پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے جانشین حضرت امام حسن بن علی بن ابیطالب علیہ السلام کو مکتب تشیع کے پیروکاران اپنا دوسرا امام اور پیشوا مانتے ہیں۔ امام حسن مجتبیٰ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک 3 ھ کو متولد ہوئے۔(الارشاد شیخ مفید، ص 346)۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریباً 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔ آپ نے اپنی عمر کے 7 سال اپنے نانا رسول خداؐ کے ساتھ گزارے، بیعت رضوان اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں اپنے نانا کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور پہلے امام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام اور سیدۃ النساء العالمین بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں۔
کسے معلوم نہیں کہ یہ وہ گھرانہ ہے، جہاں وحی کی آمد اور فرشتوں کا نزول ہوتا تھا۔ اس مقدس و محترم گھرانہ کی پاکیزگی و طہارت کے بارے میں قرآن نے ان الفاظ میں گواہی دی ہے: "اِنما یرِید اللہ لِیذہب عنکم الرِجس اہل البیتِ ویطہرکم تطہیرا۔" یعنی: (بس اللہ کا ارادہ یہ ہے، اے اہل بیت علیہم السلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے، جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے)۔ (سورہ احزاب آیہ33) امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، امیرالمومنین علی بن ابیطالب اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہراء سلام اللہ کی پہلی اولاد تھے۔ پہلی اولاد پر روایتی طور پہ خاندان میں خوشیوں کا سماں بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لئے آپ کی ولادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کے چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنی۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور مولود کا نام حسن رکھا۔ (کشف الغمہ، ج2، ص82)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے کئی القاب کتب میں وارد ہوئے ہیں، جن میں کچھ معروف ہیں: سبط اکبر، سبط اول، طیب، قائم، حجت، تقی، زکی، مجتبیٰ، وزیر، اثیر، امیر، امین، زاہد و بر، مگر سب سے زیادہ مشہور لقب "مجتبیٰ" ہے اور اپنے ماننے والوں میں آپ "کریم اہل بیت" کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ امام حسن مجتبیٰؑ کی کنیت، ابو محمد ہے۔(منتہی الآمال، ج1، ص 219) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو بہت چاہتے تھے اور آپ بچپن سے ہی نانا رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور والد امیر المومنین علی اور والدہ سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی نورانی آغوش و تربیت میں پروان چڑھے اور ایک انسان کامل کی حیثیت سے امام عادل کے طور پر پہچانے گئے۔
فضائل و مناقب:
شیعہ اور اہل سنت منابع میں امام حسنؑ کے فضائل و مناقب کے سلسلے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آپؑ اصحاب کساء میں سے تھے، جن کے متعلق آیہ تطہیر نازل ہوئی ہے، جس کی بنا پر شیعہ ان ہستیوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ آیہ اطعام، آیہ مودت اور آیہ مباہلہ بھی انہی ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ آپ نے دو دفعہ اپنی ساری دولت اور تین دقعہ اپنی دولت کا نصف حصہ خدا کی راہ میں عطا کیا۔ آپ کی اسی بخشندگی کی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیت" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، تاریخ میں دسترخوان امام حسن ؑ بہت معروف ہے۔ مسجد نبوی میں وہ مقام موجود ہے، جہاں آپ کا دسترخوان مسکینوں، محتاجوں اور مسافروں کیلئے ہمہ وقت آباد رہتا تھا۔ آپ نے 20 یا 25 بار پیدل حج کیا۔ امام حسن و امام حسین علیہما السلام کے فضائل و مناقب تمام محدثین اور مفسرین نے نقل کئے ہیں۔ جن کی تفصیل کتب حدیث و تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں فضائل و مناقب کے اس سمندر میں سے چند قطرے پیش کئے جاتے ہیں۔ اب ہم چند نمایاں عناوین کے تحت ان دونوں شہزادوں کے فضائل ومناقب پیش کرتے ہیں۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا نسب:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث کے ذریعے اپنے نور چشم حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی فضیلت یوں بیان فرمائی ہے۔ فرمایا: "البتہ، حسن میرا فرزند اور بیٹا ہے، وہ میرا نور چشم ہے، میرے دل کا سرور اور میرا ثمرہ ہے، وہ بہشت کے جوانوں کا سردار ہے اور امت پر خدا کی حجت ہے۔ اس کا حکم میرا حکم ہے، اس کی بات میری بات ہے، جس نے اس کی پیروی کی، اس نے میری پیروی کی ہے، جس نے اس کی مخالفت کی، اس نے میری مخالفت کی ہے۔ میں جب اس کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے بعد اسے کیسے کمزور کریں گے، اس یاد میں کھو جاتا ہوں؛ جبکہ یہ اسی حالت میں اپنی ذمہ داری نبھاتا رہے گا، جب تک کہ اسے ستم و دشمنی سے زہر دے کر شہید کیا جائے گا۔ اس وقت آسمان کے ملائک اس پر عزاداری کریں گے۔ اسی طرح زمین کی ہر چیز از جملہ آسمان کے پرندے، دریائوں اور سمندروں کی مچھلیاں اس پر عزاداری کریں گے۔" (بحارالانوار، ج44، ص 148)
پیغمبر اکرم ؐ آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے:
کئی ایک احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا اپنے نواسے حسن بن علیؑ کو بہت چاہتے تھے۔ منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ امام حسنؑ کو اپنے کاندھوں پر سوار کرکے فرماتے تھے: "خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں، پس تو بھی اسے دوست رکھ۔" بعض اوقات جب پیغمبر اکرمؐ نماز جماعت میں سجدہ میں چلے جاتے تو امام حسنؑ حضورؐ کی پشت پر سوار ہوتے تھے، اس وقت پیغمبر اکرمؐ اس وقت تک سجدے سے سر نہیں اٹھاتے تھے، جب تک امام حسنؑ خود آپؐ کی پشت سے نیچے نہ اترتے، جب صحابہ سجدوں کے طولانی ہونے کے بارے میں پوچھتے تھے تو حضورؐ فرماتے تھے کہ میں چاہتا تھا کہ حسن خود اپنی مرضی سے میری پشت سے نیچے اتر آئے۔ فرائد السمطین نامی کتاب میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ آپ کے بارے میں فرماتے تھے: "وہ بہشت کے جوانوں کے سردار اور میری امت پر خدا کی حجت ہیں۔۔۔۔ جو بھی ان کی پیروی کرے گا، وہ مجھ سے ہے اور جو اس سے روگردانی کرے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔"
حسنین شریفین پر صدقہ حرام ہے:
"عن ابی ہریرہ؛ قال: کان رسول (ص) اللہ یوتی بالتمر عند صِرام النخل، فیجی ہذا بتمر ،وہذا من تمرہ، حتی یصیر عندہ کوما من تمر، فجعل الحسن(ع) والحسین(ع) یلعبان بذالک التمر، فاخذ احدہما تمر، فجعلہ فی فیہ، فنظر الیہ رسول(ص) اللہ(ص)، فاخرجہا من فیہ، فقال: اما علِمت ان آل محمد لایاکلون الصدقہ؟! یعنی: "امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے: "جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ہو جاتا تھا تو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں خرمہ لے کر آئے، جن کا ایک ڈھیر لگ گیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رہے تھے، ایک روز ان دونوں شہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دہن مبارک میں رکھ لیا! جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دہن سے باہر نکال دیا اور فرمایا: اما علِمت ان آل محمد لایاکلون الصدقہ۔؟ اے میرے لال! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آل محمد پر صدقہ حرام ہے، وہ صدقہ نہیں کھاتے؟!"
اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسن علیہ السلام سے یوں منسوب کی ہے: "ان الحسن بن علی اخذ تمرمن تمر الصدق، فجعلہا فی فیہ، فقال النبی(ص): کخ کخ لیطرحہا، ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقہ۔"[3] یعنی: "ایک مرتبہ امام حسن بن علی (علیہماالسلام) نے صدقہ کا خرمہ منہ میں رکھ لیا تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہ، نہ، چنانچہ امام حسن (ع) نے خرمہ کو منہ سے باہر نکال دیا، اس وقت رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اے میرے لال! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صدقہ حرام ہے۔؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر