تمہید:
ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں نشیب و فراز سے دوچار ہوتا ہے، وہ مختلف قسم کی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ عام طور پر لوگ مشکلات کے سامنے ہارمان کر اپنے آپ کو حالات کے بہاؤ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے درمیان کچھ اس طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو معاشرے میں موجود سخت ترین حالات اور کٹھن سے کٹھن لمحات میں بھی پائداری کا ثبوت دیتے ہوئے ایک ذرّےبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی صحیح طرح سے معرفت حاصل کی اور اپنی زندگی امامت اور ولایت کی اطاعت میں گزاری ۔ ائمہ اطہار ؑ کو اپنی زندگی میں نمونہ اور آیڈیل قرار دیا ۔ ایثار و وفا کے پیکر، حیدر کرار ؑ کی تمنا ، ام البنین (س) کی آس ، حسنینؑ کے قوت بازو ، زینب و ام کلثوم (علیہما السلام) کی ڈھارس ، قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس ؑ کا شمار انہی افراد میں ہوتا ہے
آپ ؑ نے اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ان سب کا بیان ایک مقالہ میں ممکن نہیں ۔ آپ ؑ کو تین معصوم اماموں ؑ کا زمانہ درک کرنے کا شرف حاصل رہا اور آپ ؑ نے کماحقہ ہر ایک سے کمال فیض حاصل کیا۔ پوری زندگی میں ایک لمحے کے لئے بھی امام حق کی اطاعت میں آپ کے قدم نہیں ڈگمگائے۔
مدینے میں ام البنین(س)کے چاند کا طلوع:
حضرت عباسؑ کے سن ولادت میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے لیکن ان اقوال میں سے دو قول مشہور ہیں کہ آپ 4شعبان المعظم سنہ 23 یا 26ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
یہ بات حکمت سے خالی نظر نہیں آتی کہ امام حسین ؑ نے 3شعبان المعظم کو اپنے وجود سے اس جہان خاکی کو منور فرمایا اور 4شعبان کو حضرت ابوالفضل العباسؑ اس دنیا میں آئے یوں ان دو ہستیوں کا آپس میں ایک خاص ارتباط سے انکار نا ممکن ہے۔
حضرت علی ؑ کو اپنے مستجاب تمنا کی آمد پر خوشی:
جب امیرالمومنین حضرت علی ؑ کو حضرت عباسؑ کی ولادت کی بشارت دی گئی تو آپؑ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، جلدی گھر آئے بچے کو آغوش میں لیا اور نومولود کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی، حضرت علیؑ کا یہ طرز عمل شاید عام لوگوں کو معمولی لگے لیکن حضرت علی ؑ اپنے مستجاب دعا کو بد و تولد میں ہی یکتا پرستی کا سبق پڑھا رہے تھے، چونکہ حضرت علی ؑ اپنی دوررس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ ان کے بیٹا عباس ؑ گوش شنوا اور چشم بینا رکھتے ہیں اور تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عباسؑ نے اپنی پوری حیات بابرکت میں ایک لحظہ کے لئے بھی حق کے راستے میں شک کا شکار نہیں ہوئے اور ہمیشہ اپنے امام وقت کی اطاعت اور پیروی میں زندگی گزاری۔ امام علیؑ نے اپنے نو مولود کا نام عباس(یعنی بپھرا ہوشیر)رکھا۔
عباس کا بچپن، لڑکپن اور جوانی عصمت و طہارت کے سایہ تلے گذری۔ انہوں نے اس موقع سے اپنے لئے پورا فائدہ اٹھایا۔ باپ نے جس غرض کے لئے آپ کو مانگا تھا اس پر پورے اترے اور کربلا میں آپ نے وہ کردار ادا کیا جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لئے نمونہ عمل رہے۔
امام علی ؑ نے کان میں اذان و اقامت اور نامگذاری کے مراسم انجام دینے کے بعدحضرت عباس کو فرزند رسولﷺ ، لخت جگر بتول حضرت امام حسین ؑ کی آغوش میں دیا۔ آقا حسینؑ نے اپنے قوت بازو کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا، مولا حسینؑ کی خوشبو محسوس کر کے حضرت عباسؑ نےولادت کے بعد پہلی بار آنکھیں کھولیں اور اپنے بھیا کے چہرے کی زیارت کی اس منظر کی شاعر نے یوں نقشہ کشی کی ہے۔
ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی
اک آنکھ ہے مسرور تو اک آنکھ ہے باکی
میرا دل کہہ رہا ہے شاید حضرت عباسؑ مولا حسین ؑ کی آغوش میں پہلی بار آنکھیں کھول کر اپنے مولا و آقا حسینؑ کے چہرے کی زیارت کے ساتھ، اپنے باپ کی تمنا اور آرزوں پر پورا اترنے کا عہد و پیمان کر رہے تھے۔
حضرت عباس ؑ مختلف مراحل میں:
حضرت عباس ؑ نے اپنی زندگی میںبڑےنشیب و فراز دیکھے ۔ جب آپ نے اس دنیا میں قدم رکھا خاندان عصمت و طہارت کڑے وقت سے گذر رہا تھا۔ اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت عباس ؑ کی پر فراز و نشیب زندگی کو پانچ مرحلوں میں بیان کریں۔
1۔ حضرت عباس ؑ ماں کی آغوش میں:
حضرت علی ؑ نے اپنے بھائی عقیل کے مشورے سے جو علم انساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمہ کلا بیہ سے عقد کیا اور اپنے خالق سے آرزو کی کہ پروردگارا ! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کردے جو اسلام اور توحید کی سر بلندی کے لئے کربلا کے خونی معرکے میں رسولﷺ کے فرزند حسینؑ کی نصرت و مدد کرے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت علیؑ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فاطمہ کلابیہ(س) کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے ان ؑ کو عطا کر دیے جس کی بناءپر آپ کو ام البنین(س) کا لقب ملا، ام البنین(س) کے چاروں بیٹے شجاعت و دلیری میں زبان زد عام و خاص تھے ،اور سبھی نے معرکہ کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا ، لیکن عباس ؑ ان سب میں نمایاں تھے، ماں نے ایک خاص نہج پر ان کی تربیت اور پرورش کی چونکہ وہ جانتی تھیں کہ حضرت عباسؑ ہی امیرالمؤمنینؑ کی مستجاب تمنا ہیں، اور انہیں ایک خاص مقصد اور ہدف کی تکمیل کے لئے آمادہ کرنا ہے ، لہذا بچپنے سے ہی عباس ؑ کی تربیت میں ایثار و فداکاری اور اپنے امام ؑ کے سامنے اطاعت اور سر تسلیم خم کرنے جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھردی تھیں۔
ماں کے سامنے انو کھا واقعہ:
ایک بار جناب ام البنین(س) مادر حضرت عباسؑ تشریف فرما تھیں، اور حضرت عباسؑ کا بچپن تھا حضرت علیؑ نے اپنے فرزند کو گود میں بٹھایا اور آستین کو الٹ کر بازؤوں کی جانب خیرہ ہوئے ، محو فکر ہیں اور پھر ان بازؤوں پر بو سے دینے لگے، ام البنین (س) نے آپ کا یہ انداز محبت دیکھ کر عرض کیا؛مولا! یہ کیسا طریقہ محبت ہے ؟ یہ آستین کیوں الٹی جارہی ہے ، یہ بازؤوں کو بوسے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟! کیا ان میں کسی طرح کا عیب و نقص پایا جاتا ہے؟! امیرالمؤمنین ؑ نے فرمایا: ام البنین ؑ اگر صبر و تحمل سے کام لو تو بتاؤنگا؟ "تمہارا یہ لال کربلا میں شہید کردیا جائیگا اور اس کے شانے قلم ہوں گے، پروردگارانہیں دو پر عنایت کرے گا جس سے یہ حضرت جعفر طیارؑ کی طرح جنت میں پرواز کرے گا۔
یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں ماں کی ممتا کے سامنے ایک طرف بیٹے کی شہادت ہے اور دوسری طرف امام حق کی نصرت ، وہ کتنی عظیم ماں ہوگی کہ جس نے نصرت امامؑ کے لئے اپنیممتاقربان کردی اور آنسو نہ بہائے۔
2۔ عباسؑ تربیت گاہ علیؑ میں:
اسلامی تاریخ کے تلخ ترین لمحات میں حضرت عباس ؑ نے آنکھیں کھولیں حضرت عباسؑ کی ولادت اگر 23 سن ہجری کو درست مانی جائے تو آپ خلیفہ دوم کی حکومت کے آخری سالوں میں پیدا ہوئے اسی طرح آپ ؑ نے عثمان کے دور خلافت کو اچھی طرح سے اپنی تیزبین نگاہوں کے سامنے سے گزارا ،عثمان کی اقرباء پروری،اور خیرخواہ لوگوں کی نصیحتوں کو خلیفہ کی طرف سے بد بینی سے تعبیر کرنے جیسی صورت حال کو حضرت عباسؑ نے قریب سے حس کیا اور جب انقلابیوں کے اصرار کے باوجود مروان کو ان کی جایگاہ سے نہ ہٹایا گیا تو انہوں نے خلیفہ کو محاصرے میں لےلیا اور عثمان کے قتل کے درپے ہوئے اور پانی روٹی کی ترسیل روک دی،تاریخ کے ان سخت حالات میں حضرت عباسؑ دور سے صرف تماشائی بن کر نہ رہے بلکہ ہمیشہ اپنے باپ علیؑ کے ساتھ سائے کی طرح رہے اور معاشرے میں کردار ادا کیا۔ جب عثمان کے محل اقامت کا محاصرہ کیا گیا ، حضرت عباسؑ نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل میں خلیفہ تک پانی اور غذا پہنچائی۔ عباس نے حادثہ قتل عثمان کو بھی دیکھا اور ان تمام حالات سے اپنے لئے آگاہی اور عبرت کا سامان مہیا کیا۔
آپ ؑ نے لوگوں کو حکومت عدل علویؑ کی برقراری کی طرف میلان اور اپنے باپ کے حق میں لوگوں کی بیعت کے مناظرکا بھی مشاہدہ کیا، اور ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جانچا اور پرکھا کہ جنہوں نے مال دنیا اور ثروت اندوزی کی خاطر حکومت حق کی حمایت نہیں کی اور یا وہ لوگ جنہوں نے اوّل امام علیؑ کی بیعت کی پھر جب دیکھا حکومت علویؑ میں اقربا پروری، ثروت اندوزی اور بیت المال لوٹنے کی کوئی گنجائش نہیں بیعت توڑی اور جنگ جمل کے ذریعے امام حق ؑ کا استقبال کیا۔عباس ؑ بنوامیہ کی دغا بازیوں کو بھی سمجھ رہے تھے جو قتل عثمان کو بہانہ بنا کر نو پا علویؑ حکومت پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور خونخواہی عثمان کے نعرے کے ذریعےمظلوم نمائی کر رہے تھے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کر رہے تھے۔حضرت عباس ؑ اپنے باپ علی مرتضیٰؑ اور اپنے دونوں بھائیوں امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان حالات میں بہترین کردار ادا کرتے رہے اور ایک لحظے کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹے،ایسا کرتے بھی کیسے آخر حضرت عباسؑ نے حضرت علی ؑ جیسے باپ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی،علیؑ کے نزدیک حکومت اور مال دنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی۔وہ خلیفہ مسلمین ہونے کے باوجود ان کی خوراک خشک نان جو ہوا کرتی تھی،اور کبھی لذیذ کھانا تناول نہیں فرمایا۔ حضرت علی ؑ پر مسلط کردہ جنگوں میں بھی حضرت عباس ؑ ہمیشہ اپنے باپ ؑ کے ساتھ کوہ استوار کی طرح رہے ۔ بعض نقلوں کے مطابق جنگ صفین میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے، امام علی ؑ نے مختف جنگوں میں عباس ؑ کو میدان میں جانے نہیں دیا شاید امام ؑ انہیں ایک خاص معرکہ کے لئے جو 61 ہجری میں وقوع پذیر ہونا تھا ، محفوظ کر رہے تھے۔ حضرت عباس ؑ نے اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت کو بھی تحمل کیا اور بستر شہادت میں دوسرے فرزندوں کی طرح حضرت عباس ؑنے بھی اپنے باپ کی وصیتوں کو سنا اور ان کو ہمیشہ کے لئے اپنے سینے میں حفظ کیا اور ان پر عمل پیرا رہے۔
3۔حضرت عباس ؑ امام حسن ؑ کی خدمت میں :
سنہ 40 ہجری 21 رمضان المبارک آل علی ؑ کے لئے نہایت غمگین گھڑی تھی؛چونکہ ابن ملجم کی زہر آلود تلوار کا وار کاری ثابت ہوا اور یوں خورشید عدالتؑ نے غروب کیا۔اور لوگوں نے امام حسنؑ کے ہاتھ پر بیعت کی،عین اسی وقت معاویہ اور اس کے کارندے سیم ورز کے ذریعے رؤسا قبائل کو خریدنے میں سرگرم عمل ہوئے اور امام حسن ؑ کی بیعت کو کمزور اور لوگوں کی عقیدت کو امام حسن ؑ کے لئے سست کرنے لگے اس کا فوری اثریہ ہوا کہ کوفہ اور اس کے اطراف سے امام علیؑ کی شہادت سے پہلے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ معاویہ سے جنگ کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی لیکن آج ان میں سے صرف بارہ ہزار افراد کو(وہ بھی بڑی زحمت اور تگ و دوسے) جمع کیا[1] ۔یوں لوگ انتظار سے پہلے ہی اپنے امامؑ کو تنہا چھوڑ کر ان کے پاس سے ہٹ گئے ، یہاں تک کہ ان کے چچیرے عبیدالہ بن عباس (جو سپاہ امام ؑ کے کمانڈر تھے ) کو بھی بھاری رقم رشوت دیکر خرید لیا۔ عبیداللہ بن عباس کی خیانت سے سپاہ امام کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی ،دیکھتے ہی دیکھتے امامؑ کے ایک اور کمانڈر بنام کندی 4 ہزار سپاہیوں کے ساتھ (جو شہر انبار میں مستقر تھے)معاویہ سے جاملے ،اس سے بڑھ کر ان بے ایمان لوگوں نے مدائن کے نزدیک (ساباط)نامی گاؤں میں امام حسن ؑ کے خیمے پر حملہ کر کے آپ ؑ کے سجادہ کو پاؤوں تلے سے باہر کھینچ نکالا اور آپ ؑ کو زمین پر گرا دیا اور خنجر سے آپؑ کی ران پر زخم لگادیا، لوگوں کی بے وفائی ، معاویہ کے سیم وزر کے سامنے بک کر امام ؑ سے خیانت اور حتی آپ ؑ کے قتل کے درپے ہونا۔۔۔ ایسے عوامل تھے کہ امام حسن ؑ نے 25 ربیع الاول 41 ہجری کو معاویہ کے ساتھ صلح کی، اسی طرح حکومت عدل کہ جس کی امام علی ؑ نے بنیاد ڈالی تھی جو غریب اور بینوا لوگوں کی خوشبختی کی نوید تھی آج اختتام کو پہنچی ،پھر کیا تھا معاشرہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ ان تمام حالات اور مشکلات میں حضرت عباس ؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کے ساتھ کھڑےہیں۔لوگوں کو اصل حقیقت کی شناخت کی طرف دعوت دے رہے تھے،پکار پکار کر لوگوں کو خواب غفلت سے بیدارکرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جہالت اور خوف کی قبر میں سوئے لوگ جاگ نہ سکے۔ لیکن جب معاویہ کے کار ندے جیسےسمرۃ بن جندب،بسر بن ارطاۃ اور زیاد بن ابیہ کے تیغ تلے قتل عام ہوئے تو حکومت عدل علوی یاد آئی لیکن " اب ہوتا کیا جب چڑیا چگ گئی کھیت"
4۔ حضرت عباس ؑ امام حسینؑ کی خدمت میں:
28 صفر سال 50ہجری کو امام حسن ؑ کی شہادت واقع ہوئی ، امام حسین ؑ ، ابوالفضل العباسؑ اور دوسرے سارے بنی ہاشم نے عزت و جلال کے ساتھ امام حسن ؑ کے بدن پاک کو مسجدالنبی ﷺ کی طرف تشییع کیا تا کہ نانا رسول اللہ ﷺ کے جوار میں دفن کریں ، لیکن عائشہ نے امام ؑ کے مخالفوں کی مدد سے سبط رسول ﷺ کے جنازے کو روکا اور آنحضرت ﷺ کے جوار میں دفنانے سے منع کیا اور امام ؑ کے جنازے پر تیر باران کرکے ان کے جنازے کی بے حرمتی کی ، اس منظر کو دیکھ کر حضرت عباس ؑ کے جذبات تلوار چلانے کے متقاضی ہوئے ، حضرت عباس ؑ کو دیکھتے ہوئے جوانان بنی ہاشم نے بھی تلواریں نیام سے نکالنا چاہیں لیکن حضرت عباس ؑ کی شجاعت ہمیشہ اطاعت امام ؑ کے سایہ تلے تھی ، امام حسین ؑ کے حکم پر حضرت عباس ؑ نے بنی ہاشم کے دوسرے جوانوں سمیت اپنی تلواروں کو نیام میں رکھا ؛ چونکہ امام حسن ؑ کی وصیت تھی کہ ان کے وفات کے بعد اور دفن کے دوران خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے ، آپ ؑ کا جنازہ بقیع کی طرف لے جایا گیا اور وہیں پر آپ کا مرقد مطہر بنا ۔
حضرت عباس ؑ اپنے بھائی امام حسین ؑ کے عاشق و گرویدہ تھے اور سخت ترین حالات میں بھی آپ ؑ نےمحبت و وفاداری کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفاء ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے ۔
امام حسین ؑ اپنے بھیا امام حسن ؑ کی شہادت کے بعد دس سال تک معاویہ کی حکومت کے دوران مدینہ میں رہے اور تبلیغ دین اور تدریس معارف الہی میں مشغول رہے اور حضرت عباس ؑ ہمیشہ سائے کی طرح امام حسین ؑ کے ساتھ رہے ، انہوں نے کبھی بھی امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو اپنے بھائی ہونے کی حیثیت سے نہیں دیکھا ، بلکہ ان کو فرزندان رسولخدا ﷺ و بتول (س) و امام و مقتدائے خود سمجھ کر ان کی اطاعت و نصرت میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے ۔ اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اپنے امام ؑ کی اطاعت اور ان کے اہداف کی تکمیل میں نچھاور کیا ۔ تبھی تو ائمہ اطہار ؑ کی لسان مبارک میں آپ ؑ عبد صالح سے ملقب ہوئے [2]۔
امام حسین ؑ سے بیعت طلبی کے وقت حضرت عباس ؑ کا کردار
جب معاویہ اس دنیا سے چل بسے اور یزید لعین مسند خلافت پر بھٹایا گیا اور عالم اسلام کی بڑی بڑی شخصیات سے بیعت کا درپے ہوا ، حاکم مدینہ ولید بن عقبہ نے امام حسین ؑ کو رات کے وقت، دارالامارۃ میں طلب کیا ، امام ؑ ان کی نیت سے واقف تھے لہذا آپ ؑ اپنے قوت بازو عباسؑ اور دوسرے جوانان بنی ہاشم کے ہمراہ دارالامارۃ پہنچے اور انہیں ولید کے گھر کے باہر مامور کیا اور کہا کہ جب میری آواز اونچی ہوجائے تو گھر میں داخل ہونا ، اور خود ولید کے گھر میں داخل ہوئے ۔ ولید نے امام عالیمقامؑ کا استقبال کیا اور معاویہ کی موت کی خبر سنائی ، ساتھ ہی امام ؑ کو یزید کا حکم سنایا جس میں اہل مدینہ سے بالعموم اور امام حسین ؑ سے بالخصوص بیعت لینے کا کہا گیا تھا ۔ امام ؑ نے ولید کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : ہم اہلبیت نبوت ہیں صبح ہوجائے اور سب لوگوں کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کریں گے ۔ مروان بن حکم ( لعین ) جو ولید کے پاس موجود تھا کہنے لگا :یا امیر انہیں جانے نہ دیجئے ، اگر یہاں سے باہرچلے گئے تو پھر آپ کے ہاتھ آنا مشکل ہے ، یہیں ان سے بیعت طلب کرو ، نہ ماننے کی صورت میں ان کی گردن اڑاؤ ! امام حسین ؑ نے مروان پر ایک تحقیر آمیز نگاہ ڈالی اور فرمایا : اے پسر زرقا (نیلی آنکھیں والی ماں کے بیٹا)! آیا تو مجھے قتل کرے گا یا یہ ؟ ( پاس بیٹھے ہوئے ولید کی طرف اشارہ کیا )پھر امام ؑ نے ولید سے کہا " اے امیر ہم اہلبیت نبوت ، معدن رسالت ، محل رفت و آمد ملائکہ ہیں ۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و فاجر ، شرابخوار ، ناحق قاتل نفس ۔۔۔ ہے کبھی بھی مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ۔۔۔" یوں امام ؑ نے صراحتا اپنی عدم بیعت کا اعلان کردیا ۔ مروان اور ولید نے حضرت عباس ؑ کی قیادت میں جوانان بنی ہاشم کے تلواروں کی چھنکار سنی تو امام عالیمقامؑ سے متعرض ہونے کی ہمت نہیں کی ، حضرت امام حسین ؑ جوانان بنی ہاشم ( جن کی سربراہی حضرت عباس ؑ فرمارہے تھے )کے جھرمٹ میں محلہ بنی ہاشم پہنچے ۔
امام ؑ نے مدینہ چھوڑنے کا ارادہ کیا اور مکہ ،حرم امن الہی کی طرف کوچ کا حکم دیا ، بہت ساری بزرگ شخصیات اس سفر میں امام حسین ؑ کی ہمراہی سے محروم رہیں لیکن حضرت عباس ؑ نہ فقط ان مشکل حالات میں امام ؑ کے ساتھ رہے بلکہ انہوں نے امام ؑ کے تمام امور اور اہل خانہ کی سرپرستی اپنے ذمے لی اور اس کاروان کی علمداری کاحق نبھایا تمام ممکنہ خطرات کے سامنے سینہ سپر ہوکر آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے[3] ۔
۵۔ حضرت عباسؑ میدان کربلا میں :
امام حسین ؑ ۳ شعبان ( یعنی اپنے روز ولادت) سنہ ۶۰ ہجری وارد مکہ ہوئے اور۸ذیحجہ تک حرم امن الہی میں عبادت ، دین اسلام کی تبلیغ اور فاسد حکمرانوں کی کارستانیوں سے زائرین بیت اللہ الحرام اور حجاج کرام کو مطلع کرتے رہے۔ اسی اثناء اہل عراق نے آپؑ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کوفہ آنے کی دعوت دی اور بے شمار خطوط لکھ کر آپ ؑ پر حجت تمام کی ۔ ۸ ذیحجہ کو امام ؑ جان گئے کہ عمر و بن سعید بن العاص بہت سارے یزیدی سپاہیوں سمیت حاجیوں کی بھیس میں امام عالیمقام ؑ کے قتل کی غرض سے وارد مکہ ہوئے ہیں ، امام ؑ نے بیت اللہ کی حرمت کی پاسبانی اور جس تحریک ( بنی امیہ ، خاص کر یزید کی شخصیت اور ان کی حکومت سے پردہ برداری) کا آغاز کیا تھا اس کی حفاظت کی غرض سے کوفہ کا رخ اختیار کیا تا اینکہ اہل عراق کی دعوت کی اجابت بھی ہوجائے ۔ حسینی کاروان حضرت عباسؑ کی علمداری اور قیادت میں منزلیں طے کرتا ہوا ۲ یا ۳ محرم سنہ ۶۱ ہجری کو دشت کربلا پہنچا ، اس پورے سفر میں حضرت عباسؑ نے کاروان حسینی میں شامل تمام افراد خاص کر اہل حرم کی آسائش کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جنگ صفین میں ابن شعثاء اور ان کے سات بیٹوں کو تہ تیغ کرنے والا شکاری شیر آج کربلا میں ہے ، حر بن یزید ریاحی امام ؑ کا راستہ روک رہے ہیں ؛ ثانی حیدر ، قوت بازوئے حسین ؑ حضرت عباسؑ بپھرے ہوئے شیر کی طرح انگڑائی لیتے ہیں لیکن مولا و آقا حسین ؑ عباس ؑ کو سمجھا بجھا کر آرام کررہے ہیں ، امام ؑ کو خیموں کی جابجائی کا کہا جارہا ہے عباس طیش میں آتے ہیں لیکن ان کی شجاعت امام وقت کی تابع ہوتی ہے ، ان کا ہر فعل و عمل ولایت اور امامت کی اطاعت اور تابعداری میں انجام پاتا ہے ۔ جب شمر امان نامہ عبیداللہ بن زیاد کو عباس اور ان کے بھائیوں کو دینے کے لئے آواز دے رہا ہوتا ہے لیکن حضرت عباسؑ شمر کی آواز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے لیکن حکم امام ؑ پر ان سے ہمکلام ہوتے ہیں اور امان نامے کو رد کرکے شمر اور ابن زیاد کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں ۔ یوں تو حضرت عباسؑ کی پوری زندگی معرکہ آرا ہے لیکن کربلا میں ان کے کارنامے بلندی کی اوج کو پہنچے ، علی ؑ کے مستجاب تمنا اور ام البنین کی تربیت کا ثمر اپنے ہدف ( شہادت) کے نزدیک ہورہا ہے ۔ تین دن سےحضرت زہراءؑ کے لعل اور ان کے اہل و عیال پر پانی کی بندش رہی لیکن حضرت عباسؑ نے کئی بار نہر فرات پر قبضہ جمایا لیکن مولا حسین ؑ کی پیاس اور ننھے بچوں کی العطش کی صدائیں یاد کرکے اپنی پیاس بھلایا اور ایک گھونٹ پانی پیئے بغیر خیام حسینؑ کی طرف پانی لے کر لوٹ آئے ۔
۹ محرم کی سہ پہر :
۹ محرم سنہ ۶۱ ہجری سہ پہر کا وقت ہے فوج اشقیاء ریحانہ رسولﷺ کی جانب پیکار کی غرض سے بڑھنے لگتی ہیں ۔ حضرت عباسؑ فورا امام عالیمقام ؑ کی خدمت میں پہنچتے ہیں اور عرض کرتے ہیں کہ آقا دشمن آپ کے سو آرہے ہیں ، امام حسین ؑ نے فرمایا : میرے بھیا ، قربان جاؤں جاؤ اور پتہ کرو وہ کیا چاہتے ہیں ؟ امام ؑ کا یہ طرز تکلم حضرت عباسؑ کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کردیتی ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالیترین مرتبہ پر فائز ہیں ۔
حضرت ابوالفضلؑ تیس صحابی جن میں زہیر بن قین ، حبیب بن مظاہر شامل تھے ، یزیدی فوج کے پاس پہنچے اور اس سے اس کا مقصد دریافت کیا کہ یہ فوجی تحرکات کس لئے انجام دئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے بے شرمانہ جواب دیا : عبیداللہ ابن زیاد کا حکم آیا ہے یا تم لوگ یزید کی بیعت کرو ورنہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجاؤ ، حضرت عباس ؑ نے ان کے ارادوں سے امام ؑ کو آگاہ کیا ، آپ ؑ نے فرمایا : دیکھو بھیا ان کے پاس جاؤ اور آج رات کے لئے جنگ ٹالنے کی مہلت مانگو تاکہ یہ رات میں قرآن کی تلاوت اور نماز پڑھ کر گزاروں ۔ جب امام ؑ کا یہ پیغام عمر سعد تک پہنچایا گیا تو کافی چون و چرا کے بعد ایک رات کی مہلت مل گئی [4]۔
شب عاشورا امام ؑ کے دل ہلادینے والے کلمات :
محرم کی دسویں رات امام حسین ؑ ، ان کے خاندان اور اصحاب کے لئے بڑی سخت رات تھی امام حسین ؑ نے اس رات اپنے تمام اعوان و انصار کو یکجا کیا اور اس حساس موقع پر فرمایا : ((میں اپنے اصحاب اور خاندان سے بڑھکر وفادار اور بہتر کسی کے خاندان اور اصحاب کو نہیں سمجھتا ، اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عنایت فرمائے لیکن آگاہ رہو میں گمان نہیں کرتا کہ آج ان دشمنوں کی طرف سے ہمارے لئے کوئی کل نصیب ہوجائے ، میں نے آپ سب کو اجازت دی اور اپنی بیعت کو آپ سے اٹھایا تا اینکہ آسودگی اور بغیر ملامت کے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاکر اپنا راستہ اختیار کرو اور چلے جاؤ [5]۔ لیکن ابھی امام ؑ کا خطبہ آخر کو نہیں پہنچا تھا ایک جوش و جذبہ اہلبیت و اصحاب امام ؑ کے اندر وجود میں آیا ، حضرت ابوالفضل ؑ نے سب سے پہلے سکوت کو توڑا اور اہلبیت کی نمائندگی میں بولے : آقا کبھی بھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، خدا ہمیں وہ دن نہ دکھائے کہ آپ ؑ کے بعد ہم زندہ رہیں [6]، اور اصحاب کی طرف سے سب سے پہلے مسلم ابن عوسجہ نے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔
حضرت عباسؑ کی آخری آس جو پوری نہ ہوسکی :
عصر عاشور امام حسین ؑ کے تمام یار و انصار شہادت کے رفیع درجے پر فائز ہوئے ۔ صبح سے سہ پہر تک حضرت عباسؑ ، امام حسینؑ کے ساتھ جوانان بنی ہاشم اور اصحاب با وفاء کی لاشیں اٹھا اٹھا کر نڈھال ہوگئے تھے اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھ چکے تھے ۔ مرحوم حبیب اللہ شریف کاشانی ، کتاب تذکرۃ الشہداء میں لکھتے ہیں کہ حضرت عباسؑ کے دو صاحبزادے محمد و قاسم بھی کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ لیکن ان سب سے بڑھکر انہیں بھائی کی تنہائی اور چھوٹے بچوں کی شدت پیاس سے العطش کی صدائیں برداشت نہیں ہوپارہی تھیں ۔ حضرت عباسؑ نے میدان میں جانے کی اجازت چاہی لیکن امام والا مقام ؑ نے یہ کہہ کر ٹالا کہ آپ میرے لشکر کے سپہ سالار اور علمدار ہیں ۔ امام ؑ حضرت عباسؑ کی موجودگی سے احساس توانمندی کرتے تھے اور دشمن بھی عباسؑ کی موجودگی میں خیام حسینی ؑ پر حملہ کی جرأت نہیں کرسکتے تھے ۔ حضرت عباسؑ کے اصرار پر آپ کو فقط بچوں کی پیاس بجھانے کے لئے پانی فراہم کرنے کی اجازت ملی ۔ آپ ؑ مشکیزہ ساتھ لئے نہر فرات کی طرف بڑھے ، دشمن کا محاصرہ توڑ کر نہر فرات پہنچے ، ایک چلو پانی لیا پیاس کی شدت بڑھ رہی تھی ۔ لیکن آپ نے پانی نہر فرات پر پھینکا اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: اے عباسؑ یہ تیرے آئین (وفاء) کے خلاف ہے کہ تو اپنے مولا حسین ؑ اور ان کے ننھے بچوں اور مخدرات سے پہلے اپنی پیاس بجھائے ۔ مشکیزہ پانی سے بھر کر خیام حسینی کی طرف چل دیئے ، فوج اشقیاء مانع بنی لیکن ثانی حیدر ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے گئے ، عباس کی ایک آس تھی کہ کسی طرح پانی کا مشکیزہ خیام حسینیؑ تک پہنچادیں لیکن ایک بزدل نے پیچھے سے گھات میں لگا کر آپ ؑ کا دایاں بازو جدا کیا لیکن آپ نے مشکیزہ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ایک بد ذات شقی نے چھپ کر پیچھے سے بائیں بازو کو بھی شہید کر ڈالا لیکن شجاعت کے پیکر عباسؑ نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری ،مشکیزہ کو دانتوں سے پکڑ کر پاؤں سے دفاع کرتے ہوئے آگے بڑھے، لیکن دشمنوں نے ایک دفعہ مشکیزے پر تیروں کی بارش کی اور پانی زمین کربلا میں گرا ، یوں عباس کی آس ٹوٹ گئی ۔ ایک ظالم نے گرز جفا کو آنحضرت ؑ کے سر اقدس پر مارا اور آپؑ اسی حالت میں زمین کربلا پرگرے درحالیکہ دونوں بازو جدا ہوچکے تھے ؛ مولا حسینؑ کو آخری سلام دیا ۔ امام حسین ؑ آپؑ کی شہادت پر بہت روئے ۔ عرب شاعر نے کہا :
احق الناس ان یبکی علیه فتی ابکی الحسین بکربلاء
اخوه وابن والده علی ابوالفضل المضرج بالدماء
و من واساه لا یثنیه شئی و جادله علی عطش بماء [7]۔
ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین ؑ روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی ؑ کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کی اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کرکے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔(انا لله و انا الیه راجعون)
[1]۔ ماہ بی غروب ، عباس علی محمودی ، ص73
[2]۔ قہرمان علقمہ ، آیت اللہ دکتر احمد بہشتی ، ص ۱۸۹
[3]۔ زندگانی حضرت ابوالفضلؑ ، شریف قریشی ، ص ۱۱۸ ۔ ۱۲۰
[4]۔ زندگانی حضرت ابوالفضل العباسؑ، شریف قریشی ، ص ۱۷۰
[5]۔ ایضا ص ۱۷۵ ، نقل از تاریخ ابن اثیر ، ج۳ ، ص ۲۸۵
[6]۔ تاریخ طبری ، ج۶ ، ص ۲۳۸
مؤلف: محمدنذیر