حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ

Rate this item
(0 votes)
حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ

کلمۂ رحمت اور اسکی مشتقات پورے قرآن میں تقریباً  ۳۳۸ مرتبہ ذکر ہوئی ہیں جس میں سے ۷۹ بار کلمہ  رحمۃ مستقل طور پر ذکر ہوا ہے اور ۳۶ مرتبہ ضمائر مثلاً رحمتی، رحمتہ،رحمتک،رحمتنا کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔
خداوند اس رحمت کے سلسلے میں کبھی مصیبت والوں کو خطاب فرماتا ہے  اولئک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة (بقرة:۱۵۷)تو کہیں سختیاں دیکھنے والوں کو فرماتا ہے  واذا اذقنا النّاس رحمة من بعد ضرّاء مسّتهم (یونس:۲۱)ایک جگہ پہ تورات کے بارے میں ذکر ہوتا ہے   ومن قبله کتا ب موسی اماماً و رحمة (انعام:هود:۱۷) تو کہیں قرآن کے بارے  میں ارشاد فرماتا ہے  فقد جائکم بیّنة من ربکم و هدیً و رحمة (انعام:۱۵۷)کبھی احسان کرنے والوں کے حق میں مہربانی ،عنایت اور بخشش کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے انّ رحمة الله قریب من المحسنین (اعراف:۵۶)تو کہیں اس رحمت سے محروم ہونے  والوں کیلئے بتاتا ہے  أهؤلاء الذین اقسمتم لا ینالهم الله رحمة (اعراف:۴۹)کسی جگہ خدا کی رحمت کے امیدواروں کا ایڈریس دیتا ہے اولئک یرجون رحمة الله والله غفور رحیم (بقرة:۱۲۸)تو کسی مقام پر اپنی مغفرت و رحمت کی تعریف کرتا ہے لمغفرۃ من الله و رحمة خیر ممّا یجمعون(  ) کہیں بیویوں کو سکون اور آرام کا باعث اور اپنی خلقت کا کمال قرار دے کر اس  میں رحمت قرار دینے کے بارے میں فرماتا ہے ان خلق لکم من انفسکم ازاواجاًلتسکنوا الیها و جعل بینکم مودّة ورحمة (روم:۲۱)تو کہیں پیمبر کی پیروی کی صورت میں دلوں میں راٗفت اور رحمت ایجاد کر کے فرماتا ہے وجعلنا فی قلو ب الذین اتبعوہ رأفة ورحمة (حدید :۲۷)کہیں موسی سے خطاب ہوتا ہے و ماکنت بجانب الطوراذنادینا ولکن رحمۃ من ربّک( قصص:۴۶)
لیکن جب رسول گرامی اسلام ؐکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے  تو یہ آیت دوسری آیتوں سے مختلف ، وسیع تر اور عظیم تر نظر آتی ہے،اور خدا وند تمام عالمین کیلئے ان کی ذات مقدّسہ کو رحمت کے طور پہ تعارف کرواتا ہے وما ارسلناک الّا رحمۃ للعالمین (انبیاء:۱۰۷)
مختلف آیات سے اور خاص طور پر اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیمبر گرامیؐکی ذات  تمام امتوں کیلئے نور،ہادی ،مبشر،بشیر و نذیر ،کاظمین الغیظ وعافین عن النّاس اور عالم انسانیت کیلئے مشعل  راہ ہے ۔پیمبرؐ بشریت کو ہدایت  کی جانب لے جانے والا ہے۔حبیب خدا اور خدا کی طرف سے لوگوں کو شفا اور جلا بخشنے والا ہے ،وہ حق کا طالب، بشریت کیلئے سعادت اور کمال کا طالب اور امت  کے گناہوں کیلئے خدا کی بارگاہ میں بخشش کا طالب ہے۔
ابھی پیامبر گرامیؐتشریف نہیں لائے،حضرت عیسی(ع)انجیل میں احمدؐ کے آنے کی بشارت دے گئے، مسیحیت بھی ان کی منتظر ہے اور یہودیت بھی حتی معاشرے کا ہر فرد ان کا منتظر ہے جو سعادت ابدی تک ان کو پہنچائے ،ایسا کوئی منجی بشریت آنے والا ہے جس کی سب کو ضرورت  اور انتظار ہے خاص طور پر جب کہ زما نہ بھی جا ہلیت کا ہے کہ جھان پر طرف خوف ودہشت کاما حول،ظالم و ستمگر طبقہ اژدھا کی طرح منہ کھولی ہو ئے ہے اور فقیرو ں ،غریبوں،حاجت مندوں اور ضعیفوں کو ہر آن نگلنے کی کوشش میں مصروف ہے ،ہرطرف غلامی کادوردورہ ہے لٹر کیوں کو اپنے لئے عیب،ذلت اور شرمندگی کا با عث سمجھکر زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔
 اچانک ہی حضرت عبد المطلب کے گھر میں ایک نور کا طلوع ہو تاہے جو انکے اور حضرت ابوطالب کی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے ،پرورش پاتاہے ،ابھی کسی کوان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ،لیکن خداوند متعال حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے  یا محمّد لولاک لما خلقت الافلاک ہاں یہ کوئی ایسی شخصیت ہے جسکی خاطر سب کچھ خلق کیا گیا ہے ،یہ آسمان ،زمین ،سیارے ،ستارے چاند، سورج  بلکہ تمام موجودات ،حیوانات ،جمادات ونباتات و․․․ اسی عظیم ہستی کیلئے خلق ہوئے ہیں۔
پیامبرؐکو مبعوث ہونے کے بعد جو کہ اب ایک رہنما، ہادی ،نبی ،رسول اور امام ہیں وحی ہوتی ہے وماارسلناک الّارحمةللعالمین، اے پیمبر ؐ ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر عالمین کیلئے رحمت بنا کر۔ ہم عالم کون ومکان میں (کہ جسکو عالم تکوین بھی کہتے ہیں )مشاہدہ کرتے ہیں،پیامبر گرامیؐقطعاً دنیا والوں کیلئے بلکہ ہر ایک شئی کیلئے باعث رحمت ہیں کیونکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ انکی خاطر اور ان ہی کے صدقے میں خلق ہوا ہے اور جو بھی اس کائنات اور عالم افلاک سے فیض حاصل کرتا ہے،ان ہی کے صدقے میں․․․․․․․اور اب عالم تشریع میں دیکھا جائے ،اگر دین نہ ہو تو یہ انسانی معاشرہ اور سماج جنگل کی مانند ہو جائے گا، جہاں پر دین نہ ہو تو وہاں پر ڈکیتی ،چوری،ظلم وستم کا دور دورہ ہو جاتا ہے، لیکن جب دین آجائے تو یہ چیزیں ختم کرکے انسان کو ایک کمال کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے ،مختلف متعدد  انبیاء آئے ،انسان کی ہدایت اور اسکو کمال تک پہنچانے کیلئے، لیکن ہر ایک پیامبر اپنی جگہ مطمئن ہے کہ اس کے بعد کسی کو آنا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسی(ع) ۔ اب حضر ت عیسی آئے توا نھیں بھی معلوم ہے کہ عقل کل ،پیامبر خاتمؐآنے والے ہیں ۔جب وہ آئیں گے تو دین خاتم بھی لائیں گے جو کہ کامل ترین اور بہترین آئین ہوگا  اور حضرت محمّد عربی ؐجب پیامبر خاتم بن کر آئے تو دین کامل بھی لائے تبھی خدا وند نے فرمایا  انّ الدّین عند الله الاسلام  یا غدیر خم کے مقام پر فرمایا  الیوم اکملت لکم دینکم ․․․ جسکا مطلب یہ ہوا کہ کامل ترین اور محبوب ترین دین خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔اور  یہ اسلام سب عالمین کیلئے ہے ،اگر سب عالمین کیلئے ہے تو پھر پیامبر ؐعالم تشریع میں بھی دنیا والوں کیلئے (رحمۃ للعالمین )رحمت ہیں ۔پس پیامبر اور ان کا لایا ہوا یہ آئین بھی دنیا والوں کیلئے رحمت ہے ،مایہ ناز و افتخار ہے، آرام اور اطمئنان کا باعث ہے ،سعادت اور کمال ابدی کا موجب ہے ،تر قی اور سکون کا سبب ہے ،طلم وستم اور ظالمین  ومستکبرین سے نجات کا باعث ہے۔جو چیز ایسی ہو وہ رحمت نہیں تو اور کیا ہے ۔
تفسیروں میں ملتا ہے ،آنحضرت ؐکی ولادت کے دن ابو لہب چچا ہونے کی بنا پر خوشحال ہوا تھا،اب جب بھی ہر سال پیامبر ؐکی ولادت کا دن ہوتا ہے تو ابولہب کو اس خوشحالی کے صلے میں عذاب سے رخصت دی جاتی ہے ،اس دن ابو لہب بھی جو کہ ان کا سرسخت ترین دشمن تھا ،ان کی ذات واجود رحمت کے صدقے میں عذاب سے نجات پاتا ہے ،یہ رحمت صرف ان کے روز ولادت کی ہے ، خود ان کی ذات اقدس کیا ہوگی کہ جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لئے رؤوف ،رحیم اور رحمۃ للعالمین  ہیں۔ اگر ہم لوگ ان کی ذات اقدس کو اپنا محور قرار دیں ،اپنا مرکزی نقطہ قرار دیں اور سب مل کر پہلے ان کی ذات  کے بارے میں دقیق مطالعہ کریں اور پھر ان کی فرمایشات پر حقیقی طور پر عمل کریں۔ تو پھر       خود بخود یہ ذات اقدس ہمارے لئے باعث وحدت ہوجائے گی ، ہم سب کا ہدف اور مقصد ایک ہی قرار پائے گا اور جب کمزور اور ناتوان لوگ ایک ہی پرچم کے نیچے جمع ہوجائینگے توظالم اور مستکبرین کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجائیگا۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب رحمۃ للعالمین آئے تو اس وقت قومیں مردہ تھیں ،ان کے ضمیر مردہ تھے،ظالم سامراج کے خلاف ان کے اندر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،ان کے پاس کوئی تمدّن  وتہذیب نہ تھی،کسی قسم کا اتّحاد نہ تھا،سب قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، قومی اور نسلی امتیاز برقرار تھا،منافقت،حسد کینہ توزی کا لوگوں کے سینوں میں لاوا ابل رہا تھا،معاملات اور امانات میں خیانت برتی جاتی تھی،عفت وناموس کا کوئی پاس و لحاظ نہ تھا ، بت پرستی،انسان پرستی اورجہالت اور بے غیرتی کا دور رائج تھا۔لییکن اب جو رحمۃ للعالمین بن کر ،پیام وحی لے کر رسول اسلام ؐتشریف لائے جو کہ پہلے سے امین اور صادق کے لقب سے لوگوں میں مشہور تھے۔ان کا یہ پرنور و رحمت کا پیام  باعث بنا کہ مردہ قومیں بیدار ہو گئیں،ان کے ضمیر جاگ گئے،ایک دوسروں کے درمیان خون کی پیاس کی جگہ صیغۂ اخوتّ وبرادری نے لے لی،اب حقیقی انسانی تہذیب وجود میں آئی،وہ لوگ اتّحاد کے علمبردار بن گئے،ہر قسم کے امتیاز کی جگہ تقوی اور پرہیزگاری نے لے لی ،رذائل کی جگہ فضائل نے پر کی ،خیانت کی بجائے آج کا یہ انسان ایک دورے کی امانات،عفت اور ناموس کا محافظ بن گیا،بت پرستی وغیرہ کی جگہ خفا پرستی آگئی،جہالت کی جگہ علم کی روشنائی نے لے لی ، اب ہرانسان (منافقین کے بغیر)اس فکر میں تھا کہ کمال ،سعادت اور حقیقت ابدی تک رسائی حاصل کی جائے ۔اسی تلاش کے نتیجے میں کوئی سلمان بن گیا تو کوئی بوذر،کوئی مقداد تو کوئی عمّار․․․
اور پھر نبی اکرمؐ ایک محدود ومخصوص زمانے کے لئے رحمت بن کر نہیں آئے تھے بلکہ خاتم النّبیین بن کر آئے تھے جس کی بنا ء پر وہ  خاتم النّبیین ہونے کے ساتھ ساتھ روز قیامت تک رحمۃ للعالمین بھی ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے ،اگر ایسا ہے تو آج کا مسلمان کیوں اس رحمت سے مستفید نہیں ہوتا؟آج کا مسلمان کیوں عملی طور پر دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا بن کر رہ گیا ہے ؟کیوں آج کے زمانے میں صرف امت مسلمہ ہی پسماندہ رہ گئی ہے؟؟؟!!! 
 یقیناً اس کا سبب یہی  ہے ہم نے رسول گرامی ؐکی تعلیمات ،فرمایشات اور احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ قرآن رسول اسلام ؐکو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ اور مطلوب ترین آئیڈیل قرار دیتا ہے لیکن ہم مغربی تہذیب کے شیدائی اور پیروکار ہوگئے ہیں ۔ہم مغرب زدہ ہوکر رہ گئے ہیں ،ہم نے ھی دین کو مغربیوں کی طرح افیون قرار دیدیا ہے یا یہ دین ہمارے لئے زندگیوں میں برائے نام اور صرف زبان تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ اگر آج ہم اس رحمت عظمی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے،رحمۃ للعالمین کو اپنے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیتے تو عالم استکبار اور ظالم سامراج کی جرات بھی نہ ہوتی کہ اسلام اور مسلمین کو امن ،آزادی اور آشتی کا مذہب ہے ،دہشت گردی کا الزام دیتا ۔آج امریکہ،برطانیہ اور خاص طورپوری دنیا کے بدن پر کینسر کے پھوڑے یعنی اسرئیل کی ہمت نہ ہوتی کہ مسلمانوں کی عزت اور غیرت کو للکارتایا ان پر حملہ کرتا۔آج دنیا میں ۵۵ سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں۔اقتصاد کی شہ رگ یعنی تیل اور گیس بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، لیکن صرف پیامبر گرامی ؐکی ذات اقدس کو آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،اگر یہ کمی پوری ہوجائے ساری دنیا مسلمانوں کے قدموں میں گر جائے،آج اس اسوہ کا تقریباً ،کسی حد تک ایک نمونہ ایران اسلام اور انقلاب اسلامی ہے،یہی انقلاب اسلامی ایران ہے کہ جس نے ظلم وستم کے ایوانوں کو لرزہ براندام کر رکھا ہے ۔ایران اسلامی ہی کی بدولت آج چھوٹے چھوٹے اور کمزور ملکوں میں جرات پیدا ہوگئی ہے کہ وہ امریکہ جیسی سپر طاقت کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اسے للکاریں، دھمکیاں دیں ،جیسے پیامبر ؐکی اسلامی حکومت ،قیصر وکسریٰ کیلئے خطرہ بن گئی تھی،اسی طرح آج یہ ایران اسلامی بھی خطرہ بن کر رہ گیا ہے۔اگر آج افغانستان اور عراق کو فتح کیا جا رہا ہے تو کیوں ؟وہ تو ان کی اپنی ہی منتخب حکومتیں تھیں کیونکہ وہ حکومتیں اب انکے کام کی نہ رہیں،سوچا ،ان کو ہٹا کر اپنی من پسند کی حکومتیں لائی جائیں تا کہ وہاں پر فوجی اڈے قائم کئے جائیں،تاجیکستان ،گرجستان،ترکی وغیرہ اور خلیجی ممالک میں بھی فوجی اڈے قائم کئے گئے ہیں تاکہ اس اسلامی حکومت کو چاروں طرف سے گھیر کر اس کا خاتمہ کیا جاسکے ،اسکو نابود کیا جا سکے لیکن یہ مصرعہ مشہور ہے   ؂
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اور پھر خدادئے جبّار کا فیصلہ ہے  والله متمّ نوره ولو کره الکافرون اور اسی خدائے عزیز کا فرمان ہے جاء الحق وزهق الباطل انّ الباطل کان زهوقاً․
ہاں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رحمۃ للعالمین کو قرآن کے دستور کے مطابق اپنے لئے اسوۂ حسنہ اور آئیڈیل قرار دیں،اخلاق محمدیؐسے سسرشار اور آراستہ ہوجائیں،کردار محمدیؐاور ان کی بعثت اوررسالت کے صحیح اہداف اور مقا صد کو سمجھیں ،خاتم الانبیاء ؐاور ان کے اوصیاء کو رحمت الہی سمجھ کر ان کی فرمایشات پر عمل کریں۔تبھی ہماری دنیا بھی آباد ہو جائے گی اور آخرت بھی اللّهم اجعل محیای محیا محمّد وآل محمّد ومماتی ممات محمّد وآل محمّد علیهم السلام۔آمین۔ 

 

Read 729 times