بسم اللّه الرحمن الرحیم
والحمد للّه رب العالمین و صلّی اللّه علی رسوله الکریم الامین، محمد خاتم النبیین، و علی آله المطهّرین سیّما بقیة اللّه فی الارضین، و علی اصحابه المنتجبین و من تبعهم باحسانٍ الی یوم الدین
حج کا موسم ہر سال امت مسلمہ کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کے نزول کی میعاد اور جلوہ گاہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد «و اذّن فی الناس بالحج» در حقیقت پوری تاریخ میں رحمت کے دسترخوان پر تمام لوگوں کو دی جانے والی دعوت ہے کہ اللہ کے متلاشی ان کے دل و جان اور تدبر کی عادی ان کی فکر و نگاہ اس کی برکتوں سے بہرہ مند ہو اور ہر سال حج کے پیغامات و تعلیمات گروہوں کی شکل میں آنے والے افراد کے ذریعے پورے عالم اسلام تک پہنچیں!
حج میں ذکر و بندگی کی اکسیر جو، شخص اور سماج کی تربیت، پیشرفت اور ارتقاء کا کلیدی عنصر ہے، اجتماع و اتحاد کے ساتھ کہ جو امت واحدہ کی تصویر ہے، نیز مرکز واحد کے ارد گرد اور ایک ہی راستے پر مشترکہ مقصد کے ساتھ نقل و حرکت کہ جو یکتا پرستی کے محور پر امت کی سعی و کوشش کی علامت ہے، اسی طرح حج ادا کرنے والے افراد میں باہمی مماثلت ہونا اور ہر امتیازی شناخت کا فقدان کہ جو تفریق کو ختم کرنے اور مواقع کو عام کرنے کی علامت ہے، اسلامی معاشرے کے اصلی ستونوں کے ایک مجموعے کو ایک چھوٹے سے مرقع میں پیش کرتا ہے۔ احرام و طواف و سعی و وقوف و رمی اور حرکت و سکون میں سے ہر ایک عمل حج میں اس پیکر تصویر کے کسی خاص حصے کی جانب اشارہ ہے کہ اسلام نے اپنے مطلوبہ اجتماع کے سلسلے میں جس کا خاکہ پیش کیا ہے۔
مختلف ملکوں اور ایک دوسرے سے دور علاقوں کے عوام کے درمیان اطلاعات و معلومات کا تبادلہ، آگاہی و تجربات کو عام کرنا، ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت، غلط فہمیوں کا ازالہ، دلوں کو قریب کرنا، مشترکہ دشمنوں کے مقابلے کے لئے توانائيوں کو مجتمع کرنا، حج کا حیاتی اور بہت بڑا ثمرہ ہے جسے عام طور پر رائج سیکڑوں کانفرنسوں سے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
اعلان برائت جو ہر زمانے کی طاغوتی طاقتوں کی ہر طرح کی بے رحمی، ستم، برائی اور بدعنوانی سے بیزاری اور مختلف ادوار کی استکباری قوتوں کی باج خواہی اور تحکمانہ روش کے مقابلے میں استقامت کے معنی میں ہے، حج کی برکتوں میں سے ایک اور مظلوم مسلمان اقوام کے لئے سنہری موقع ہے۔ آج استکباری قوتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کے کفر و شرک کے محاذ سے اعلان برائت کا مطلب مظلوم کے قتل عام اور جنگ افروزی سے بیزاری ہے، امریکی بلیک واٹر اور داعش جیسے دہشت گردی کے مراکز کی مذمت ہے، اس اعلان برائت کا مطلب بچوں کی قاتل صیہونی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں اور اس کے مددگاروں کے خلاف امت اسلامیہ کی فلک شگاف فریاد ہے، اس کا مطلب مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے حساس علاقے میں امریکہ اور اس کے حامیوں کی جنگ افروزی کی مذمت ہے جنہوں نے اقوام کے رنج و آلام کو آخری حدوں تک پہنچا دیا ہے اور آئے روز ان پر سنگین مصیبتیں مسلط کر رہے ہیں۔ اس اعلان برائت کا مطلب جغرافیائی محل وقوع یا نسل یا جلد کے رنگ کی بنیاد پر تفریق و نسل پرستی سے بیزاری ہے۔ اس اعلان برائت کا مطلب اس شرافت مندانہ، نجیبانہ اور منصفانہ روش و سلوک کے مقابلے میں جس کی اسلام دعوت عام دیتا ہے، جارح و فتنہ انگیز طاقتوں کی استکباری اور خبیثانہ روش سے بیزاری ہے۔
یہ اس حج ابراہیمی کی برکتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس کی حقیقی اسلام نے ہمیں دعوت دی ہے۔ یہ اسلامی سماج کے اعلی اہداف کے اہم حصے کا مجسم نمونہ ہے جو ہر سال مسلمان افراد کے ذریعے حج کی ہدایت کاری میں پرمغز اور عظیم منظر پیش کرتا ہے اور زبان گویا سے سب کو ایسے معاشرے کی تشکیل کی کاوش کی دعوت دیتا ہے۔
دنیائے اسلام کے دانشوروں کے دوش پر، جن کی ایک تعداد مختلف ملکوں سے آکر اس وقت حج کے اعمال میں شریک ہوئی ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ان کی بلند ہمتی اور جدت عملی کے ذریعے یہ دروس و تعلیمات تمام اقوام اور رائے عامہ تک پہنچنا چاہئیں اور ان کے ذریعے افکار، جذبات، تجربات اور آگاہی کا روحانی لین دین انجام پانا چاہئے۔
آج عالم اسلام کا ایک اہم ترین مسئلہ، مسئلہ فلسطین ہے جو کسی بھی مسلک، نسل اور زبان سے تعلق رکھنے والے تمام مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں سر فہرست ہے۔ حالیہ صدیوں کا سب سے بڑا ظلم فلسطین میں ہوا ہے۔ اس دردناک قضیئے میں ایک قوم کی سرزمین، گھر، کھیت، مال و اسباب، ناموس اور تشخص، سب کچھ چھین لیا گيا۔ توفیق خداوندی سے اس قوم نے ہار نہیں مانی، خاموش ہوکر بیٹھ نہیں گئی بلکہ وہ آج ماضی سے زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ اور زیادہ شجاعانہ انداز میں میدان میں ڈٹی ہوئی ہے، تاہم اس کے ثمر بخش ہونے کے لئے تمام مسلمانوں کا تعاون لازمی ہے۔ سنچری ڈیل کی سازش جس کی تیاریاں ظالم امریکہ اور اس کے خائن ہمنواؤں کے ہاتھوں انجام پا رہی ہیں، صرف ملت فلسطین نہیں بلکہ پورے انسانی معاشرے کے خلاف انجام دیا جانے والا جرم ہے۔ ہم دشمن کے اس مکر و سازش کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے سب کو سرگرم تعاون کی دعوت دیتے ہیں اور نصرت خداوندی سے ہم مزاحمتی محاذ کی ہمت و ایمان کے سامنے اس سازش اور استکباری محاذ کی تمام دیگر سازشوں کی شکست کو یقینی مانتے ہیں۔
قال اللّه العزیز: ام یریدون کیداً، فالذین کفروا هم المکیدون. صدق اللّه العلی العظیم. اللہ تعالی سے تمام حجاج کرام کے لئے توفیق و رحمت و عافیت اور اطاعت کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔
سیّد علی خامنه ای
14 / مرداد ماه/1398 (ہجری شمسی) مطابق 3/ذیالحجه/1440 (ہجری قمری)