۲۰۱۵/۰۵/۲۷ – رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں نویں پارلیمنٹ کی باقی ماندہ ایک سال کی مدت میں سنجیدہ تلاش و کوشش جاری رکھنے اور انتخابات کے عوامل سے متاثر نہ ہونے ، حکومت اور دیگر قوا کے ساتھ تعاون و تعامل ، سن 1395 کے بجٹ اور چھٹےمنصوبے کے قانون کا جائزہ لینے کے سلسلے میں پائدار و مزاحمتی اقتصاد پر اہتمام اور انقلاب و نظام کے اصلی اصولوں پر استقامت کو پارلیمنٹ کے نمائندوں کی اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کی اقتصادی مشلات کے حل کی اصلی کلید ، اسی طرح ایٹمی معاملہ کو حل کرنے کی اصلی کنجی اندرونی ظرفیتوں اور مزاحمتی اقتصاد پر اعتماد اور تکیہ پر مبنی ہے۔ ملک میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے، مشکلات کا راہ حل اور راہ علاج اندرونی پیداوار کی تقویت اور مالی نظم و ضبط کی رعایت پر استوار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں نویں پارلیمنٹ کے نمائندوں کے اچھے اقدامات اور گوششوں کی تعریف اور قدردانی کی اورپارلیمنٹ میں نمائندگی کی ایک سال کی باقی ماندہ مدت کو غنیمت موقع شمار کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ہوشیار رہیں اورباقی ماندہ ایک سال کی مدت میں انتخابات کی فضا آپ کی رفتار اور گفتارپر اثرانداز نہ ہونے پائے اور صرف حق کو معیار قراردیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کو چھٹے منصوبے پر مکمل توجہ مبذول کرنے اورقانون کے جائزے میں نمائندوں کو ذمہ داری کے آخری سال میں سستی اور غفلت سے دور رہنے کی سفارش کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: چھٹے منصوبے کا قانون بہت ہی اہم ہے کیونکہ حکومتیں اس کے اجراء کی پابند ہوں گی اور عوام کی زندگی بھی اس قانون کے زیر اثر قرار پائے گي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کو حکومت کے ساتھ تعاون و تعامل کے بارے میں تیسری سفارش کرتے ہوئے فرمایا: حکومت دیگر قوا اور اداروں کے درمیان میں واقع ہے اور اس کی کارکردگی کے دیگر اداروں کی حرکت و پیشرفت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ، لہذا حکومت کے ساتھ تعامل اور تعاون بہت ضروری ہے اور یہ تعاون ہمدلی اور ہمزبانی کا حقیقی مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حسن ظن کو تعامل کی ایک شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: سؤ ظن ، سازش ، خیانت اور دوسرے سے سؤ استفادہ کرنے کے ذریعہ تعامل حاصل نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ہی حسن ظن دھوکہ کھانے اور خوش فہمی کے معنی میں بھی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تعامل اور اکراہ کے درمیان فرق پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تعامل میں ملکی مفادات اور قانونی ذمہ داری نمائندوں اور وزراء کے پیش نظر رہنی چاہیے نہ ایکدوسرے کی غلط حمایت اور اکراہ و اجبار پر توجہ مبذول نہیں کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کمیشنوں میں وزراء کے ساتھ ادب و احترام پر مبنی رفتار کو تعامل کا ایک لازمی حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: نہ نمائندوں کو توہین آمیز رفتار رکھنی چاہیے اور نہ ہی حکومت اور وزراء کو سلطنت مآبانہ رفتار رکھنی چاہیے اور تمام موارد میں ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی نمائندوں کو چوتھی سفارش مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد کے سلسلے میں تھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں ایک باریک اور ظریف نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں مزاحمتی اقتصاد کے بارے میں ہمزبانی پائی جاتی ہے لیکن اس سلسلے میں ہمدلی بھی ہونی چاہیے اورہمیں گہرائی کے ساتھ مزاحمتی اقتصاد پر یقین رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے داخلی پیداوار کی تقویت کو ملک کی مشکلات کے حل کرنے کی اصلی کلید قراردیا اور پارلیمنٹ میں پیداوار کی راہ میں رکاوٹ دور کرنے کے سلسلے میں قانون کی منظور کی تعریف اور قدردانی کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم پیداوار کو تقویت پہنچائیں اور اندرونی ظرفیتوں سے بھر پوراستفادہ کریں تو ایٹمی معاملے جیسے بیرونی مسائل بھی آسانی کے ساتھ حل ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی مسئلہ کے لئے بہت سے راہ حل موجود ہیں جو سب کے سب داخلی پیداوار کی تقویت اور اندرونی ظرفیتوں سے استفادہ سے منسلک ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ایٹمی مسئلہ کے علاوہ ہمیں جو مسائل امریکہ، مغربی ممالک اور صہیونیوں سے درپیش ہیں ان میں دوسرے مسائل کے علاوہ انسانی حقوق جیسے مسائل بھی موجود ہیں لیکن اگر ہم اپنی داخلی صلاحیتوں پر تکیہ کرتے ہوئے اندرونی مشکلات کو حل کرلیں گے تو ان مسائل کا حل بھی آسان ہوجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمانی نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اسی بنیاد پر چھٹے منصوبے کے قانون کا جائزہ اور آئندہ سال کے بجٹ کے سلسلے میں مزاحمتی اقتصاد پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس میں موجود خامیوں کو دور کرنا چاہیے۔