اسلام ٹایمز نے گفتگو میں مولانا شیرانی نے ریاستی پالیسی پر اعتراض کرتے ہویے کہا کہ ہر واقعہ کے بعد کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بیرونی سازش ہے، حقیقت میں پاکستان کا دشمن سرحد سے باہر نہیں بلکہ پاکستان کے اندر ہے، ہمارے دفاعی اداروں کو چاہئے کہ وہ قوم کے سامنے یہ واضاحت کریں کہ یہ تخریب کاری اور دہشت گردی کے پشت پر ہیں یا خاموش تماشائی کا روپ دھار چکے ہیں۔ جب تک ہم اس حقیقت کو نہیں مانتے، اسوقت تک دہشت گردی پر قابو کیسے پا سکتے ہیں۔ اگر یہ کسی بیرونی طاقت کا ایجنڈا ہے، تب بھی یہ ذمہ داری تو ریاستی اداروں کی ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو تحفظ فراہم کریں۔ بیرونی طاقتیں ازل سے مسلمانوں کی اور پاکستان کی دشمن ہیں، لیکن ہماری اپنی کوتاہیوں سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے، اندرونی کمزوریوں کو دور کئے بغیر کیسے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، سب سے بڑی ذمہ داری ریاست اور حکومت کی ہے، اصل مسئلے کی جڑ بھی وہیں پر ہے۔ اندرونی یا بیرونی قوتوں کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ مذہبی نوجوانوں کو اشتعال دلا کر ریاست کے سامنے لایا جائے، مگر ہم پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، مستونگ جیسے واقعات سے ہمارا مشن اور راستہ تبدیل نہیں ہوسکتا، ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ملک میں جائز حکمرانی اور امن کیلئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور ہم کامیاب ہونگے۔
شیرانی نے مزید کہا کہ امریکہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے دنیا پر جنگ مسلط کرنا اپنی ضرورت سمجھتا ہے۔ یہ چوتھی عالمی جنگ ہے، یہ جنگ امریکہ کی جانب سے مسلط کردہ ہے، پینٹاگان کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے دنیا پر جنگ مسلط کرنا اپنی ضرورت سمجھتا ہے، دوسری بات یہ ان کے ذہنوں میں یہ ہے کہ اگر امریکہ دنیا کو فتح نہ کرسکے تو امریکن چلتی پھرتی لاشیں ہونگے۔ اگر دنیا میں کوئی بھی ملک اپنے مسائل کا حل خود طے کرے تو وہ ملک امریکہ کا دشمن ہوگا۔ اب بھی امریکہ نے پاکستان کو براہ راست تو نہیں لیکن پوشیدہ لفظوں میں دھمکی دی ہے، اس سے لگتا ہے کہ پاک چین راہداری کیوجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ راہداری کی موجودگی میں دہشت گردوں کے مختلف گروپوں کو پاکستان میں سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈ نکالنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی