ویسے تو امام خامنہ ای نے آج سے چند برس قبل اسرائیل کے وجود کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی ڈیڈ لائن دی تھی اور اس دن سے اہل ایمان و ایران و لبنان نے اسرائیل کا کائونٹ ڈائون شروع کر دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس دن ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور حضرت امام خمینی کی رہبری میں علماء کی قیادت میں ایک اسلامی نظام قائم ہوگیا، اسی دن سے اسرائیل کے دن گھٹنے شروع ہوگئے تھے، سب سے پہلے اسرائیل کی سفارت جو تہران میں قائم تھی، اس کو بند کر دیا گیا اور اسے پی ایل او کو دے دیا گیا، جس کی سربراہی یاسر عرفات کے پاس تھی، حالانکہ ایران میں یہودیوں کی اچھی تعداد (دیگر کئی ممالک کی بہ نسبت) رہتی ہے۔ اس کے بعد انقلابی اسلامی حکومت کی سربراہی میں پوری دنیا میں جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس کے طور پہ منانے کا اعلان ہوگیا، امام خمینی نے فرمایا کہ جمعة الوداع یوم الاسلام اور یوم اللہ ہے، اس دن اپنی طاقت و قوت کا اظہار کیجئے اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گھروں سے باہر نکلیں، حتیٰ کہ اگر کوئی یوم القدس نہیں مناتا تو واجب ترک کرتا ہے۔
انہوں نے انقلاب سے بھی پہلے فلسطینیوں کی مدد کا اعلان کیا تھا، ۱۹۶۸ء میں ایک انٹرویو میں آپ نے فرمایا کہ کہ زکات کا ایک حصہ فلسطینی مجاہدین کیلئے مختص کرنا چاہیئے، انقلاب کی کامیابی کے بعد تو امام خمینی نے فلسطینیوں کی ہر قسم کی مدد شروع کی اور اسلامی دنیا کو دعوت دی کہ ارض مقدس کی بازیابی کیلئے باہر نکلیں اور خدا پر توکل کریں، نہ کہ استکباری حکمرانوں پہ۔ امام خمینی نے برملا کہا کہ بیت المقدس کی آزادی صرف مسلح جہاد سے ہی ممکن ہے اور مسلمان اگر ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیلی سرحد پر ڈال دیں تو اسرائیل اس میں ڈوب جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ اسرائیل کا ناجائز وجود امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کینسر کا ایسا جرثومہ ہے، جسے جسم سے الگ کئے بنا امت مسلمہ کے جسم سے بیماری خاتمہ ممکن نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل روز بروز مقبوضہ علاقوں میں امریکہ اور اپنے دیگر سرپرستوں کی ہلہ شیری سے نئی نئی بستیاں بنا رہا ہے اور اس مقدس سرزمین کے اصل وارثوں کو بے دخل کر رہا ہے، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے تاراج کیا جاتا ہے، انہیں قید و بند کی صعوبتیں دی جاتی ہیں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں سب کو بلا تمیز تشدد اور ظلم و ستم کا شکار کیا جاتا ہے، حقوق انسانی کے عالمی ٹھیکیداروں اور اقوام متحدہ سمیت اسرائیل کی تمام بدمعاشیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور مظالم کا یہ سلسلہ گذشتہ ستر سال سے زائد عرصہ ہوا جاری ہیں، ان میں روزانہ اضافہ ہوتا ہے، شقاوت و قساوت اور بے رحمی کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے سید حسن نصراللہ نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے، ایسا ہی ہے، ایک طرف فلسطین کی کئی نسلیں تباہی و بربادی کے یہ مناظر دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہیں اور دوسری طرف بزدل یہودی ہیں، جو ایک دو راکٹ گرنے پہ ہی تہہ خانوں میں چھپ جاتے ہیں، جبکہ فلسطینیوں نے موت کی آغوش میں، گولیوں اور بم دھماکوں کی گھن گرج میں جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ انہیں کچھ کھو جانے کا خوف نہیں جبکہ سنہرے خواب دکھا کر فلسطین میں دنیا بھر سے لائے گئے یہودیوں کیلئے ہنگامی صورتحال میں جینا مشکل ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوم القدس کو عالمی سطح پر منانے سے مظلوم فلسطینیوں کو نئی روح مل جاتی ہے اور مجاہدین کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، وہیں یہودیوں کیلئے یہ دن موت کا پیغام لاتا ہے کہ اس دن امت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کا عہد کرتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے مقدس مقام کو واپس لیکر رہیں گے، چاہے اس کیلئے جتنی مرضی قربانیاں دینا پڑیں۔
اس وقت یوم القدس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، اس لئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر جو یہودی ہیں، اس نے عرب خائنین کیساتھ مل کر سینچری ڈیل کے نام سے ایسا منصوبہ تیار کیا ہے، جسے قبول کرنے سے اسرائیل کو مزید کھلی چھٹی مل جائے گی اور فلسطینی بہت ہی محدود ہو جائیں گے۔ اگرچہ اس منصوبے کی تمام باتیں اور جزئیات ابھی سامنے نہیں آئیں، چند نکات مختلف اطراف سے ذکر ہو رہے ہیں اور اگلے ماہ بحرین میں اس حوالے ایک کانفرنس ہونے جا رہی ہے، جس میں یہ منصوبہ یعنی سینچری ڈیل منظور کی جانے کی توقع ہے۔ اس حوالے سے اہل فلسطین نے اس ڈیل کو یکسر مسترد کر دیا ہے، فلسطین کی تحریک مقاومت حماس، جہاد اسلامی کے علاوہ کئی دیگر گروہوں اور فلسطین کی موجودہ اتھارٹی نے بھی اسے ماننے سے انکار کیا ہے۔
ان حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک دن کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور یک زبان ہو کر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صدا بلند کرے، تاکہ عالمی اداروں اور خائنین ملت کو علم ہو جائے کہ وہ کسی بھی صورت ایسے کسی منصوبے کو قبول نہیں کروا سکتے، جو فلسطینیوں کے بنیادی ترین حقوق کی پائمالی اور ان کی مقدس سرزمین سے علیحدگی کا باعث ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ فلسطین کی جہادی و مزاحمتی جماعتیں اس وقت ایک صفحہ پر ہیں اور اسرائیل کو سبق سکھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھی ہیں۔ چند ماہ پہلے ہی حماس نے اسرائیلی شہروں پر سینکڑوں میزائل داغ کر ہلچل مچا دی تھی۔ اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ حماس و جہاد اسلامی کو ایران اسلحہ و امداد دے رہا ہے، ایران نے کبھی اس کی تردید نہیں کی بلکہ رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے برملا فلسطینیوں کی مدد کا اعلان کر رکھا ہے، جو جاری رہتی ہے۔
امریکہ نے ایران کے ساتھ گذشتہ چالیس سال سے مخاصمت اور دشمنی کا رویہ اگر اپنا رکھا ہے تو اس میں سب سے اہم ترین مسئلہ یہی بیت المقدس کا ہے، جس کے قبضے کو اہل ایران کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ایران فلسطینی مسئلہ سے دستبردار ہو جاتا تو اس کی تمام مشکلات ختم ہو جاتیں، پھر شام و عراق میں داعش یا القاعدہ کا وجود بھی نہیں ہوتا اور شام کی جو تباہی ہوئی، وہ بھی نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے قضیئے کے پس پردہ اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانا تھا، جس میں امریکہ کی جان ہے، مگر سب جانتے ہیں اور اب خود امریکی بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ انہیں ایران نے بدترین شکست سے دوچار کیا ہے، جو مقصد یہ رکھتے تھے، اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ شام میں حکومت کی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے رخصت ہوگئے، عراق کے مقدس مقامات کو تاراج کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے آج جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
اسرائیل جسے مضبوط اور اس کے دفاع کو یقینی و فول پروف بنانے کیلئے یہ سارا گیم پلان بنایا گیا تھا، آج شکست خوردہ اور خوف سے مرا جا رہا ہے، پہلے تو آئے روز ایران پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتیں تھیں، اب اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے سازشی کھیل کھیلنے جا رہے ہیں اور امت مسلمہ کے خائنین کو ساتھ ملا کے سینچری ڈیل کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی ناکام کی جا رہی ہے، شام و عراق سے مقاومت اسلامی کے بلاک نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، انکا اگلا نتیجہ اسرائیل کے کائونٹ ڈائون کی طرف بڑھنا ہے، ہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ ہماری نسل کو وہ دن دیکھنا نصیب ہونگے، جب اسرائیل کا نجس وجود اس پاک و مقدس سرزمین سے مٹا دیا جائیگا۔ ان شاء اللہ
تحریر ارشاد حسین ناصر
کیا اسرائیل سچ میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا؟
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے