لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اسلامی مزاحمتی محاذ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مھدی المھندس کی شہادت کے پہلے ہفتے کی مناسبت سے خطاب کیا۔ ان کا یہ خطاب لبنان کے بہت سے شہروں میں براہ راست دیکھا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شام، فلسطین، عراق، یمن، افغانستان، بحرین، پاکستان، بھارت اور افریقہ سمیت دنیا بھر میں ان کی شہادت پر عوام نے تقریبات منعقد کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنے خاندان یا ایران کے نمائندے نہیں تھے بلکہ وہ خطے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کے ایک سپہ سالار تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مھدی المھندس کے بارے میں گفتگو کرنے کا مقصد امام خمینیؒ کے مکتب میں پروان چڑھنے والے اسلامی محاذ کے سپہ سالاروں کی پہچان کروانا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے، ہمارے ساتھ رہتے، ہماری ضرورتوں کو پورا کرتے بلکہ ہماری توقع سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھتے تھے، جبکہ ان کی امداد میں مادی، معنوی اور فکری امداد شامل تھی اور اس سے قبل اسلامی مزاحمتی محاذ کو اس طرح کی مدد کسی اور نے فراہم نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ سال 1999ء میں قدس بریگیڈ کے کمانڈر مقرر ہوئے اور سال 2000ء میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی، جبکہ وہ اس آزادی میں شریک تھے، لیکن اس بارے میں کسی طرف سے بات نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سال 2006ء میں وہ جنگ کے دوران لبنان آئے اور ہم سب حیران تھے کہ وہ کیسے لبنان پہنچ گئے، البتہ وہ جنگ کے دنوں میں ہمارے ساتھ رہے، جبکہ وہ تہران میں رہ کر بھی ہماری مدد کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے میدان جنگ میں رہنے کو ترجیح دی۔ سید مقاومت نے کہا کہ جنگ کے دنوں میں بےگھر ہو جانیوالے لبنانیوں کو جنگ کے بعد گھروں میں آباد کرنے میں شہید قاسم سلیمانی نے ہی مدد فراہم کی جبکہ کوئی بھی ایسا بے گھر فرد باقی نہیں بچا تھا، جو آباد نہ ہوگیا ہو۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دشمن اسلامی مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو عوام کی نظر میں چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے، جبکہ داعش کیخلاف جنگ سے پہلے اسلامی مزاحمتی محاذ کو اسرائیل کیلئے صرف ایک معمولی خطرہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اسرائیلی و لبنانی حکام اسلامی مزاحمتی محاذ کو ایک بلند سطح پر لے گئے ہیں، جہاں اسلامی مزاحمتی محاذ کو "اسرائیل کے وجود کیلئے" ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب حزب اللہ نہ صرف اپنے بلکہ لبنانی ذخائر کے دفاع کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور یہ سب کچھ رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای اور شہید قاسم سلیمانی کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ابو مھدی المھندس کی شخصیت شہید قاسم سلیمانی کیساتھ انتہائی مشابہ تھی، جبکہ ان دونوں سپہ سالاروں کی شہادت اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے، جیسا کہ عراقی عوام آج دیکھ رہے ہیں کہ ان کے سپہ سالار ایرانی سپہ سالاروں کے ہمراہ شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عراق میں امریکہ کی بنائی ہوئی داعش کو شکست نہ ہوتی تو خلیجی ممالک سمیت جو اس کی مکمل حمایت کر رہے تھے، پورا خطہ داعش کی لپیٹ میں آ جاتا۔ لہذا پورے خطے کی عوام کو چاہیئے کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی، ابو مھدی المھندس اور ان تمام مجاہدین کی قدردانی کریں، جنہوں نے عراق میں داعش کو شکست دی اور اب بھی داعش کیساتھ لڑ رہے ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی محاذ کے سپہ سالاروں کی شہادت پر مبنی امریکی مجرمانہ اقدام کا جواب صرف ایک کارروائی نہیں بلکہ لمبے عرصے پر محیط ایک مزاحمتی سلسلہ ہے، جس کے نتیجے میں خطے سے امریکی موجودگی ختم ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو مشرق وسطی یا جیسا کہ رہبر معظم نے کہا ہے کہ مغربی ایشیاء سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ عین الاسد میں ہوا ہے، صرف ایک طمانچہ ہے، جو جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا جواب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طمانچہ اس زلزلہ آفرین مزاحمتی سلسلے کی پہلی کڑی ہے، جس کا نتیجہ خطے سے امریکی موجودگی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی امریکی فوجی اڈے پر حملہ نہیں ہوا، تاہم آج ایران کے علاوہ دنیا میں کس ملک کے اندر یہ ہمت ہے کہ وہ امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنائے؟ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ عین الاسد کو نشانہ بنانے کی ایرانی کارروائی انتہائی شجاعت پر مبنی ہے، جبکہ ٹرمپ نے 52 ایرانی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی تھی، لیکن وہ کچھ کر نہیں پائے، تاہم امریکہ اور اسکے اتحادی جان لیں کہ یہ (ایرانی) کمانڈرز ایسے لوگ ہیں، جو شکست اور عقب نشینی سے واقف ہی نہیں۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ کے منہ پر پڑنے والے اس طمانچے نے ایرانی فوجی طاقت سے پردہ اٹھایا ہے، کیونکہ وہ میزائل جو سو فیصد ایرانی ساخت کے ہیں، سینکڑوں کلومیٹرز کا فاصلے طے کرکے ٹھیک اپنے اہداف کے اوپر جا لگے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکی کئی دنوں سے مکمل طور پر الرٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اس سے بھی زیادہ پیشرفتہ اور طاقتور میزائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایرانی طمانچے میں ان ممالک کیلئے کھلا پیغام موجود ہے جو امریکہ کیساتھ اتحاد کرتے ہیں اور اسرائیل کیلئے بھی جو ایران پر حملے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، اس میں ایک پیغام موجود ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ایرانی میزائل عراق میں موجود عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر لگے، لیکن اس کا درد اور اس پر رونا پیٹنا اسرائیل میں ہو رہا تھا، کیونکہ ایران نے اتنی فوجی صلاحیت پیدا کر لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہلاکتوں سے ہٹ کر جسے وقت ثابت کرے گا، اس میزائل حملے کا سب سے بڑا اثر خطے میں موجود ہر دوست و دشمن کی نگاہ میں امریکی رعب و دبدبے کو خاک میں ملا دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے اندر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ آخرکار امریکہ نہ صرف عراق سے بلکہ پورے خطے سے ہی نکل جائے گا اور ہمیں اکیلا چھوڑ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے چہرے دیکھے تھے؟ کیا ان کے چہرے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ فتحیاب ہوئے ہیں یا یہ کہ وہ عزادار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایران نے امریکیوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر تم نے جواب دیا تو خطے میں موجود تمام امریکی فوجی اڈے اور اسرائیل کو فوری طور پر خاک میں ملا دیا جائیگا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عراق میں ایرانی کارروائی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، چونکہ امریکہ کیطرف سے عراق کے اندر ہی مجرمانہ کارروائی انجام دی گئی تھی، لہذا ایران سے باہر امریکہ کو جواب دینے کیلئے عراق ہی بہترین میدان تھا، کیونکہ امریکہ نے عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغداد ایئرپورٹ کے قریب کارروائی کی تھی، جس میں اس نے ایرانی سپہ سالار کیساتھ ساتھ عراقی اعلیٰ فوجی افسروں کو بھی شہید کیا تھا، جو عراقی سرزمین کے دفاع میں مصروف تھے۔ انہوں نے عراقی کرد لیڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج مسعود بارزانی کو بھی شہید قاسم سلیمانی کا مرہون منت ہونا چاہیئے، کیونکہ جب اس نے اپنے امریکی دوستوں سے مدد مانگی تھی تو وہ اس کی مدد کو نہیں آئے تھے، بلکہ یہ حاج قاسم سلیمانی ہی تھے، جو حزب اللہ کے دوستوں کے ہمراہ مسعود بارزانی کی مدد کرنے اس کے پاس گئے تھے لیکن وہ ڈر سے لرز رہا تھا۔ انہوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ مسعود بارزانی عراقی حکام کے ہمراہ عراقی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر عراق سے امریکی فوجی انخلاء کی حمایت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی پارلیمنٹ کے فیصلے کو بہادری کیساتھ عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور انہوں نے امریکیوں سے ان کے انخلاء کا میکنزم بھی طلب کر لیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی محاذ کے سپہ سالار سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی محاذ اب اپنا کام شروع کرنے ہی والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے ایک بہت بڑے ہدف کا اعلان کیا ہے اور وہ اس کے حصول میں سنجیدہ اور صادق بھی ہیں، جبکہ امریکیوں کو اپنے فوجی اڈے سمیٹ کر یہاں سے نکلنا ہوگا، تاہم اسلامی مزاحمتی فورسز کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکی افقی حالت میں واپس نہ جائیں، بلکہ عمودی حالت میں واپس پلٹیں۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم خطے کے شروع ہونے والے نئے دور کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جبکہ آنیوالے دنوں کی خبریں آپ کو اس کا پتہ دیتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے جبکہ میں امیدوار ہوں کہ امریکی قاتلوں کو جنہوں نے یہ جرم انجام دیا ہے، اس کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا اور بالآخر انہیں یقین ہو جائیگا کہ ان کا حساب کتاب غلط تھا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ ہمارے پاس آیا کرتے تھے، ہمارے ساتھ رہتے، ہماری ضرورتوں کو پورا کرتے بلکہ ہماری توقع سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھتے تھے، جبکہ ان کی امداد میں مادی، معنوی اور فکری امداد شامل تھی اور اس سے قبل اسلامی مزاحمتی محاذ کو اس طرح کی مدد کسی اور نے فراہم نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ سال 1999ء میں قدس بریگیڈ کے کمانڈر مقرر ہوئے اور سال 2000ء میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی، جبکہ وہ اس آزادی میں شریک تھے، لیکن اس بارے میں کسی طرف سے بات نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ سال 2006ء میں وہ جنگ کے دوران لبنان آئے اور ہم سب حیران تھے کہ وہ کیسے لبنان پہنچ گئے، البتہ وہ جنگ کے دنوں میں ہمارے ساتھ رہے، جبکہ وہ تہران میں رہ کر بھی ہماری مدد کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے میدان جنگ میں رہنے کو ترجیح دی۔ سید مقاومت نے کہا کہ جنگ کے دنوں میں بےگھر ہو جانیوالے لبنانیوں کو جنگ کے بعد گھروں میں آباد کرنے میں شہید قاسم سلیمانی نے ہی مدد فراہم کی جبکہ کوئی بھی ایسا بے گھر فرد باقی نہیں بچا تھا، جو آباد نہ ہوگیا ہو۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دشمن اسلامی مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو عوام کی نظر میں چھوٹا کرکے پیش کرتا ہے، جبکہ داعش کیخلاف جنگ سے پہلے اسلامی مزاحمتی محاذ کو اسرائیل کیلئے صرف ایک معمولی خطرہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اسرائیلی و لبنانی حکام اسلامی مزاحمتی محاذ کو ایک بلند سطح پر لے گئے ہیں، جہاں اسلامی مزاحمتی محاذ کو "اسرائیل کے وجود کیلئے" ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب حزب اللہ نہ صرف اپنے بلکہ لبنانی ذخائر کے دفاع کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور یہ سب کچھ رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای اور شہید قاسم سلیمانی کے مرہون منت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ابو مھدی المھندس کی شخصیت شہید قاسم سلیمانی کیساتھ انتہائی مشابہ تھی، جبکہ ان دونوں سپہ سالاروں کی شہادت اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے، جیسا کہ عراقی عوام آج دیکھ رہے ہیں کہ ان کے سپہ سالار ایرانی سپہ سالاروں کے ہمراہ شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عراق میں امریکہ کی بنائی ہوئی داعش کو شکست نہ ہوتی تو خلیجی ممالک سمیت جو اس کی مکمل حمایت کر رہے تھے، پورا خطہ داعش کی لپیٹ میں آ جاتا۔ لہذا پورے خطے کی عوام کو چاہیئے کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی، ابو مھدی المھندس اور ان تمام مجاہدین کی قدردانی کریں، جنہوں نے عراق میں داعش کو شکست دی اور اب بھی داعش کیساتھ لڑ رہے ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی محاذ کے سپہ سالاروں کی شہادت پر مبنی امریکی مجرمانہ اقدام کا جواب صرف ایک کارروائی نہیں بلکہ لمبے عرصے پر محیط ایک مزاحمتی سلسلہ ہے، جس کے نتیجے میں خطے سے امریکی موجودگی ختم ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو مشرق وسطی یا جیسا کہ رہبر معظم نے کہا ہے کہ مغربی ایشیاء سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ عین الاسد میں ہوا ہے، صرف ایک طمانچہ ہے، جو جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا جواب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طمانچہ اس زلزلہ آفرین مزاحمتی سلسلے کی پہلی کڑی ہے، جس کا نتیجہ خطے سے امریکی موجودگی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی امریکی فوجی اڈے پر حملہ نہیں ہوا، تاہم آج ایران کے علاوہ دنیا میں کس ملک کے اندر یہ ہمت ہے کہ وہ امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنائے؟ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ عین الاسد کو نشانہ بنانے کی ایرانی کارروائی انتہائی شجاعت پر مبنی ہے، جبکہ ٹرمپ نے 52 ایرانی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی تھی، لیکن وہ کچھ کر نہیں پائے، تاہم امریکہ اور اسکے اتحادی جان لیں کہ یہ (ایرانی) کمانڈرز ایسے لوگ ہیں، جو شکست اور عقب نشینی سے واقف ہی نہیں۔
سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ کے منہ پر پڑنے والے اس طمانچے نے ایرانی فوجی طاقت سے پردہ اٹھایا ہے، کیونکہ وہ میزائل جو سو فیصد ایرانی ساخت کے ہیں، سینکڑوں کلومیٹرز کا فاصلے طے کرکے ٹھیک اپنے اہداف کے اوپر جا لگے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب امریکی کئی دنوں سے مکمل طور پر الرٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اس سے بھی زیادہ پیشرفتہ اور طاقتور میزائل موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایرانی طمانچے میں ان ممالک کیلئے کھلا پیغام موجود ہے جو امریکہ کیساتھ اتحاد کرتے ہیں اور اسرائیل کیلئے بھی جو ایران پر حملے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، اس میں ایک پیغام موجود ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ایرانی میزائل عراق میں موجود عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر لگے، لیکن اس کا درد اور اس پر رونا پیٹنا اسرائیل میں ہو رہا تھا، کیونکہ ایران نے اتنی فوجی صلاحیت پیدا کر لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہلاکتوں سے ہٹ کر جسے وقت ثابت کرے گا، اس میزائل حملے کا سب سے بڑا اثر خطے میں موجود ہر دوست و دشمن کی نگاہ میں امریکی رعب و دبدبے کو خاک میں ملا دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے اندر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ آخرکار امریکہ نہ صرف عراق سے بلکہ پورے خطے سے ہی نکل جائے گا اور ہمیں اکیلا چھوڑ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے چہرے دیکھے تھے؟ کیا ان کے چہرے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ فتحیاب ہوئے ہیں یا یہ کہ وہ عزادار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایران نے امریکیوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر تم نے جواب دیا تو خطے میں موجود تمام امریکی فوجی اڈے اور اسرائیل کو فوری طور پر خاک میں ملا دیا جائیگا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عراق میں ایرانی کارروائی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، چونکہ امریکہ کیطرف سے عراق کے اندر ہی مجرمانہ کارروائی انجام دی گئی تھی، لہذا ایران سے باہر امریکہ کو جواب دینے کیلئے عراق ہی بہترین میدان تھا، کیونکہ امریکہ نے عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بغداد ایئرپورٹ کے قریب کارروائی کی تھی، جس میں اس نے ایرانی سپہ سالار کیساتھ ساتھ عراقی اعلیٰ فوجی افسروں کو بھی شہید کیا تھا، جو عراقی سرزمین کے دفاع میں مصروف تھے۔ انہوں نے عراقی کرد لیڈر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج مسعود بارزانی کو بھی شہید قاسم سلیمانی کا مرہون منت ہونا چاہیئے، کیونکہ جب اس نے اپنے امریکی دوستوں سے مدد مانگی تھی تو وہ اس کی مدد کو نہیں آئے تھے، بلکہ یہ حاج قاسم سلیمانی ہی تھے، جو حزب اللہ کے دوستوں کے ہمراہ مسعود بارزانی کی مدد کرنے اس کے پاس گئے تھے لیکن وہ ڈر سے لرز رہا تھا۔ انہوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ مسعود بارزانی عراقی حکام کے ہمراہ عراقی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر عراق سے امریکی فوجی انخلاء کی حمایت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی پارلیمنٹ کے فیصلے کو بہادری کیساتھ عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور انہوں نے امریکیوں سے ان کے انخلاء کا میکنزم بھی طلب کر لیا ہے۔ اسلامی مزاحمتی محاذ کے سپہ سالار سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی محاذ اب اپنا کام شروع کرنے ہی والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مزاحمتی فورسز نے ایک بہت بڑے ہدف کا اعلان کیا ہے اور وہ اس کے حصول میں سنجیدہ اور صادق بھی ہیں، جبکہ امریکیوں کو اپنے فوجی اڈے سمیٹ کر یہاں سے نکلنا ہوگا، تاہم اسلامی مزاحمتی فورسز کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ یہ کہ امریکی افقی حالت میں واپس نہ جائیں، بلکہ عمودی حالت میں واپس پلٹیں۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم خطے کے شروع ہونے والے نئے دور کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جبکہ آنیوالے دنوں کی خبریں آپ کو اس کا پتہ دیتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے جبکہ میں امیدوار ہوں کہ امریکی قاتلوں کو جنہوں نے یہ جرم انجام دیا ہے، اس کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا اور بالآخر انہیں یقین ہو جائیگا کہ ان کا حساب کتاب غلط تھا۔