عراق کے ہنگاموں میں داعشی اخلاق اور امریکی روح

Rate this item
(0 votes)
عراق کے ہنگاموں میں داعشی اخلاق اور امریکی روح

جمعرات 12 دسمبر کے دن عراق سے ایک انتہائی دلخراش خبر سننے کو ملی۔ بغداد شہر کے الوثبہ اسکوائر میں ایک 16 سالہ جوان ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے شرپسند عناصر کے ہاتھوں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا اور اس کے بعد اس کی لاش کھمبے سے لٹکا دی گئی۔ یہ خبر سوشل میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح گردش کرنے لگی۔ اس واقعے کے بارے میں عراق کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر عبدالکریم خلف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا: "اس جوان کا نام ھیثم علی اسماعیل تھا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس کے گھر سے دور چلے جائیں لیکن انہوں نے اسے بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا۔" بریگیڈیئر خلف نے کہا کہ اس درخواست کے بعد شرپسند عناصر اس جوان پر ٹوٹ پڑے اور اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کھمبے سے لٹکا دی۔ انہوں نے صرف اس حد تک اکتفا نہیں کیا بلکہ اس جوان کے گھر کو بھی نذر آتش کر ڈالا۔
 
دوسری طرف عراق کی وزارت داخلہ کے ترجمان خالد محنا نے بھی العراقیہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "وزارت داخلہ نے اس المناک واقعے سے متعلق تمام معلومات حاصل کر لی ہیں اور عدلیہ کے سپرد کر دی ہیں۔" انہوں نے اس واقعے کو وحشت ناک قرار دیتے ہوئے کہا: "قومی سطح پر اس بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے عملی اقدام انجام دینا ہو گا۔ آئندہ دنوں میں ہم مختلف شہری علاقوں میں مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کو زیادہ وسیع اختیارات سونپیں گے۔" اسی دن عراق کے دیگر شہر سامرا میں ایک دہشت گردانہ بم حملہ بھی ہوا۔ یہ بم ایک گاڑی میں لگایا گیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک خودکش بمبار نے اپنی گاڑی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے جوانوں کے قریب لا کر دھماکے سے اڑا دی۔ اس حملے میں حشد الشعبی کے 10 جوان شہید جبکہ کئی دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ ایسے وقت انجام پایا جب حشد الشعبی ملک کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے۔
 
گذشتہ ہفتے ایک اور دہشت گردانہ اقدام بغداد کے علاقے السنک میں پیش آیا تھا جس میں شرپسند مسلح عناصر نے مظاہرین کے ایک کیمپ پر حملہ کیا اور ان میں سے بعض افراد کو اسلحہ کے زور پر بس میں سوار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ خبری ذرائع کے مطابق اس حملے میں 20 مظاہرین اور 4 پولیس افسران جاں بحق ہو گئے جبکہ 80 سے زیادہ افراد گم ہو گئے ہیں۔ اکتوبر کے مہینے کے آغاز سے ہی تقریبا روزانہ مظاہرین کی کچھ تعداد بغداد اور عراق کے جنوبی شہروں میں گم ہوتی رہی ہے۔ ان میں سے اکثر واقعات اس وقت پیش آئے ہیں جب مظاہرے میں شامل افراد اپنے گھر کو لوٹ رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح بغداد میں مظاہرے میں شامل ایک 19 سالہ جوان کی ٹارچر شدہ لاش بھی برآمد ہوئی تھی۔ اغوا اور قتل کے ان واقعات میں ملوث افراد نقاب پوش تھے۔ کربلا میں ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں موٹرسائیکل پر سوار نقاب پوش افراد نے مظاہرین کے ایک رہنما کو قریب سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
 
عراق کی نگران حکومت کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے بغداد کے علاقے الوثبہ میں ہنگامہ کرنے والوں کے ہاتھوں 19 سالہ جوان کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "الوثبہ کے المناک واقعے نے ظاہر کر دیا ہے کہ مظاہرین کے روپ میں بعض کرائے کے قاتل موجود ہیں۔ ہم پرامن مظاہرین کی حمایت کرنے میں کسی اقدام سے دریغ نہیں کریں گے۔" دوسری طرف مرجع عالی قدر آیت اللہ سید علی سیستانی نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلحہ تک عوام کی رسائی کو محدود کرے اور غیر ریاستی مسلح عناصر کا خاتمہ کر دے۔ اسی طرح آیت اللہ سید علی سیستانی نے عراق کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ عوام کی حفاظت کریں۔ عراق کے سیاسی تجزیہ کار صباح العکیلی نے ملک میں جاری عوامی احتجاج کو اپنے اہداف کیلئے استعمال کرنے کی امریکی کوشش کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مظاہرین نے امریکی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے اور وہ امریکی ایماء پر حساس تنصیبات پر حملہ ور نہیں ہو رہے۔"
 

Read 825 times