کلام: شہید محسن نقوی
|
اے فخر ابن مریم وسلطان فقر خو تیرے کرم کا ابر برستا ہے چار سُو
تیرے لیے ہوائیں بھٹکتی ہیں کو بہ کو تیرے لئے ہی چاند اترتا ہے جوبجو !
پانی ترے لیے ہے سدا ارتعاش میں سورج ہے تیرے نقش قدم کی تلاش میں
اےآسمان فکر بشر ، وجہ ذوالجلال اے منزل خرد کا نشاں ، سرحد خیال
اے حُسن لایزال کی تزئین لازوال رکھتا ہے مضطرب مجھے اکثر یہی سوال
جب تو زمین واہل زمین کا نکھار ہے عیسیٰ کو کیوں فلک پہ ترا انتظار ہے ؟
اے عکس خدوخالِ پیمبر جمال ِ حق تیری ترنگ میں ہیں فضائیں شفق شفق
تیری عطا سے نبض جہاں میں سدا رمق تیری کرن پڑے تو رُخ آفتاب فَق
تیرے نفس کی آنچ دل خشک وتر میں ہے ! تیرے ہی گیسوؤں کی تجلی سحر میں ہے!!
تو مسکرا پڑے تو خزاں رنگ رنگ ہو تو چُپ رہے تو سارا جہاں مثل سنگ ہو
تو بول اُٹھے تو نطق جہاں ساز دَنگ ہو ر دل میں کیوں نہ تیری "ولا" کی امنگ ہو
میں کیوں نہ تیرا شکر کروں بات بات میں ہر سانس تیرے دَر سے ملی ہے زکواۃ میں
تیرے حشم سے رنگ فلک لاجورد ہے مہتاب تیرے حسن کے پرتو سےزرد ہے
موج ہوائے خلد ترے دم سے سرد ہے محشر کی دُھوپ کیا؟ تیرے قدموں کی گرد ہے
تیرا کرم بہشت بریں کا سُہاگ ہے تیرا غضب ہی اصل میں دوزخ کی آگ ہے
اے باغ عسکری کے مقدس ترین پھول اے کعبۂ فروع نظر ، قبلۂ اصول!
آ، ہم سے کر خراج دل وجاں کبھی وصول تیرے بغیر ہم کو قیامت نہیں قبول
دنیا نہ مال وزر نہ وزارت کےواسطے ہم جی رہے ہیں تیری زیارت کے واسطے
مولا تیرے حجاب معانی کی خیر ہو تیرے کرم کی، تیری کہانی کی خیر ہو
تیرے خرام تیری روانی کی خیر ہو نرجس کا لال تیری جوانی کی خیر ہو
ممکن ہے اپنی موت نہایت قریب ہو ! اک شب تو خواب ہی میں زیارت نصیب ہو
اے آفتاب مطلع ہستی ، ابھر کبھی اے چہرۂ مزاج دو عالم نکھر کبھی
اے عکس حق ، فلک سےادھر بھی اتر کبھی اے رونق نُمو ، لے ہماری خبر کبھی
قسمت کی سرنوشت کو ٹوکے ہوئے ہیں ہم تیرے لئے تو موت کو روکے ہوئے ہیں ہم
اب بڑھ چلا ہے ذہن ودل وجاں میں اضطراب پیدا ہیں شش جہات میں آثار انقلاب
اب ماند پڑ رہی ہے زمانے کی آب وتاب اپنے رُخ حسیں سے اُٹھا تُو بھی اَب نقاب
ہرسُو یزیدیت کی کدورت ہے اِن دنوں مولا ! تیری شدید ضرورت ہے ان دنوں
نسل ستم ہے در پئے آزار ، اب تو آ پھر سج رہے ہیں ظلم کے دربار ، اب تو آ
پھر آگ پھر وہی درودیوار ، اب تو آ کعبے پہ پھر ہے ظلم کی یلغار ، اب تو آ
دِن ڈھل رہا ہے ، وقت کو تازہ اُڑان دے آ "اے امام عصر" حرم میں "اذان" دے
از کتاب "فرات فکر" |
|
|