تکفیری افکار کی ترویج میں عالمی صہیونیت کا کردار

Rate this item
(1 Vote)
تکفیری افکار کی ترویج میں عالمی صہیونیت کا کردار

وہابی اور تکفیری افکار اور گروہوں کو وجود میں لانے اور انہیں شیعت کے خلاف استعمال کرنے میں عالمی صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں حجت الاسلام و المسلمین حدادپور جہرمی کے ساتھ خیبر ویب گاہ کے نمائندے نے ایک گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: وہابیت کو وجود میں لانے اور وہابی فکر کو ترویج دینے میں صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں کچھ بیان کریں۔
۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس موضوع پر ہم نے پہلے بھی گفتگو کی ہے اور اسی ویب سائٹ پر اسے شائع بھی کیا گیا میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سوال کے جواب کو پانچ حصوں میں عرض کرنا چاہوں گا۔
شیعہ سنی اتحاد استکباری طاقتوں کی سب سے بڑی پریشانی
۱۔ شیعہ سنی معاشرے پر نگاہ دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا چہرہ بہت ہی مطمئن، برادرانہ اور غیر انقلابی ہے، غیر انقلابی ہونے سے مراد ایران کا اسلامی انقلاب نہیں ہے بلکہ انقلاب سے مراد قیام اور تحریک ہے۔ اسی وجہ سے اہل سنت کبھی بھی شیعوں کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوئے۔ البتہ شیعہ و سنی علمائے دین ایک دوسرے کے ساتھ مکاتبات کرتے رہے ہیں اور یہی چیز ان دو گروہوں کے مشترکہ دشمنوں کے لیے ہمیشہ خطرے کی گھنٹی رہی ہے۔
۲۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اتحاد مشترکہ دشمن کے لئے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے لہذا دشمنوں نے اس خطرے کو دور کرنے کے لیے شیعوں اور سنیوں کے درمیان دوگروہوں کو جنم دیا تاکہ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کریں۔ شیعوں کے درمیان بہائیوں اور اہل سنت کے درمیان وہابیوں کو جنم دیا۔
وہابیت اہل سنت کا نقلی چہرہ
وہابیت در حقیقت انقلاب اور حکومت کے جذبے کے ساتھ اہل سنت کا ایک نقلی اور بناوٹی چہرہ ہے۔ لہذا نقلی چہرے نے اسلحہ اٹھایا اور حکومت کی تشکیل کے لیے جد و جہد شروع کی اور بین الاقوامی سیاسی میدان میں داخل ہوئے۔
۳۔ اہل سنت سے سامراجیت، یہودیت، عیسائیت اور صہیونیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا، ابھی بھی یہی صورتحال ہے، اور اہل سنت کی تعداد بڑھنے یا گھٹنے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہذا یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہابیت اور بہائیت کو صرف اس لیے جنم دیا گیا تاکہ شیعوں کو کمزور بنا سکیں۔ اس لیے کہ بہت سارے اہم اور موثر مفاہیم جیسے جہاد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، عدل و انصاف کا قیام، سامراجیت کا مقابلہ، انقلاب، مستضعفین کی حکومت وغیرہ سب شیعہ مکتب فکر کا حصہ ہیں۔
لہذا یہ کہنا صحیح ہے کہ وہابیت ہو یا بہائیت ہو دونوں گروہوں کو شیعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور اس مسئلے کا شیعہ سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ شیعہ سنی اتحاد طول تاریخ میں اپنی جگہ مسلّم رہا ہے اور یہ گروہ اسی اتحاد کی رسی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
وہابی طرز تفکر میں مفہوم شہادت
۴۔ دشمنوں کی کوشش رہی ہے کہ شیعت کے مقدس ترین مفاہیم جیسے شہادت میں تحریف پیدا کریں اور ان کا اصلی چہرہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ مفہوم شہادت ایسا مقدس مفہوم ہے جو استقامت، پائیداری اور انتظار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ شہادت کو دوسرے لفظوں میں شیعت کی تسبیح کے دھاگے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ تمام ائمہ طاہرین درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے ائمہ میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں اور لفظ شہید کو شیعوں کے لیے، امام علی علیہ السلام اور خصوصا امام حسین علیہ السلام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہل سنت کا فقہی مبنیٰ یہ ہو کہ شہید وہ ہوتا ہے جو میدان جنگ میں شہید ہو یا تلوار سے شہید ہو تب بھی اہل تشیع کے ائمہ ہی اس مفہوم کے مصادیق قرار پائیں گے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم شہادت اہل تشیع سے ہی مخصوص ہے۔
لیکن دشمنوں نے یہ کوشش کی کہ شہادت کے مفہوم کو عقل و منطق اور فقہی مبانی سے دور کر کے اسے دوسرے فرقوں میں بھی عام کردیں۔ نتیجہ کے طور پر ہر دھشتگرد کو، ہر طرح کے قاتلانہ حملے میں مرنے والے کو، خودکش حملہ کرنے والے کو یا اس طرح کی دھشتگردانہ کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے کو شہید کا نام دے کر اسے سعادت اور جنت کے بشارت دے دیں۔
خیبر: ان باتوں کے پیش نظر یہ بتائیں کہ عالمی صہیونیت کس حد تک شیعت کے مقدسات کا چہرہ بگاڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟
۔ عالمی صہیونیت نے شیعت کے مقدس مفاہیم کو بگاڑنے کی بہت کوشش کی لیکن جتنی انہوں نے کوشش کی اتنا کامیاب نہیں ہوئے آپ اسی مفہوم شہادت کو لے لیں انہوں نے کتنی کوشش کی کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیریوں کو شہید کا لقب دیں اور اس مقدس مفہوم کا چہرہ مسخ کر دیں۔ لیکن میں پوری تحقیق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ صرف چند ایک وہابی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیری شہید ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے اکثر بزرگ علما کا ماننا ہے کہ ان لوگوں کا خون رائیگاں گیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کوئی شیعہ عالم دین تکفیریوں کے مقابلے میں جانیں قربان کرنے والے شیعہ مجاہدوں کے خون کے رائیگاں جانے کا قائل نہیں ہے بلکہ سب کا ان کی شہادت پر اتفاق ہے۔
حقیقی تشیع کو مٹانے کے لیے تکفیری تشیع کے ایجاد کی کوشش
۵۔ پانچویں اور آخری بات جو گفتگو کا ایک نیا باب ہے اور اس موضوع پر مستقل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت دقیق معلومات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل میں کچھ ایسے دینی مدارس اور تحقیقی مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ تشیع کے نام سے ایک نیا فرقہ وجود میں لایا جائے۔
اس لیے کہ اہل سنت کے اندر وہابیت اور اہل تشیع کے اندر بہائیت جیسے فرقے پیدا کر کے وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے اور ان منصوبوں میں دشمن بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں لیکن اب جو فرقہ ایجاد کیا جا رہا ہے وہ تکفیری تشیع کا ہے افراطی تشیع کا ہے، یعنی شیعت کے اندر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو عقلانیت سے دور ہو اور احساسات و جذبات کی بنا پر انتہا پسندی کی جانب آگے بڑھے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہے کہ فرقہ یمانی، فرقہ سرخی اور فرقہ شیرازی انہیں کوششوں کا نتیجہ اور انہیں مراکز کی پیداوار ہیں۔
یمانی، سرخی اور شیرازی فرقے عالمی صہیونیت کے تازہ ترین ہتھکنڈے
حال حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان تین فرقوں نے پوری ہم آہنگی کے ساتھ تین الگ الگ جگہوں پر اپنی سرگرمیاں شروع کر لی ہیں، فرقہ سرخی نے عراق میں، فرقہ یمانی نے ایران میں اور فرقہ شیرازی نے یورپ اور کچھ مرکزی شہروں جیسے قم، مشہد، کربلا اور نجف میں۔
آج دشمن ان تین فرقوں کو مضبوط بنانے میں انتھک کوشش کر رہا ہے اور شیعوں کے اصلی مراکز کے اندر ان کا نفوذ پیدا کر رہا ہے یعنی ممکن ہے کہ آپ کو حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف کے اندر بھی ان افکار کے حامل لوگ مل جائیں۔
لہذا اگر ہم مذکورہ ان پانچ نکتوں کو ایک دوسرے کے کنارے رکھ کر دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ تک پہنچے گے کہ صہیونیت کے شر سے نجات اللہ کی آخری حجت کے ظہور تک ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ رہبر انقلاب اسلامی کی پیش گوئی کے مطابق صہیونیت کا اصلی گڑھ یعنی اسرائیل نابودی کی طرف گامزن ہے لیکن صہیونی فکر کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہو گا یہ جنگ امام زمانہ (عج) کے ظہور تک جاری رہے گی۔
خیبر: بہت بہت شکریہ

Read 1030 times