جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت اور جنگی اصولوں میں تبدیلی

Rate this item
(0 votes)
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت اور جنگی اصولوں میں تبدیلی

حریر: رامین حسین آبادیان

جمعہ 3 جنوری کی صبح ایک بجے کے قریب بغداد ایئرپورٹ کے قریب سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار عوامی فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی گاڑیوں پر امریکی ہوائی حملہ ہوا جس کے نتیجے میں گاڑیوں میں سوار تمام دس افراد شہید ہو گئے۔ مختلف ممالک کے حکومتی عہدیداروں، سیاسی رہنماوں، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے اس ہولناک واقعے پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ عراق کے صدر برہم صالح نے کہا: "ہم عراق کی مسلح افواج سے وابستہ سیکورٹی کمانڈرز پر امریکہ کے ہوائی حملے کی مذمت کرتے ہیں اور بلا شک عراق اور خطے کیلئے اس کے ناگوار سکیورٹی اثرات ظاہر ہوں گے۔" بدر آرگنائزیشن کے چیف کمانڈر ہادی العامری نے کہا: "امریکہ کے اس مجرمانہ اقدام نے جہاد کے راستے اور الہی اصولوں اور اقدار کی پاسداری کیلئے جدوجہد میں ہمارا عزم مزید پختہ کر دیا ہے۔" اسی طرح عراق میں شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی علی سیستانی نے اس واقعے کے بارے میں کہا: "گذشتہ رات بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب یہ بزدلانہ حملہ عراق کی خودمختاری اور بین الاقوامی چارٹر کی کھلی خلاف ورزی تھی۔"

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے بیان میں کہا: "امریکی قاتل انشاء اللہ اپنے مجرمانہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے اور برادر قاسم سلیمانی کے اہداف امت مسلمہ میں عالمی استکبار کے سامنے ڈٹے ہوئے ان کے بھائیوں، بیٹوں اور شاگردوں کے ذریعے حقیقت کا روپ دھار کر رہیں گے۔" اسی طرح عراق کے نگران وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا: "ہم برادر ابو مہدی المہندس اور قاسم سلیمانی کے قتل پر مبنی امریکی حکومت کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ دونوں شہید داعش کے خلاف فتح کی علامت تھے۔" روس کی وزارت خارجہ کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کو خطرناک مہم جوئی قرار دیا اور کہا کہ اس کا نتیجہ خطے میں تناو کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ انہوں نے ایران سے ہمدردی کے اظہار اور ایرانی قوم سے اظہار تسلیت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی اپنے ملک کے قومی مفادات کے محافظ تھے۔ عراق کے اہم سیاسی رہنما مقتدا صدر نے کہا: "استکبار جہانی کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر مومن مجاہدین کو نشانہ بنانا درحقیقت جہاد اور عالمی سطح پر موجود انقلابی جذبے کو نشانہ بنانا ہے لیکن اس سے ہمارا جہاد کا عزم کم نہیں ہو گا۔"

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکومت کا یہ مجرمانہ اقدام "ریاستی دہشت گردی" کا واضح مصداق ہے۔ امریکی حکام نے اب تک ایسے بے شمار اقدامات انجام دیے ہیں جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ خطے اور عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا سرغنہ ہیں۔ امریکہ کی اس ریاستی دہشت گردی کے مقابلے میں اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی خاموشی بھی قابل مذمت ہے۔ خطے کے ممالک نے بھی امریکہ کے مجرمانہ اقدامات اور ریاستی دہشت گردی کے سامنے چپ سادھ رکھی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کھلم کھلا امریکہ کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ درحقیقت اس مجرمانہ اقدام سے امریکہ کا مقصد نہ صرف عراق اور ایران بلکہ پورے خطے میں اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت اسلامی مزاحمتی بلاک میں نئی روح پھونک دے گی اور مجاہدین اسلام پہلے سے زیادہ پرعزم ہو کر نئے جذبے سے اس کی شیطانی سازشوں کے خلاف سرگرم عمل ہو جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا پاکیزہ خون اسلامی مزاحمت کے درخت کی آبیاری کرتے ہوئے اسے مزید طاقتور بنا دے گا۔

ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے: "تمام دوست نیز دشمن جان لیں کہ مزاحمتی جہادی تحریک پہلے سے زیادہ عزم اور جذبے سے جاری رہے گی اور حقیقی فتح اس مبارک راستے پر گامزن مجاہدین کے قدم چومے گی۔ ہمارے عزیز اور جاں نثار کمانڈر کا فقدان تلخ ہے لیکن جدوجہد کا تسلسل اور حتمی فتح کا حصول ان کے قاتلوں اور مجرموں کو تلخ کام کر دے گا۔" یہ ایک واضح امر ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے کمانڈرز کی شہادت کے جرم میں امریکی دہشت گردوں کے خلاف سخت انتقامی کاروائی انجام پانے والی ہے۔ امریکہ نے عراق کی سرزمین پر ایران کی مسلح افواج کے اعلی سطحی کمانڈر کی ٹارگٹ کلنگ کر کے اپنے خلاف انتقامی کاروائی کے بھی نئے باب کھول دیے ہیں اور اب خطے میں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جنگ کے اصول تبدیل ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور اب دنیا کے کسی کونے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اپنے خلاف شدید انتقامی کاروائی کی توقع رکھنی چاہئے۔

Read 1320 times