علم، حلم، جلالت اور کرامت میں عکس رسول اکرم (ص) واضح طور پر نظر آتا ہے، علامہ ساجد نقوی
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائم مقام سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ نواسہ رسول اکرم (ص) حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح عالم اسلام کے لئے نقطہ آغاز کا مقام رکھتی ہے جس سے سبق حاصل کرکے مسلمان انتشار و افتراق، جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اتحاد و اخوت اور وحدت کے ذریعے پاکستان و عالم اسلام انتشار و افتراق سے بچ سکتا ہے اور امہ اخوت کی لڑی میں پروئی جاسکتی ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ اختلافات کو جڑوں سے اکھاڑنے اور مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے باہمی صلح و رواداری کو فروغ دیا جائے۔
نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسن (ع) کی ولادت باسعادت کے موقع پر افطار پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن (ع) نے جن مشکل، کٹھن اور سنگین حالات میں امت مسلمہ کو جنگ اور فساد سے بچانے اور اسلام کی بقاء کے لئے اپنے حریف سے صلح کی، یہ ان کے کردار کی خصوصیت اور سیرت کا امتیاز ہے۔ تنگ نظری، ذاتی خواہش اور انفرادی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے حصول اور اسلام کے استحکام کے لئے باہمی رواداری اور صلح و محبت کا ماحول بناکر آپ نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ امام حسن علیہ السلام جوانان جنت کے سردار ہیں۔ آپ کے علم، حلم، جلالت اور کرامت میں عکس رسول اکرمؐ واضح طور پر نظر آتا ہے۔ آپ وارث علی (ع) و نبی (ص) ہونے کے ناطے حضرت علی علیہ السلام کے بعد امامت کا درجہ رکھتے ہیں، آپ نے جس انداز میں ظاہری زندگی بسر فرمائی اور امن و اخوت اور صلح و محبت کی لاثانی روایات قائم کیں، ان سے سیرت رسول (ص) کی عکاسی ہوتی ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ جس طرح نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسن (ع) نے اپنے حریف سے تاریخی صلح کرکے اسلام اور امت مسلمہ کو انتشار سے بچالیا، اسی طرح اتحاد و اخوت اور وحدت کے ذریعے پاکستان و عالم اسلام انتشار و افتراق سے بچ سکتا ہے اور امہ اخوت کی لڑی میں پروئی جاسکتی ہے۔
علامہ ساجد نقوی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج کے اس کٹھن دور میں جب مسلمان فرقہ واریت، مسلک پرستی، دہشت گردی اور اخلاقی جرائم میں مبتلا ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے اور اختلافات کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے باہمی صلح و رواداری کو فروغ دیا جائے اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے سینکڑوں مشترکات پر بلاتفریق فرقہ و مسلک جمع ہوکر اسلام و مسلمین کو متحد کیا جائے، اسی سے دین اسلام کو مستحکم ہوگا اور مسلمان خدا کی دنیا کے وارث ہوں گے۔