تحریر: حسین شریعتمداری
عراق میں امریکی مسلح افواج کے سابق کمانڈر اور امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ جنرل پیٹریاس نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے ممکنہ جوابی ردعمل پر خوف اور پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہر گز جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام لینے سے چشم پوشی نہیں کرے گا اور امریکہ سے انتقام ضرور لے گا اور اس کا انتقام انتہائی سخت ہو گا۔ جنرل پیٹریاس نے زور دیتے ہوئے کہا: "یہ انتقام انتہائی خطرناک ہو گا اور خطے میں موجود امریکی فوجیوں یا امریکی مفادات تک محدود نہیں ہو گا بلکہ شام، عراق، خلیج فارس یا دنیا کے کسی بھی حصے میں انجام پا سکتا ہے۔" اسی طرح اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے اعلی سطحی عہدیدار شیموئیل کارڈیلو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے: "ایرانی انتہائی ذہین ہیں اور ان کے اقدامات بہت زیادہ خطرناک اور اسٹریٹجک وار پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ ایسی جگہ سے وار کرتے ہیں جس کا تصور کرنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔"
انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رحمہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: "دشمن کو سکون کا سانس مت لینے دیں ورنہ وہ آپ کو سکون کا سانس نہیں لینے دے گا۔" اسی طرح ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے کل اسلام کے دلیر کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے اپنے تسلیتی پیغام میں فرمایا: "شہادت گذشتہ سالوں میں ان کی مسلسل جدوجہد کا انعام تھا۔ ان کے جانے سے خدا کی نصرت اور طاقت سے ان کا کام اور ان کا راستہ بند یا معطل نہیں ہو گا۔ لیکن ان مجرم افراد کو سخت انتقام کا انتظار کرنا چاہئے جن کے نجس ہاتھ شہید قاسم سلیمانی اور گذشتہ رات کے سانحے میں شہید ہونے والے دیگر افراد کے خون سے آلودہ ہیں۔" اس بارے میں اگرچہ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یہاں تین اہم نکات بیان کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہوں۔ پہلا نکتہ یہ کہ امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادی شیشے کے محلوں میں بیٹھے ہیں اور دہشت گرد امریکی حکمرانوں سے سخت انتقام کے تمام تر مقدمات فراہم ہیں۔ اگرچہ سوئٹزرلینڈ کے سفیر کو بلا کر امریکہ کے مجرمانہ اقدام پر احتجاج درج کروایا گیا ہے جو سفارتی سطح پر ایک اچھا اور مناسب قدم ہے لیکن بہت جلد امریکہ کو دندان شکن جواب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ عالم اسلام کے عظیم مجاہد شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ہمراہ دیگر شہداء کے خون کی قیمت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کا انتقام ایک کاروائی کی حد تک محدود نہیں ہو سکتا بلکہ یہ انتقامی کاروائی چند مرحلوں پر مشتمل ہو گی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے بھی اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف ایک مجرمانہ اقدام انجام نہیں دیا بلکہ ایک عرصے سے مسلسل مجرمانہ اقدامات کا سلسلہ انجام دیتا آیا ہے لہذا اس کے خلاف جوابی کاروائی بھی مرحلہ وار ہونی چاہئے۔ جیسا کہ ہمارے ایک عزیز نے کہا کہ "کیا صرف مختار ثقفی کے قیام اور ابن زیاد، شمر، حرملہ اور عمر ابن سعد جیسے افراد کے قتل سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ چکایا جا چکا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اسلام دشمن قوتیں بدستور اسلام سے دشمنی کرنے اور اہل حق کے خلاف ظلم و ستم کرنے میں مصروف ہیں۔"
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جمعہ کی سحر گاہ شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ہمراہ دیگر شہداء اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچ گئے ہیں اور ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کے بقول "شہادت ان کی مسلسل جدوجہد کا انعام تھا"۔ اس بارے میں اہم بات یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ دیگر شہداء نے اپنی شہادت کے ذریعے دشمن کے مورچے تک نیا محفوظ راستہ مہیا کر دیا ہے۔ خداوند منان شہید آوینی رحمہ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے جو ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہم نے شہداء کو نہیں گنوایا بلکہ انہیں پا لیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امام خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ "ہمارے عزیز اور جان نثار کمانڈر کا فقدان تلخ ہے لیکن جدوجہد کے تسلسل اور حتمی کامیاب کے حصول سے ان کے قاتلوں اور مجرموں کی زندگی تلخ کر دیں گے۔" آخر میں اپنے انقلابی شاعر دوست ایوب پرندآور کے اس شعر کے ساتھ تحریر کا خاتمہ کرتا ہوں جو انہوں نے کل ہی شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے امریکہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے پڑھا ہے
اے امریکہ، اگر تم ایک اور کربلا بھی برپا کر ڈالو تو دیکھو گے کہ دو کروڑ قاسم سلیمانی تیار کھڑے ہیں۔
عنقریب انتہائی سخت انتقام
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے