تحریر: ساجد علی گوندل
اقتدار کا نشہ بھی عجیب نشہ ہے۔ انسان کو اس قدر مست کر دیتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور کیا ہے۔ اس کی مستی نے انسان سے ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ تک کا دعویٰ کروایا۔۔۔۔ کبھی قتل کروائے۔۔۔ تو کبھی بھری و آباد بستیوں کو ویران بنایا۔۔۔ حتیٰ بھائی نے بھائی کا خون پیا۔ یہ ایک ایسی مستی ہے کہ جس کے سامنے ماں، باپ، بھائی، بہن جیسے رشتوں کے کوئی معنی نہیں۔۔۔ یہ نشہ بس خون اور ویرانی کا طلبگار ہے اور اگر اس کے ساتھ مال و دولت کا درخت بھی رُشد کرنے لگے۔۔۔ کہ جو کبھی پھل دار نہیں ہوتا اور ہمیشہ پیاسہ ہی رہتا ہے۔۔۔ تو انسان کے اندر بغاوت اور سرکشی کا عنصر پنپنے لگتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر کوئی ان دونوں کے چنگل سے بچ نکلے تو تمدن سے کوسوں دور دراز صحراوں کی طرف سے ۔ خرقہ پہنے۔۔۔ درویشانہ انداز میں کوئی ظاہر ہوتا ہے کہ جس کے باطل تفکرات کی ڈوریاں۔۔۔ تجسمِ حق کو لمس کرتے ہوئے پھر باطل کی طرف مڑ جاتی ہیں، کہ جن کی حقیقت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے دور سے نظر آنے والے صحرائی منظر میں پانی کی حقیقت۔
وہ اپنے نرم و ملائم اور تظاہرانہ صداقت پر مبنی بیانات سے معاشرے کو علم کے قالب میں جہالت بیچتا ہے اور اس کے غلیظ خطابات کی گرد فضاء کو اس قدر آلودہ کرتی ہے کہ نہ تو لوگ اس میں اپنی آنکھیں کھول پاتے ہیں اور نہ ہی درست سمت میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ درحقیقت معاشرہ اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے کہ ’’وہ نہیں جانتا‘‘ کہ جسے علمِ لاجیک میں جہل مرکب کہا جاتا ہے اور نتیجتاً بند آنکھوں سے چلتے چلتے وہ کسی گہری کھائی میں جا گرتے ہیں۔ لہذا جب معاشرے میں فرعون و آل فرعون جیسے افراد، قدرت و اقتدار کے نشے میں مست ہوں۔۔۔ قارون اور اس کے حواری جب دولت و ثروت کے بل بوتے پر علم بغاوت بلند کر لیں۔۔۔ اور پھر معاشرے میں کچھ بچی کچھی انسانی اقدار کو سامری جیسے افراد پامال کر دیں، تو خدا کو موسیٰؑ جیسے نبی کو بھیجنا پڑتا ہے، تاکہ وہ ان کو شرافت کا درس دے اور بہتے دریا میں سے راستہ بنا کر ان کو ذلت کے پانیوں سے عزت کے ساحل تک لے جائے۔
کہا موسیٰؑ ’’ان ائت القوم الظالمین۔۔۔ قوم َفرعون‘‘[1] آل فرعون کی طرف جاؤ۔۔۔ وہ سرکش ہوچکی ہے۔۔۔ اور کیا بنی اسرائیل کی آہ و بقاء تم تک نہیں پہنچ رہی۔۔۔ کہ آل فرعون ’’یذبحون ابنائھم و یستحیون نسائھم‘‘ وہ ان کے بچوں کو ذبح کر رہے ہیں۔۔۔ ان کی بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہیں۔۔۔ فرمایا جاؤ۔۔۔ فرعون و قارون کی جانب۔۔۔ ’’استکبروا و کانوا قوما مجرمین‘‘[2] انہوں نے کبریائی کا دعویٰ کیا ہے۔۔۔ لہذا جاؤ۔۔۔ اور ان کے جھوٹے دعوے کو سر سے پکڑ کر زمین پر دے مارو۔۔۔ اور اس کا سر پھوڑ دو۔۔۔۔ لہٰذا جب بھی قوموں پر ایسا وقت آتا ہے۔۔۔ تو ایک موسیٰ کی ضرورت پڑتی ہے کہ جو مجسمہ کبر کو پکڑ کر سر کے بل زمین میں گاڑ دے۔ سوال یہاں ہے کہ کیا آج اس امت کو موسیٰ کی ضرورت نہ تھی۔۔۔؟ کیا آج کل ِاستعمار، امریکہ اور اس کے حواری، نمادِ قدرت و اقتدار نہیں ہیں۔۔۔؟ کیا انہوں نے کبر و بڑائی اور سپرپاور ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔۔؟
کیا آج اسرائیل اور اس کے کارندے نمادِ دولت و ثروت نہیں۔۔۔؟ کہ جو ناجائز طور پر زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر کب سے خون بہیں۔ ا رہے ہکیا آج طالبان، النصرہ، داعش اور کچھ عرب ممالک کہ جو اپنی مکاریوں کو چھپانے کے لئے اسلام کی چادر اڑھے ہوئے ہیں۔۔۔۔ سامری کی طرح آج بھی فریب و مکر کا واضع نمونہ نہیں ہیں۔۔۔؟۔۔۔۔ ہاں جنرل قاسم سلیمانی وہ موسیٰ زماں ہیں کہ جس نے آج کے فرعون (امریکہ) کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور زمانے کے قارون نما اسرائیل کی خون آلودہ دولت کا حقیقی چہرہ لوگوں پر عیاں کیا۔ آج کے سامری کردار طالبان، داعش اور اسلام کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف عملی میدان میں۔۔۔ ان کے بنائے ہوئے گوسالے کو آگ لگا کر اس کی راکھ کو دریا میں بہا دیا۔
یاد رہے ایک حق موسیٰ کا تھا کہ جو اس نے ادا کر دیا اور ایک حق بنی اسرائیل کے ذمے ہے۔۔۔ کہ وہ میدان نہ چھوڑے۔۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں موسیٰ زماں مبارزے کے لئے پکارے تو ہم یہ کہتے ہوئے نظر آئیں کہ۔۔۔ موسیٰ ۔۔’’ان فیھا قوما جبارین و انا لن ندخلھا حتی یخرجوا منھا‘‘[3] وہ کہاں اور ہم کہاں۔۔۔ وہ امریکہ ہے، اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔۔۔۔ وہ سپرپاور ہے۔۔۔ ہم اس سے نہیں لڑ سکتے۔۔۔۔ ہاں تم جاؤ لڑو، ہم بس بیٹھ کر تبصرے کریں گے۔۔۔۔ ہاں اگر وہ خود ہم پر عنایت کر دیں تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔ اور ہمیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ آج کا فرعون یمن، شام، فلسطین و کشمیر میں ہماری بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہا ہے۔۔۔۔ کیونکہ وہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ وہ تو شام کا مسئلہ ہے۔۔۔ وہ فلسطین و کشمیر کا مسئلہ ہے اور ہمارا اس سے بھی کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے کہ کل کے فرعون کی طرح آج کا فرعون بھی ہمارے بچوں کو زندہ درگور کر رہا ہے۔۔۔ گلے کاٹ رہا ہے۔۔۔ جسموں کے ٹکڑے کر رہا ہے۔۔۔ اور جو بچ گے ہیں، ان کو ایسے تعلیمی نظام کی نذر کر دیا کہ جس نے ان کو زندہ لاشوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ بقول شاعر
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
شاید آج بھی ہم وہی بنی اسرائیل ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ اے موسیٰؑ ہم میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں۔۔۔ مگر ہم بھول گے کہ موسیٰؑ کون ہے۔۔ وہ کہ جس پر ایمان ہو تو دریا رستہ دیتے ہیں اور اگر صرف اپنی طاقت پر گھمنڈ ہو تو وہی دریا اس طاقت و گھمنڈ کو عبرت کا نشاں بنا دیتے ہیں اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کے فرعون کا غرور بھی جنرل قاسم سلیمانی کے خون میں دفن ہوگیا۔ جب موسیٰؑ کے اژدھا نے جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل لیا۔۔۔ تو سب سجدے میں گر گئے اور کہا کہ ہم موسیٰؑ و ہارونؑ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ جیسے ہی فرعون نے یہ سنا تو کہا کہ میں مخالف سمت سے تمہارے ہاتھ اور پاوں کٹوا دونگا۔۔۔کہا۔۔۔’’ لا ضَیرَ (لنا)‘‘[4] ہم اس سے نہیں ڈرتے۔۔۔ حق ہم پر نمایاں ہوچکا ہے۔۔۔۔ ہم موسیٰؑ کو نہیں چھوڑنے والے۔ تو کیا آج امت مسلمہ پر حق واضح نہیں ہوا۔۔۔؟ کیا اس خون کے بعد بھی کوئی حجت باقی ہے۔۔۔؟ کیوں آج بھی ہم میں بہت سارے افراد ایسے ہیں کہ جو زمانے کے فرعون امریکہ کی اس کھوکھلی دھمکی ’’لاصلبنکم فی جذوع النخل‘‘[5] سے سہم ہوئے ہیں۔
کیا ان کو اصحاب فیل کا واقع یاد نہیں۔۔؟ یا پھر کل کے آل قارون کی طرح وقت کے قارون یعنی اسرائیل اور اس کے حواریوں کے ناپاک مال سے بنایا گیا سامری کا گوسالہ۔۔۔ لوگوں کے ضمیروں کو سلائے ہوئےہے۔۔؟ بقول قرآن ۔۔۔’’من زینۃالقوم‘‘[6] یعنی وہ گوسالہ آل قارون کے مال سے بنایا گیا تھا۔ یہ بات تو مسلم ہے کہ فرعون ہو، قارون ہو یا مکار سامری، کبریائی کی ردا فقط خدا کے لیے ہے۔۔۔ لہذا ایران کا عین الاسد ائیر بیس پر حملہ کرکے امریکہ کے غرور کو خاک میں ملانا، عیناً قرآنی لب و لہجہ ہے۔۔۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں جیسے قارون اپنے مال و اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا۔۔۔۔ اسی طرح عنقریب اسرائیل بھی اپنے حواریوں سمیت عبرت کا نشان بنے گا اور آخر میں یہ کہ جیسے موسیٰ ایک شخص نہیں بلکہ ایک شخصیت کا نام ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح قاسم سلیمانی بھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک مشن کا نام ہے اور وہ مشن یہ ہے کہ اب امت مسلمہ کو اپنے اختلافات بھلانے ہوں گے۔۔۔۔ اتحاد کے دامن کو تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہوگی اور دشمن کو بتانا ہوگا کہ ہماری قوم کا ہر جوان کل کا موسیٰ اور آج کا قاسم سلیمانی ہے کہ جو فرعون، قارون اور سامری جیسے کرداروں سے لڑنے کا بھرپور جذبہ رکھتا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی، موسٰی زمان
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے