نوبل پرائز لینے والی کے اشارے پر مسلمانوں کا قتل عام

Rate this item
(0 votes)
نوبل پرائز لینے والی کے اشارے پر مسلمانوں کا قتل عام

ایک عرصے سے میانمار میں مسلم نسل کشی ہورہی ہے مگر انسانی حقوق کی تنظمیں اب تک راہ حل نہیں نکال سکی ہیں

نیوز ایجنسی «Carbonated TV» نے میانمار حکومت کو اس بات پرتنقید کانشانہ بنایا ہے کہ اگر چھپانے کی کوئی چیز نہیں تو انسانی حقوق کی تنظیموں کو دورہ کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی۔

کیوں «آنگ سان سوچی» نوبل پرایز جیتنے کے دعوے دار بھی اس بات پر خاموش ہے ؟

سال ۲۰۱۲ کو فوجی حکومت کے خاتمے اور ڈیموکریسی کے بعد امید پیدا ہوگیی تھی کہ اب یہاں ظلم و ستم کا سلسلہ روک جایے گا مگر ایسا ہوا نہیں ۔

سوچی کے آنے کے بعد لوگ امید وار ہوگیے تھے کہ ظلم وستم میں کمی آیے گی مگر کچھ بھی نہیں بدلا اور سوچی نے بھی شدت پسندی میں کمی کے لیے کچھ نہ کیا ۔

لوگ سمجھ چکے ہیں کہ بودھ مذہب کے لوگوں کا اثر و رسوخ حکومت میں بہت زیادہ ہے اور پندرہ سال انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سوچی بھی اس دباو میں آتے ہوئے نظر آنے لگی ہے

ماہرین کے مطابق لگتا یہی ہے کہ وہ بھی اس ظلم و ستم میں شامل ہوچکی ہے کیونکہ انکی حکومت میں انسانی حقوق کے گروپوں کو دورے کی اجازت نہ ملنا اہم سوال اٹھاتا ہے؟

میانمار کے وزیر خارجہ «کیاو زیا» نے حکومتی موقف کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں کہ ہیومن رایٹس کی تنظیموں کو دورے کی اجازت دی جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اس نتیجے تک پہنچ چکی ہیں کہ میانمار میں مسلمان نسل کشی کا شکار ہے مگر تمام تر رپووٹوں کو مسترد کرتے ہوئے میانمار کی حکومت اور سوچی اب تک ان تنظیموں کو دورے کی اجازت نہیں دے رہی اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا سوچی کو نوبل پرایز دینے میں غلطی نہیں ہوئی ہے ؟؟ کیا وہ اس قابل تھی کہ انہیں اس ایوارڈ کے لیے منتخب کی جاتی ؟

 

Read 1405 times