انسان کے ذھن میں اٹھنے والے سوالوں میں سے ایک اھم سوال یہ تھا کہ روزہ کے وقت انسان شدید پابندی کی حالت میں ھوتا ھے اور یہ درست بھی ھے لیکن یہ بھی درست ھے کہ انسان کو بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ پابندیاں اگر چہ سخت ھوتی ھیں لیکن بغیر پابندی کے کوئی ھدف اور کمال قابل حصول نھیں ھے ۔
ایک طالب علم ، دانشمند اور فنکار کو اپنے بلند اھداف تک پھونچنے کے لئے اپنے اوپر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں جنمیں سر فھرست وقت کی پابندی ھے ۔اس کے علاوہ بھت سی حلال چیزیں اپنے اوپر حرام کرنی پڑتی ھیں ورنہ کامیابی حاصل نھیں ھوتی ۔
خاندان ، قبیلہ ،شھر ، ملک اور دنیا کو ھرج و مرج سے بچانے کے لئے انسان کو اپنے اوپر خاندانی ، قبائلی ، شھری ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی پابندیاں عائد کرنی پڑتی ھیں ۔ اسی طرح دین و شریعت اور انکے احکام بھی ایک پابندی ھیں جنکے دو ھدف ھیں :
۱۔ انسان کو فردی و نفسیاتی مشکلات اور اجتماعی ھرج ومرج سے محفوظ رکھنا ۔
۲۔ انسان کے اندر مادی و معنوی ،جسمانی و روحانی اور فردی و اجتماعی تکامل پیدا کرنا ۔
روزہ بھی دیگر احکام دین کی طرح ایک پابندی ضرور ھے لیکن ایک ایسی پابندی جو ایک طرف انسان کے اندر تکامل پیدا کرتی ھے اور دوسری طرف اسکو بھت سے نقائص ،رذائل اور شھوات کے زندان سے آزاد کر دیتی ھے ۔
انسان کےلئے سب سے محکم زندان خود اسکے نفسانی ھویٰ و ھوس اور خواھشات ھیں اور حقیقت میں آزاد انسان وہ ھے جس نے اپنے آپ کو اس زندان سے آزاد کر لیا ھو۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں : ” مَنْ تَرَکَ الشَّھوَاتِ کَانَ حُرّاً“
جو اپنی خواھشات کو ترک کرنے میں کامیاب ھو جائے وہ ایک آزاد انسان ھے-
اورروزہ اپنے اسرار کے ساتھ رکھا جائے تو اسکا سب سے بڑا اثر یہ ھے کہ وہ انسان کو نفسانی خواھشات سے آزاد کر کے بلند اھداف کی طرف متوجہ کر دیتا ھے ۔