۲۰۱۵/۰۴/۱۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کو افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان بہت زيادہ تاریخی ، ثقافتی مشترکات و ارتباطات نیز اسلامی معارف اور فارسی زبان کے رشد و فروغ میں افغانستان کے علماء اور ادباء کے نقش کو بہت ممتاز قراردیتے ہوئے فرمایا: افغانستان ، انسانی و ثقافتی وسائل کے علاوہ قدرتی وسائل سے بھی سرشار ہے، اور ان تمام ظرفیتوں اور مشترکات کے ذریعہ دونوں ممالک کے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں استفادہ کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران و افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کے لئےٹھوس عزم و ارادہ کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں اور بعض علاقائی ممالک کو افغانستان کی ظرفیتوں کا علم نہیں ہے اوروہ دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور ہمدلی کے حق میں بھی نہیں ہیں لیکن ایران اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کی پیشرفت اور سلامتی کو اپنی پیشرفت اور سلامتی سمجھتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور سفارتی اور ثقافتی شعبوں میں ایران کی بیشمار ترقیات و تجربات کو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو ہموار کرنے کی راہیں شمار کرتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان مہاجرین، پانی، حمل و نقل اور سکیورٹی کے تمام مسائل قابل حل ہیں اور ان تمام مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ ایک مقررہ وقت کے اندر جائزہ لیکر حل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مہاجرین کے اہم مسئلہ کو حل کرنے اور ایران کے مختلف مدارس میں ہزاروں افغان مہاجرین کی تحصیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: افغانستان کے عوام بہت بڑی استعداد ، صلاحیت اور ذہانت کے مالک ہیں اور علم کے حصول میں اس استعداد سے درست اور بھر پور استفادہ کرنا چاہیےکیونکہ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے تعلیم یافتہ افغانیوں کی بہت زيادہ ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تہران کو افغانی بھائیوں کا گھر قراردیا اور ہمسایہ حکومت کے ساتھ پائدار دوستی اور ارتباطات کی طرف اشارہ کیا اورافغان حکومت اور قوم کی اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کی توقع ظاہر کی ۔
اس ملاقات میں صدر روحانی بھی موجود تھے، افغانستان کے صدرجناب محمد اشرف غنی نے اپنے تہران کے سفر پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور ایران و افغانستان کے درمیان قدیم و عمیق تاریخی اور ثقافتی روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارا مقصد یہ ہے کہ افغانستان علاقہ میں ایک مواصلاتی مرکز میں تبدیل ہوجائے اور علاقہ میں ارتباطات کے چوراہے کے عنوان سے اپنا سابقہ تشخص بحال کرلے۔
افغانستان کے صدر نے ایران اور افغانستان کو در پیش مشترکہ خطرات اور مشترکہ مواقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا: ہمارا سیاسی عزم دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر استوار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اور مثبت نقاط کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔
افغان صدر نے افغان حکومت کی پالیسیوں کو اندرونی کشیدگی اور جھگڑوں کو باہمی تعاون میں تبدیل کرنے پر استوار قراردیا اور دوطرفہ روابط کے سلسلے میں دہشت گردی، منشیات، مہاجرین ، سرحدی پانیوں جیسی مشکلات اور مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو دونوں حکومت کے سیاسی عزم کے ساتھ شیڈول کے مطابق حل و فصل اور جس کا منصوبہ اس سفر میں طے کیا جائے گا ۔
جناب اشرف غنی نےمنشیات کی اسمگلنگ کے مسئلہ میں ایران کے سب سے زیادہ نقصان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمسایہ ممالک میں سے کسی نے بھی مشیات کے خطرے کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جتنا ایران نے لیا ہے اور ایران کی طرح کسی بھی ملک نے اس کا مقابلہ نہیں کیا ہے اور میں آیا ہوں تاکہ ایران کے ساتھ ملکر منشیات جیسی تباہ کن بلا کا مقابلہ کروں ۔
افغانستان کے صدر نے حمل و نقل، سرمایہ کاری ، ثقافتی اور اقتصادی تعاون کے سلسلے میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے فروغ کی طرف اشارہ اور رہبر معظم انقلاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ایران نے آپ کی دانشمندانہ زعامت اور قیادت کے سائے میں اپنے تاریخی تشخص کو مضبوط بنالیا، اورہمیں آپ کی خردمندانہ اور دانشمندانہ رہبری اور زعامت کے سائے میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے فروغ کی توقع ہے۔