عرب حکمران امریکہ کے ملازم ہیں: شیخ حمود

Rate this item
(0 votes)
عرب حکمران امریکہ کے ملازم ہیں: شیخ حمود

مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین کے سربراہ کے ساتھ خیبر کی گفتگو؛
بحرین کانفرنس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ معاشی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی بحالی/ عرب حکمران امریکہ کے ملازم ہیں: شیخ حمود

۲۵ اور ۲۶ جون کو بحرین کے دار الحکومت منامہ میں امریکی صدر کے یہودی داماد کی صدارت میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کے بارے میں جتنا شور شرابا مچایا گیا تھا جتنی ایٹوٹائزمنٹ کی گئی تھی اتنا کچھ نظر نہیں آیا اور ایک لاحاصل اور بے نتیجہ نشست ثابت ہوئی۔ اس درمیان بعض بحرینی عہدیدار جیسے وزیر خارجہ “خالد بن احمد آل خلیفہ” نے امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی کرتے ہوئے فلسطینی کاز اور مسئلہ قدس کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی۔
ٹائمز آف اسرائیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا: منامہ میں اسرائیلی تاجروں، نامہ نگاروں اور رپورٹرز کا پرتباک استقبال کیا گیا اور بحرینی حکمران جہاں جہاں وہ جاتے تھے ان کی ہمراہی کرتے تھے۔
دوسری جانب بحرین کے میڈیا کنسلٹنٹ “سلمان بن احمد الخلیفہ” نے اسرائیلی نامہ نگاروں اور رپورٹرز کو ایک مرغن عشائیہ بھی کھلا دیا۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی ”برین ہوک” (Brian Hook) نے “کان” ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں عرب اور صہیونیوں کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کے بارے میں کہا: تم اپنی آنکھیں بند کر لیتے اور بحرین نشست میں عرب سربراہان کی باتوں کو غور سے سنتے تو متوجہ ہو جاتے کہ کیا ایک اسرائیلی عہدیدار گفتگو کر رہا ہے یا ایک عربی حکمران!
اسی حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے ‘مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین’ کے سربراہ شیخ “ماہر حمود” کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ اپنے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: گزشتہ ایام بحرین میں “صدی کی ڈیل” نامی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک معاشی نشست کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ نیز بحرین کے سربراہان نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی ضرورت پر تاکید کی لیکن اس کے بعد انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ آپ کا اس بارے میں کیا تجزیہ ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
۔ اس بارے میں اورعرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ تعاون کے بارے میں میرا یقین ہے کہ خلیجی عرب ریاستیں ہوں یا اطراف و اکناف کے دیگر عرب ممالک، اس طرح کے امریکی اقدامات کو روکنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جب امریکی انہیں کسی کام کا حکم دے دیں تو وہ اس پر عمل کرنے میں مجبور ہیں اس لیے کہ ان کے پاس امریکہ کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ شام اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ اکثر عرب ممالک اپنے حکمرانوں کو ‘امریکی ملازم’ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہم نے چند سال قبل قطر میں دیکھی اور دوسری مثال آج دیکھ رہے ہیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام کہتے ہیں کہ سعودی ہمارے بغیر چند روز زندہ نہیں رہ سکتے اور سعودی حکمران ان کا کوئی جواب نہیں دیتے اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ چھوٹے یا بڑے تمام ممالک کسی بھی صورت میں امریکی دستور کی مخالفت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے۔ اس نشست کے انعقاد کے لیے بحرین کا انتخاب میرے خیال میں اس لیے کیا گیا تاکہ امریکہ یہ باور کروانا چاہے کہ صرف ریاض ہی امریکہ کی کٹھ پتلی نہیں ہے بلکہ دیگر عرب ریاستیں بھی اسی کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔
خیبر: علمائے اسلام خصوصا تحریک مزاحمت کے حامی ممالک کے مفتیوں کا ایک جانب سے اور وہابی علما کا دوسری جانب سے اس نشست کے انعقاد کے حوالے سے کیا کردار رہا ہے؟
۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر علما اپنے اپنے ملکوں میں سرکاری ملازم ہیں اور اپنے حکمرانوں کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا سکتے۔ بعض دیگر بھی انہیں کا بازیچہ بنے ہوئے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کے خواھشمند ہیں اور جو وہ کہتے ہیں اسی پر قانع ہیں۔ ٹھیک فرانسوی تیونسی علما کی طرح جو اسرائیلی فوجی افسروں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتے اور بعض امور میں ان کا تعاون بھی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض علما نے صحیح اسلامی فکر سے اپنا ناطہ توڑ دیا ہے۔ چند ایک کوئی ٹھوس موقف اپنانا چاہتے ہیں لیکن توانائی نہیں رکھتے۔
خیبر: عالم اسلام، عرب اور بین الاقوامی اداروں کا ایسی نشست کے بارے میں کیا ردعمل رہا جو فلسطین کے بارے میں منعقد کی گئی لیکن کوئی ایک بھی فلسطینی اس میں حاضر نہیں تھا؟
۔ کویت، لبنان، شام اور عراق کے علاوہ کسی عرب ریاست کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس لیے کہ وہ کوئی ایسا موقف اختیار کر ہی نہیں سکتے جو امریکی صہیونی مفاد کے خلاف ہو۔ اور اگر امریکی پالیسیوں سے کنارہ گیری اختیار کریں گے تو انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اسرائیلی عہدیدار نے ایک مرتبہ یہ اعلان کیا تھا کہ ‘یہ سب عرب ذلیل ہو کر ہماری طرف پلٹیں گے’۔ اس لیے کہ امریکہ ان تمام عرب حکمرانوں کا ایک دن میں سارا تخت و تاج الٹ سکتا ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا اردن کے بادشاہ ملک عبد اللہ پہلے اس نشست میں شرکت کے مخالف تھے لیکن امریکہ نے آنکھیں دکھائیں تو فورا اپنا موقف بدل دیا۔ انسانی حقوق تنظیمیں بھی سب کی سب امریکہ اور اسرائیل کے مفاد کی راہ پر گامزن ہیں اور جب تک اسرائیل کی سالمیت محفوظ ہے یہ کوئی اعتراض نہیں سکتے۔
خیبر: منامہ نشست میں صہیونی میڈیا گروپ کی شرکت عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے میں کتنا موثر رہی؟ اور ایسے اقدامات کا کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
اس نشست کا اصلی مقصد ہی کھلے عام عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی تھا۔ اسرائیلی بھی اس نشست میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن امریکیوں نے بہتر سمجھا کہ وہ خود ہی اس نشست کی صدارت سمبھالیں اور صرف اسرائیل کے میڈیا گروہ کو دعوت دیں۔ اس نشست کا مقصد معاشی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر تعلقات کی بحالی تھی لیکن ہماری نظر میں یہ منصوبہ شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔

Read 1087 times