی ، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ کفر میں مبتلا تھے اس وقت میری آواز پر لبیک کہا جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اس وقت اپنے مال و ثروت میں برابر کا شریک قراردیا جب لوگوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیاتھا ۔واضح رہے کہ اسی سال رسول اکرم (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کی بھی وفات ہوئی تھی اور ان دونوں کے شدید غم کے سبب رسول اکرم (ص) نے اس سال کو غم کا سال قراردیا تھا۔
محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اتنے شفیق مہربان اور معصوم تھے کہ ان کے چچا ابوطالب انہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ جب ان کی عمر مبارک چوبیس سال کی ہوئی تو اگر چہ جناب ابو طالب کے لئے اپنے بھتیجے کی مالی مدد کرنا ممکن نہیں تھا لیکن انہیں شب و روز انہی کی فکر لاحق تھی ۔ ایک دن انہوں نے سنا کہ مکہ کی تاجر خاتون خدیجہ کو ایک ایسے دیانتدار شخص کی تلاش ہےجسے وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ تجارتی سفر پر بھیج سکیں ۔ یہ بات سنتے ہی انہیں فورا´ اپنے بھتیجے کا خیال آگیا ۔ رات کو جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: اے بھتیجے تم تو میری مالی حالت اچھی طرح جانتے ہو میں تمہاری مالی مدد کرنے سے قاصر ہوں ۔ کچھ دنوں کے بعد مکہ کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جانے والا ہے اور خدیجہ کو اپنے مال تجارت کی سرپرستی اور نگرانی کے لئے ایک ایسے دیانت دار شخص کی تلاش ہے جسے وہ اپنا مال تجارت سونپ سکیں اس کے بدلے میں وہ انہیں مناسب اجرت دیں گی اگر تم اس کے پاس جاؤ تو وہ یقینا´ تمہیں دوسروں پر ترجیح دیں گی ۔ کیونکہ تمہاری دیانت داری اور راست گوئی کی خبر مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح ان تک پہنچ چکی ہے ۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جھکی ہوئی نظریں اٹھائیں اور اپنے چچا کو دیکھا چچانے اپنے بھتیجے کی آنکھوں میں عزت نفس اور بے نیازی کی روشنی دیکھی پھر اپنے بھتیجے کو یہ کہتے ہوئے سنا: کاش وہ کسی کو میرے پاس بھیج دیتیں ۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہنے کے بعد دوبارہ نظریں جھکالیں اور خاموش ہو گئے۔ ابو طالب اپنے جوان بھتیجے کی بات سن کر گہری سوچ میں پڑ گئے ۔ جی ہاں محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ سے ایسے ہی تھے وہ ہر موقع پر محتاجوں کی مدد کرتے تھے لیکن اپنا دست نیاز کسی کے سامنے دراز نہیں کرتے تھے ۔ تاریخ نے اس بات کو واضح طور پر ذکر نہیں کیا ہے کہ خدیجہ کو کس طرح ابو طالب اور ان کے بھتیجے کے در میان ہونے والی اس گفتگو کی خبر ہوئی ؟ کیا ابوطالب کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نےجو محمد کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں ملیکۃ العرب کو اس کی خبر دی؟ بہر حال یہ بات مسلّم ہے کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا سے جو بات کہی تھی وہ خدیجہ تک پہنچ گئی تھی ۔ انہوں نے دل ہی دل میں ان کی تعریف کی اور کہا : امین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے پاس آنے سے گریز کرے کیونکہ اس کی خود داری اور عزت نفس اسے اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ۔ پھر فورا´ ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی ۔ خدیجہ کا دل گواہی دے رہاتھا کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم وہی امین او ر دیانتدار شخص ہے جن کی انہیں تلاش تھی ۔ خدیجہ ایک دولت مند اور پاک دامن خاتون تھیں ۔ جب کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے۔ خدیجہ بھی عفت و پاکدامنی کے حوالے سے مشہور تھیں اور اسی بنا پر انہیں طاہرہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ان کی تجارت کا یہ عالم تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہمیشہ سفر میں رہتے تھے ۔ ان باتوں کے باوجود انہیں مال و دولت جمع کرنے کی کوئی ہوس نہ تھی اور وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں خاص طور پر یتیموں کی ہمیشہ مدد کرتی تھیں۔لاحاصل قبائلی جنگوں میں مرنے والوں کے یتیم بچوں کا آخری سہارا جناب خدیجہ کا گھرتھا جہاں ان کی بھوک مٹانے کا انتظام ہوتا تھا ۔ جناب خدیجہ یتیموں سے اس قدر مہر و محبت سے پیش آتی تھیں کہ بعض لوگ انہیں یتیموں کی ماں کے نام سے پکارتے تھے ۔ انہوں نے سچائی اور ایمان داری کے سلسلے میں پیغمبر کی شہرت سن رکھی تھی لہذا وہ اپنا مال تجارت ان کے حوالے کرنا چاہتی تھیں جب انہیں پتہ چلا کہ وہ ان کا تجارتی قافلہ لے جانے کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے تاخیر کو جائز نہ سمجھا اور انہیں بلوا بھیجا۔ جب جناب خدیجہ نے محمد امین کو اپنے سامنے دیکھا کہ شرم سے ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہیں تو محسوس کیا کہ انہیں کسی بھی اور شخص سے زیادہ ان پر یقین ہے وہ مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح جانتی تھیں کہ محمد کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی دوسروں کے مال پر ان کی نظر ہوتی ہے لہذا جناب خدیجہ نےاپنا مال تجارت پیغمبر کےسپرد کر دیا اور اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ اس تجارتی سفر پر شام بھیج دیا۔ راستے میں میسرہ نے حضور کے اخلاق اور عادات و خصائل دیکھے تو آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ واپس آکر اس نے حضرت خدیجہ کو تفصیل کے ساتھ آپ کے بارے میں بتایا ۔ تجارت میں بھی حضور نہایت کامیاب رہے اور ماضی کی نسبت جناب خدیجہ کو زیادہ منافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں بحیریٰ کی آپ سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور اس موقع پر اس نے کہا میں شہادت دیتاہوں کہ اللّہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللّہ کے رسول ہیں ۔ وہ نبی امی جن کی بشارت عیسی بن مریم نے دی تھی۔ اسی سفر کے دوران حضور بصریٰ میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرے جو نسطورا راہب کی خانقاہ کے پاس تھا۔ حضور کو دیکھ کر نسطورا باہر نکل آیا اور اس نے میسرہ غلام سے دریافت کیا کہ اس درخت کے نیچے کون کھڑا ہے؟ اس نے کہا قریش اہل حرم میں سے ایک شخص محمد ۔ اس پر نسطورا بولا کہ اس درخت کے نیچے عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آج تک یعنی تقریبا´ چھ سو برس تک نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرا ۔ پھر نسطورا آپ کے پاس آیا آپ کا سر اور آپ کے قدم چومے اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللّہ کے رسول وہ نبی امّی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ نے دی تھی اور کہا تھا کہ میرے بعد اس درخت کے نیچے نبی امّی ہاشمی عربی مکی صاحب الحوض و الشفاعۃ و صاحب لواء الحمد کے سوا کوئی نہیں ٹھہرے گا۔ جناب خدیجہ کو پیغمبر اسلام کے تجارتی سفر سے ماضی کی نسبت کافی زیادہ منافع حاصل ہوا ۔جناب خدیجہ نے پیغمبر اکرم کو طے شدہ معاوضے سے زیادہ معاوضہ دینا چاہا لیکن پیغمبر نے صرف وہی چار اونٹ معاوضے کے طور پر وصول کئے جو انہوں نے طے کئے تھے ۔جناب خدیجہ کو ان کے غلام میسرہ نے بھی شام میں پیش آنے والے واقعات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ وہ پہلے ہی پیغمبر اکرم کے اخلاق اور رفتار و کردار سے بے حد متاثر تھیں یہ واقعات سننے کے بعد ان کی نظر میں پیغمبر کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی ۔ اس وقت جناب خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی وہ اپنی عفت و پاک دامنی کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے معروف تھیں ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اللّہ تعالیٰ نے ان کو حسن و جمال کی دولت سے بھی نوازا تھا ۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اور دولت مند ان سے شادی کے خواہش مند تھے جن میں ابو سفیان، ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط و غیرہ شامل تھے۔ ان افراد نے کئی بار جناب خدیجہ کو شادی کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نےسب کو سختی سے انکار کردیا۔ ان کا ضمیر ہمیشہ انہیں گناہ اور انحراف سے روکتا تھا اور نیکی و اچھائی کی ترغیب دلاتا تھا۔ ان کے ضمیر نے انہیں اس بات کا یقین دلادیا تھا کہ ان بت پرست سود خوروں کے ساتھ شادی ان کی شان کے خلاف ہے۔ اب جب محمد کی خوبیوں ،اخلاق اور گفتار و کردار کے جوہر کھل کران کے سامنے آنے لگے تو وہ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئیں ۔ اسی رات جناب خدیجہ نےایک انتہائی عجیب خواب دیکھا، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں کھڑی ہیں اور آسمان بالکل تاریک ہے اچانک ایک ستارہ چمکا اور خدیجہ کی توجہ اس کی طرف ہوگئی ۔ ستارےکی روشنی آہستہ آہستہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ وہ مہر تاباں کی شکل اختیار کر گیا او پورا عالم اس کے نور سے روشن ہوگیا۔ پھر مہر تاباں نے نیچے کی طرف اترنا شروع کردیا اور نیچے آتے آتےمکہ کے بالکل اوپر پہنچ گیا پھر اس نے مکہ کے گرد ایک چکر لگایا اور جناب خدیجہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ وہ خورشید عالمتاب براہ راست ان کے گھر کی طرف آیا اور صحن میں اتر گیا اور اپنے نور سے ان کے گھر کو روشن و منور کردیا۔ اسی اثنا میں جناب خدیجہ کی آنکھ کھل گئی او ر اپنی ایسی حالت دیکھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ اس رات پھر وہ دوبارہ نہ ہو سکیں ۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو تعبیر خواب کےعلم سےآگاہی رکھتا تھا۔ اسے اپنے اس حیرت انگیز خواب سے آگاہ کیا اور اس کی تعبیر دریافت کی ورقہ بن نوفل نے غور سے سننے کے بعد کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں خدیجہ یہ خواب تمہارے لئے ایک عظیم بشارت ہے۔ عنقریب تمہاری شادی روئے زمین پر موجود شریف ترین اور برترین مرد سے ہوگی جس کی شہرت نہ صرف زمین پر ہوگی بلکہ آسمان میں بھی ان کاشہرہ ہوگا۔حضرت خدیجہ نے بخوبی جان لیا کہ روئے زمین پرشریف ترین اور برترین مرد کون ہے اور انہیں کس کے ساتھ شادی کی بشارت دی گئی ہے۔انہیں ایک عرصے سے اس بات کاعلم ہو چکا تھا کہ محمد کی شخصیت بے نظیر اور لاثانی ہے۔ لیکن وہ اپنی اور پیغمبر کی عمر کے فرق اور اپنے بہت زیادہ مال دار ہونے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شادی کے بارے میں پیغمبر سے اپنی خواہش کے اظہار کے بارے میں تذبذب کا شکار تھیں ۔ اپنی اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے مکہ کی ایک محترم خاتون نفیسہ بنت منیہ کو پیغمبرکے پاس بھیجا تا کہ وہ ان کی مرضی معلوم کر سکیں۔ نفیسہ بنت منیہ نے آنحضرت سے کہا کہ اے محمد آپ کی سچائی،امانت داری اور پاک دامنی کے ہر طرف چرچے ہیں مکہ میں ہر لڑکی آپ سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی ہے۔اب تو آپ پچیس برس کے ہو گئے ہیں آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ پیغمبر نے اپناسرجھکا لیا اور فرمایا میرے پاس کیا رکھا ہے کہ میں شادی کروں؟ نفیسہ نے کہا کہ اس کا انتظام ہوگیا ہے اور آپ کو ایک ایسی جگہ شادی کرنے کی دعوت دی جارہی ہے جہاں حسن و جمال بھی ہے اور مال بھی ،شرافت و پاک دامنی بھی ہے اور ثروت و قابلیت بھی ۔ کیا آپ اسے قبول کریں گے۔ فرمایا وہ کون ہے؟ نفیسہ نے کہا خدیجہ۔ آپ نے فرمایا کیا وہ اس شادی پر راضی ہوجائیں گی جبکہ میرے اور ان کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نفیسہ نے کہا اسے آپ میرے اوپر چھوڑ دیں میں انہیں راضی کرلوں گی اور ان سے بات چیت کرنے کے لئے آپ کو ان کے گھر لے جاؤں گی ۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تومیں تیار ہوں نفیسہ یہ سنتے ہی خوشی سے نہال ہوگئیں اور خدیجہ کو یہ خوش خبری سنانے کےلئے جلدی سے ان کےگھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔ پیغمبر اسلام جناب خدیجہ کے اخلاق و کردار سے بخوبی واقف تھے ۔ دولت کی ہوس جہالت اور بت پرستی کے دور میں خدیجہ کی پاک دامنی، شرافت، عطا و بخشش اور یتیم نوازی زباں زد خاص و عام تھی۔ ایک ایسے شہر میں کہ جہاں تقریبا´ سب لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے پتھر اور لکڑی کے بتوں کے سامنے سر جھکاتے اور ماتھا ٹیکتے تھے، خدیجہ اور ان کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل اس کام کو باطل سمجھ رہے تھے اور حقیقت کی تلاش و جستجو میں تھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو بچپن سے ہی بت پرستی سے نفرت کرتے تھے کس طرح مکہ کی کسی ایسی لڑکی یا عورت سے شادی کر سکتے تھے جو بتوں پر گہرا اور پکا عقیدہ اور ایمان رکھتی تھی ۔ صرف خدیجہ ہی وہ خاتون تھیں کہ جنھیں خدا نے ظہور اسلام سے قبل اپنے آخری پیغمبر کےساتھ شادی کی اہلیت و قابلیت عطا فرمائی تھی۔ جب محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نفیسہ کے ساتھ خدیجہ کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لے کر گئے اور ان کےسامنے پہنچے تو ہرچیز گواہی دے رہی تھی کہ یہ کوئی معمولی شادی نہیں ہوگی بلکہ آسمانی اور ملکوتی رشتہ قائم ہونے جا رہا ہے مکہ کی پاک دامن خاتون نے اپنی بات ایک جملے میں خلاصہ کردی پیغمبر سے کہا میں آپ کی سچائی ، امانت داری ، نیک فطرت ، بہترین اخلاق کہ جس کی ہر جگہ شہرت ہے اور آپ کی عظمت و برتری کہ جو تمام لوگوں میں بے مثال ہے کی بنا پر آپ سے شادی کی خواہش مند ہوں ۔ پیغمبر چونکہ ہمیشہ بزرگوں کا احترام کرتے تھے اس لئے خدیجہ کے جواب میں کہا۔ میں اس امر سے اپنے بزرگوں کو آگاہ اور ان سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جناب خدیجہ نے اس بات کو پسند اور قبول کیا اور طے پایا کہ دو نوں کے بزرگ مل بیٹھیں گے اور ان کی موجودگی میں یہ کام انجام پائے گا۔ پیغمبر نے اپنے چچاؤں سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ سے شادی کےلئے ہاں کہہ دی ۔ شادی کی تاریخ طے ہوگئی اور پھر شادی کے دن پیغمبر اسلام اپنے چچاؤں کے ساتھ حضرت خدیجہ کےگھر تشریف لے گئے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت کی گئی ۔ اس کے بعد پیغمبر کے چچا ابوطالب نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور خداوند متعال کی حمد و ثنا کرنے کے بعد اپنے بھتیجے کا تعارف کراتے ہوئے کہا میرے بھتیجے محمد عبداللّہ کا قریش کےکسی بھی مرد سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ وہ اس پر برتری اور شرف رکھتا ہے۔ اگر چہ مالی لحاظ سے وہ تنگ دست ہے لیکن دولت آنے جانے والی چیز ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ نہیں رہتی جبکہ تقویٰ اور شرافت ایسی چیز ہے جو پائیدار اور باقی رہنے والی ہے اور کوئی بھی دولت اس کا مقابلہ اور برابری نہیں کر سکتی ۔ حضرت ابو طالب نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کا تعارف کرانے کے بعد اپنی بات ختم کی ۔ ان کے بعد حضرت خدیجہ کے چچا زاد ورقہ بن نوفل نے بات کرنا شروع کی ۔ وہ چونکہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتی خصوصیات اور حیرت انگیز مستقبل سے کسی حد تک واقف تھے اور انہوں نے حضرت خدیجہ کا خواب سننے کے بعد پیشین گوئی کی تھی کہ ان کی شادی دنیا کے باشرف ترین مرد سے ہوگی ۔ ورقہ بن نوفل نے کہا مکہ میں کوئی بھی آپ کے فضائل اور شرافت کا منکر نہیں ہے ۔ ہم بھی صمیم قلب سےآپ کے ساتھ رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں ۔ حضرت خدیجہ کامہر 400 درہم طے ہوا اور نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھایا حضرت خدیجہ نے اپنا جھکا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اورمحمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے خوبصورت اور پر کشش چہرے کو دیکھا اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس طرح ان کی زندگی اس خورشید عالمتاب کے آنے سے روشن و منور ہوگئی ہے اوران کاحیرت انگیز خواب حقیقت کا روپ دھارگیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اورحضرت خدیجہ کی شادی کی تقریب خدیجہ کے گھر میں منعقد ہوئی۔ یہ گھر اس شادی سے قبل غریبوں اور محتاجوں کی جائے پناہ تھا اس شادی کے بعد وہ ان کے لئے مزید اہمیت اختیارکرگیا کیونکہ ان کی آنکھوں نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ با اخلاق اور مہربان کسی اور کو نہیں دیکھا تھا اور حضرت خدیجہ سے زیادہ عطا و بخشش کی حامل کوئی اور شخصیت نہیں دیکھی تھی اور اب وہ دیکھ رہے تھے کہ ان دو عظیم ہستیوں کی شادی ہو رہی ہے لہذا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس مبارک موقع پر جناب خدیجہ کےگھر کے قریب جمع ہونے والے فقیروں ، غریبوں اور نادار افراد کی اونٹ کے گوشت سے تواضع کی جارہی تھی اور ان کی زبانیں شکر کے کلمات ادا کر رہی تھیں ۔ حضرت خدیجہ اپنے شوہر کے روحانی مقام و مرتبے اور حیرت انگیز مستقبل سے بخوبی واقف تھیں اوراسی بنا پر وہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم میں گہری دلچسپی لے رہی تھیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنی ساری دولت پیغمبر کے اختیار میں دے دی کہ وہ جہاں اور جیسے چاہیں خرچ کریں ۔پیغمبر اکرم نے شادی کے بعد اسی راستے کوجاری رکھا جو حضرت خدیجہ نے شادی سے قبل اختیار کیا تھا یعنی یتیموں ،غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے کاراستہ ۔ یہ بے مثال جوڑا دنیا کی تمام عورتوں اور مردوں کے لئے مکمل نمونۂ عمل ہے۔شادی کے بعد پیغمبر اسلام اپنے چچا ابو طالب کے گھر سے حضرت خدیجہ کے گھر منتقل ہوگئے اور حضرت خدیجہ نےاپنا گھر اور تمام دولت و ثروت پیغمبر اکرم کےاختیار میں دے دی۔ حضرت ابو طالب کے ہاں غریبانہ زندگی گزارنے کے بعد پیغمبر خدیجہ کے مال و دولت سے بھرے گھر میں منتقل ہوگئے لیکن پیغمبر کے طرز زندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ ان کی زندگی اسی طرح سادہ رہی۔انہوں نے غریبوں اور محتاجوں کی مدد نہ صرف جاری رکھی بلکہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز کا سلسلہ بھی جاری رکھا اوراس کے لئے وہ بدستور شہر سے باہر پہاڑوں اور غاروں میں جاتے تھے۔