رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
امریکہ بلا شرکتِ غیرے دنیا پہ حکمرانی کا خواب پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنگ و جدل، سازش اور دغا بازی، ظلم و جور اور ہر طرح کا ظلم و ستم اپنانے کے ساتھ الزامات اور جھوٹ کا سہارا بھی لیتا ہے۔ کرونا وائرس کو ایک تنازعہ کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، تاکہ امریکہ اسے اپنے حق میں استعمال کرسکے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے قرب ترین سمجھے جانے والے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ٹام کاٹن نے فروری کے آخر میں کرونا وائرس کے بارے میں الزام لگایا کہ یہ وائرس حادثاتی طور پر نہیں پھوٹا بلکہ اسے ایک منصوبے کے تحت جنم دیا گیا ہے۔ انہوں نے چین کے آزاد آن لائن سائنسی جریدے ChinaXiv کے حوالے سے چینیوں کے اس دعوے کی تردید کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ووہان کی مچھلی مارکیٹ سے یہ وائرس کسی انسان کو منتقل ہوا، نومبر کے آخر میں ووہان سے باہر کسی مقام پر یہ جرثومہ کسی انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا۔ اس دوسرے آدمی یا Patient Zero سے یہ جرثومہ ووہان کے کسی قصاب اور کارکن کو منتقل ہوا، جس کے بعد وہاں آنے والے صارفین متاثر ہوئے۔ سینیٹر کاٹن بار بار اصرار کرتے رہے کہ Patient Zero کی تفصیل فراہم کی جائے۔ انہوں نے دھمکی دی تھی کہ امریکی حکومت چاہے نہ چاہے، وہ چینی حکومت کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ جاری رکھیں گے۔ وہ جنگجو اور پھر سیاستدان ہیں، ان کے اصرار میں فوجی ذہنیت بھی ہے اور سیاست چمکانے کیلئے ایک نعرہ بھی۔
اسی طرح انسدادِ دہشت گردی کے ماہر اور فوجی محکمہ سراغ رسانی کے سابق اہلکار فلپ جیلارڈی کا موقف بھی سامنے آیا کہ کورونا وائرس کے کچھ حصے فطری نہیں، ان کی افزائش بلکہ پیدائش ہتھیار بندی کے لیے کی گئی ہے، کورونا وائرس تغیر پذیری (Mutation) کی فطری صلاحیت سے عاری ہے، لہٰذا اسے لیبارٹری میں جنم دیا گیا ہے، یعنی اس پر ایک حیاتیاتی ہتھیار ہونے کا شبہ ہوتا ہے، یہ جرثومہ ووہان کے انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات (Virology) سے لیک ہوکر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہوگیا، جہاں سے مچھلی مارکیٹ پہنچا اور اب ساری دنیا میں قیامت ڈھا رہا ہے۔ اس تجزیے کے بعد سینیٹر ٹام کاٹن کے مؤقف میں بھی مزید سختی آگئی۔ ان کے خیال میں کورونا وائرس کی تخلیق چینی فوج کا کارنامہ ہے، جسے ووہان کے فوجی انسٹی ٹیوٹ برائے جرثومیات میں تخلیق کیا گیا۔ اپنے ساتھی کے اس الزام کے بعد صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ووہان جرثومہ، غیر ملکی جرثومہ اور چینی جرثومہ کہنا شروع کر دیا تھا، لیکن اپنی ٹیکنیکل ٹیم کے مشورے پر انہوں نے یہ سلسلہ اب ترک کر دیا ہے۔
لیکن چین نے جوابی الزام لگایا کہ ووہان آنے والے امریکی فوج کے کھلاڑیوں نے کورونا وائرس ووہان میں پھیلایا، جہاں اکتوبر 2019ء میں دنیا کے فوجی کھیل منعقد ہوئے تھے، ان مقابلوں میں شرکت کے لیے پینٹاگون نے 280 کھلاڑیوں پر مشتمل امریکی فوج کی17 ٹیمیں ووہان بھیجی تھیں۔ چینیوں کو شک ہے کہ کھلاڑیوں کے روپ میں آنے والے حیاتیاتی جنگ کے ماہرین نے یہ جرثومہ ووہان میں پھیلایا ہے۔ اسی طرح چین نے دعویٰ کیا کہ امریکہ، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا میں جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہوئے ہیں، اُن میں سے کم از کم پانچ افراد ایسے تھے، جنھوں نے نہ ملک سے باہر سفر کیا اور نہ ہی کسی مریض سے ان کی ملاقات ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووہان میں پھوٹ پڑنے سے پہلے کورونا وائرس چین سے باہر بھی موجود تھا، اور امریکی مریضوں کی اکثریت دارالحکومت کے قریب رہائش پذیر لوگوں کی تھی، جہاں سے امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک حیاتیاتی لیبارٹری بہت دور نہیں۔
مارچ 2020ء میں پاکستان کے سابق عبوری وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے جناب عبداللہ حسین ہارون نے اعداد و شمار اور استثنائی حقوق (Patent) کی تفصیل کے ساتھ کورونا وائرس کو امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار ثابت کیا ہے۔ اپنے طویل ویڈیو خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس قسم کا ہتھیار شام میں بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ وائرس کی تخلیق برطانیہ میں ہوئی اور اسے ائیر کینیڈا کے ذریعے چین بھیجا گیا۔ اس کی ویکسین اسرائیل نے بنائی ہے، جسے صرف وہی ملک خرید سکیں گے، جن کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں۔ جناب حسین ہارون کا کہنا تھا کہ وائرس سے چین کو ہدف بنانے کا مقصد چین کو معاشی طور پر مفلوج کرنا تھا، جو حجم کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ انہوں نے بل گیٹس فائونڈیشن اور امریکہ کے طبی علوم کے مشہور تحقیقی مرکز جامعہ ہاپکنز کو بھی اس کام میں ملوث قرار دیا۔ احباب کو یقیناً علم ہوگا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے کام کی نگرانی جامعہ ہاپکنز کر رہی ہے۔
جبکہ روس کے ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے مقالے میں بتایا گیا کہ COVID-19 کی جائے پیدائش امریکہ ہے۔ روسی اخبار اسپتنک کے مطابق کورونا وائرس شمالی یورپ کے ننھے سے بلقانی ملک لیٹویا (Latvia) میں نیٹو کی ایک فوجی تجربہ گاہ میں متولد ہوا۔ انسدادِ حیاتیاتی دہشت گردی کے ماہر اور امریکہ کے حیاتیاتی دہشت گردی کے خلاف قانون مجریہ 1989ء کا ابتدائی مسودہ تحریر کرنیوالے امریکی قانون دان پروفیسر لارنس بوائل کا بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں نقل ہوا کہ جس میں پروفیسر صاحب نے شک ظاہر کیا کہ کورونا وائرس امریکہ کا حیاتیاتی اسلحہ ہے، جسے جرثومے کی شکل میں پھیلایا گیا۔ پریس ٹی وی کا دعویٰ بھی سامنے آیا کہ امریکی ریاست میری لینڈ میں فورٹ ڈیٹرک کے حیاتیاتی اسلحہ کے ریسرچ سینٹر پر امریکہ اور اسرائیل کے ماہرین نے یہ جرثومہ تخلیق کیا، ساتھ ہی اسرائیلی سائنس دانوں کا یہ دعویٰ پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 90 روز میں Infectious Bronchitis Virus (IBV) کے خلاف ویکسین تیار کر لی جائے گی۔ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیکنیکی تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ COVID-19 کی ویکسین ہے۔
اس سے پہلے 2015ء، 2017ء اور 2018ء میں بل گیٹس نے کہا کہ دنیا میں علاج معالجہ، خاص طور سے وبائی امراض سے حفاظت کے انتظامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں، جس کی بنا پر کئی ملک کسی بڑی وبا کا مؤثر انداز میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے، کسی بھی وباء کے پھوٹ پڑنے پر اس کے مقابلے کے لیے ویکسین کی بروقت تیاری سب سے اہم اور مقدم ہے، لیکن دنیا کے ڈاکٹر، سائنس دان اور تحقیقاتی ادارے اس کے لیے تیار نہیں، تعلیم و ایجادات کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر لوگوں کا معیارِ زندگی نسبتاً بلند ہوگیا ہے، لیکن اب بھی کسی عالمی وبا کے مقابلے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی تیار نہیں، دنیا کو وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسی نوعیت کی تیار کرنی چاہیئے، جیسی دنیا کے ممالک جنگ اور فوجی حملے کے مقابلے کے لیے کرتے ہیں۔
جبکہ 2019ء میں امریکہ کی مشہور میڈیا کمپنی Netflix کی Next Pandemic کے عنوان سے بننے والی دستاویزی فلم میں بل گیٹس نے چین کے کسی مچھلی بازار سے ایک خوفناک وائرس کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔ مچھلی بازار کے بجائے جناب گیٹس نے wet market کا لفظ استعمال کیا تھا۔ دستاویزی فلم میں چینی شہر لیانگ ہوا (Lianghua) کا ایک گوشت بازار بھی دکھایا گیا، جہاں جانوروں کو صارفین کے سامنے ذبح کرکے گوشت فروخت ہوتا ہے۔ لیانگ ہوا جنوبی چین کے ساحلی صوبے گوانگ ڈونگ میں واقع ہے۔ یہاں بھی ووہان کے ہونان مچھلی بازار کی طرح مچھلی اور جانوروں کا تازہ گوشت فروخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ حُسنِ اتفاق ہے، لیکن کورونا وائرس کا ظہور بالکل اسی انداز میں ہوا، جس کا خدشہ بل گیٹس نے اس دستاویزی فلم میں ظاہر کیا تھا۔ چینی حکام، ایرانی میڈیا، روسی جرائد اور امریکی سیاست دانوں اور ماہرین کے بیانات بھی ابھی تک مفروضوں، خدشات اور قیاس پر مشتمل ہیں۔ کسی بھی جانب سے کوئی ٹھوس دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ لیکن سی این این اور فاکس نیوز نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خارجہ سیکرٹری مائیک پومپیو کی جانب سے کورونا کو لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے خدشات ظاہر کیے جانے کے بعد امریکا نے معاملے کی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور بیان میں کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ چین نے واقعی کورونا لیبارٹری میں تیار کرکے پھیلایا تو اسے نتائج کو بھگتا پڑے گا اور اگر یہ سب کچھ غلطی سے ہوا ہے تو غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں نے امریکی صدر نے پھر کہا ہے کہ ہم چین سے خوش نہیں ہیں، ہم پوری صورتحال سے خوش نہیں ہیں، کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ اس کو جڑ سے روکا جا سکتا تھا، اسے تیزی سے روکا جا سکتا تھا اور اسے پوری دنیا میں نہیں پھیلنا چاہیئے تھا اور انہیں اس کا ذمے دار ٹھہرانے کے لیے کئی راستے موجود ہیں۔ اس موقع پر ٹرمپ سے ایک جرمن اخبار کے ادارے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا، جس نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ وائرس سے جرمن معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر 165 ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا بھی ایسا ہی کچھ کرے گا تو امریکی صدر نے جواب دیا کہ ہم اس سے آسان راستہ اختیار کریں گے اور ابھی ہم نے حتمی رقم کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکا میں اب تک 56 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جبکہ تقریباً 10 لاکھ افراد وائرس سے متاثرہ ہوئے ہیں۔
دنیا بھر میں انسانیت خوف اور بیماری کیساتھ ساتھ بے روزگاری اور بھوک سے سسک رہی ہے، لیکن امریکی استعماری ذہنیت کی غمازی کرنیوالے صدر ٹرمپ کی زبان پہ صرف چین پہ جرمانے کرنے اور پیسے بٹورنے کی بات ہے۔ امریکہ میں وائرس کے موجود ہونے اور مریضوں کے سامنے آنے سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کی معیشت ڈوب رہی ہے، اس لیے دنیا بھر کے سرمایہ کار چین سے اپنی سرمایہ کاری نکال لیں، ورنہ ان کا پیسہ ڈوب جائیگا اور انہیں معاشی نقصان اور خسارے کا سامنا کرنا پڑیگا۔ لاکھوں افراد کو بارود برسا برسا کر موت کی وادی میں دھکیلنے والی ظالم سامراجی طاقت سے اس کے سوا کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو مصیبت اور زندگی اور موت کی کشمکش میں صرف اپنے مفادات کیلئے ہی اقدامات کریں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ فرعونی طاقتیں ظاہری طور پر کمزور اور سادہ لوح انسانوں کو یہ بھی باور کرواتی ہیں کہ وہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہیں، لیکن پے در پے غلطیاں اور ناکامیاں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے چین نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے عالمی سطح پر آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی مطالبات کی بنیاد سیاسی اور وبا کے خلاف جنگ سے چین کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
الزامات کے ذریعے کمزوریاں چھپانے کی امریکی کوشش
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے