تحریر: مجتبیٰ ابن شجاعی This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
سرزمین فلسطین انبیاء کرام کی سرزمین ہے، یہاں انبیاء کرام کی ایک بڑی تعداد یا تو مدفون ہے یا پھر اسی سرزمین سے دیگر ممالک کی جانب ہجرت کرکے چلے آئے ہیں۔ قبلہ اول جو آج غاصب اسرائیل کے نرغے میں ہے، بھی اسی سرزمین پر موجود ہے۔ ظہور اسلام سے قبل اور ظہور اسلام کے بعد اس مقدس و محترم سرزمین نے مختلف ادوار دیکھے، زمانہ کے نشیب و فراز سے اس قطعہ ارض کو گزرنا پڑا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطین ہمیشہ دعوت الٰہی کا مرکز رہا۔ انبیاء نے دعوت حق کے مقدس مشن کے لیے اس سرزمین پر اقامت اختیار کی۔ آسمانی کتابوں میں ارض قدس کی مرتبت و منزلت بیان ہوئی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد الحرام سے یہاں پہنچے تھے۔ قرآن پاک کے سورہ مبارکہ اسراء آیت نمبر 1 میں ﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس مسجد (قبلہ اول) کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ”پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (پیامبر گرامی) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک کی سیر کرائی۔“ حضور اکرم نے اس مقدس مقام کی صرف سیر نہیں کی بلکہ تبدیلی قبلہ کے حکم سے قبل مسجد الاقصیٰ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کی۔ تحویل قبلہ کے بعد مسلمانوں کا قبلہ کعبہ شریف بنا۔ گویا فلسطین سرزمین انبیاء ہے، اس مقدس و محترم سرزمین سے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ دنیا بھر کے کھربوں مسلمانوں کی دلی وابستگی ہے۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ آج سے تقریباً تہتر سال پہلے اس سرزمین پر اسرائیل نامی صیہونی ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل مٹھی بھر یہودی ارض فلسطین پر آباد تو تھے، یہ اپنے ازلی حریف عیسائیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے سینکڑوں سال تک مسلمانوں کے زیر سایہ اپنی زندگی بسر کر رہے تھے اور مسلمانوں کے ہوتے ہوئے بنا کسی خوف و خطر کے اپنے مذہبی امور انجام دیتے تھے۔ صیہونی دہشتگردی نامی کتابچہ کے مطابق 1800ء سے قبل صرف چھ ہزار سات سو یہودی فلسطین میں آباد تھے، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کرکے فلسطین کی سرزمین پر بٹھایا گیا اور 1915ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ستاسی ہزار پانچ سو تک پہنچ گئی اور یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی، 1947ء تک فلسطین کی سرزمین پر چھ لاکھ تیس ہزار یہودیوں کو بسایا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1948ء میں امریکہ اور برطانیہ کی ناجائز اولاد غاصب صیہونی ریاست ”اسرائیل“ وجود میں آگیا۔
پہلی جنگ عظیم ہی تاریخ کا وہ منحوس ترین دور دورہ تھا، جب اسلام دشمن قوتوں نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنا لیا۔ اس منصوبہ کا ماسٹر مائنڈ برطانیہ اور شیطان بزرگ امریکہ تھا۔ جنہوں نے جدید صیہونیت کے بانی کار تھوڈور ہرٹزل نامی منحوس شخص کو استعمال کیا۔ کڑی سازشوں اور ناپاک منصوبوں کے بعد 14 مئی 1948ء کا وہ تاریک اور منحوس ترین دن آپہنچا کہ فلسطین کی مقدس سرزمین پر صیہونی ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے قلب میں اسرائیل نام کی غاصب اور غیر قانونی ریاست اسرائیل کے وجود کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح سے حقوق بشر کے نام نہاد دعویدار نے دنیا بھر کے کھربوں مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلوڑ کیا اور اقوام متحدہ نے بھی تقسیم فلسطین کا منصوبہ منظور کرکے مسلمانان عالم کو اپنا حقیقی چہرہ دکھایا۔ اسرائیل کا وجود حقوق بشر کے تابوت میں آخری کیل اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ناپاک وجود سے لیکر آج تک برطانیہ اور امریکہ کی اس ناجائز اولاد نے فلسطین کی سرزمین پر حق رکھنے والے وہاں کے اصلی باشندوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ ریکارڈ توڑ مظالمِ کے سہارے فلسطینیوں کو محدود دائرے میں مقید کرکے رکھ دیا۔ مظلوم فلسطینی عوام کو درندگی کا نشانہ بنانے کے لیے موساد نامی دہشتگرد گروہ تیار کئے، جنہوں نے نہ صرف دسیوں ہزار فلسطینیوں کی قتل و غارتگری کی بلکہ بدنام زمانہ قید خانوں میں ان کے اعضاء کی چوری کی۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونی اپنے جنم دن سے ہی شرپسندی کا نمونہ بنے ہوئے ہیں، یہ ٹولہ کرہ ارض پر قتل و غارتگری سود خوری، شراب خوری اور دیگر انسانیت سوز برائیوں کے انجام دہی میں پیش پیش رہا۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہودی اور عیسائی وجود اسرائیل سے قبل ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن شمار ہوتے تھے۔ آپس میں خون کے پیاسے ہیں۔ عیسائی عقیدے کے مطابق یہودیوں کے بانی کار نے ہی قتل عیسٰی ؑ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، اسی تناظر میں ہٹلر نے بھی اس ٹولہ کو تہہ تیغ کیا۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف دونوں حریف متحد ہوگئے، آپس میں گلے مل گئے۔ عالمی سامراج نے ناجائز اولاد ”اسرائیل“ کو جنم دیا، اس کی پرورش کی۔ سامراج کو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں پر اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لیے انہیں ایک اڈہ ملا۔ گذشتہ سات دہائیوں سے امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور فوجی و اقتصادی مدد سے غاصب، جابر و سفاک اسرائیل نے اس ملک کے اصلی باشندوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھائے۔ قتل و غارتگری لوٹ مار اور بستیوں پر بلڈوزر چلا کر اپنے ناجائز قبضے کا دائرہ وسیع کرتا رہا، لیکن افسوس صد افسوس ان سات دہائیوں میں مٹھی بھر مجاہدین ملت کے سوا کسی ایک نام مسلمان نے اسرائیل کی ناپاک حرکتوں پر اعتراض نہ جتایا۔
اپنی بدنصیب آنکھوں سے فلسطینی عوام کے قتل عام اور قبلہ اول کی بار بار بے حرمتی اور توہین کا نظارہ کرتا رہا۔ اگرچہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے لگانے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں کی۔ مسلکوں کے نام پر جنت کو تقسیم کیا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر ننھے اور معصوم بچوں، نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد کے ظلم و ستم پر زبان کھولنے تک کی زحمت نہ کی۔ سچ بات یہ ہے کہ امت مسلمہ نے قبلہ اول کو بُری طرح سے فراموش کیا۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے چند ماہ بعد اس انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی ؒنے فلسطینی عوام کی حمایت اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے یوم قدس کا تاریخ ساز فتویٰ اگست 1979ء میں جاری کیا۔ امام خمینیؒ نے یہ فتویٰ صیہونیت کی جانب سے منائے جانے والے یوم یروشلم کی مخالفت کے تناظر میں جاری کیا۔ یوم قدس کے اس تاریخ ساز فتوے نے اسرائیل کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ غاصب اسرائیل اور اس کے آقا بخوبی سمجھ گئے کہ امام خمینی ؒ کے اس اقدام سے فراموش شدہ مسئلہ، مسئلہ فلسطین زندہ و جاوید بن جائے گا۔
لہذا انہوں نے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف بھی چالبازیاں اور پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔نت نئے حربے اور ہتھکنڈے آزمائے، لیکن ایک ایک کرکے سب ناکام ثابت ہوگئے۔ آئے روز پابندیوں کا دائرہ وسیع کر دیا اور اسلامی انقلاب کی قیادت کو زیر کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی، لیکن امام راحل ؒ کی اس مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت نے جھکنے، بکنے اور تھکنے کا نام تک بھی نہ لیا، نہ ہی کبھی فلسطینیوں کی حمایت سے دستبرداری کا احساس کیا۔ امام راحل نے کردار یزیدی کے مقابل حسینیؑ کردار نبھایا، اپنے وطن عزیز سے عالمی سامراج کو بے دخل اور مشرق وسطیٰ سے اس کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کیا۔ ہمارے عرب حکمرانوں نے عالمی سامراج کے ساتھ سودا کیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ اور کندھے کے ساتھ کندھا ملایا۔ اپنے دشمن کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ فلسطین سمیت دیگر مظلومین و مستضعفین جہاں کو تنہا و بے آسرا چھوڑا۔ لیکن سرزمین ایران سے مسلمانان عالم کا ایک خیر خواہ اٹھا، جس نے اسلام ناب محمدی کو سمجھ لیا تھا۔ آیت ﷲ امام خمینی ؒ نامی اس عظیم الشان ہستی نے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کا بیڑا غرق کرکے وقت کے اس بڑے طاغوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
یوم قدس کا تاریخ ساز فتویٰ جاری کرکے امام راحل ؒ نے مرحوم ملت کو بیدار کیا اور سامراج کو باور کرایا کہ مسلمان غاصب ریاست کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے، بلکہ تل ابیب کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیں گے۔ یوم قدس دراصل برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل سمیت دیگر غاصب، ظالم و جابر قوتوں کے خلاف نفرت و بیزاری کے اظہار کا دن ہے، ملت مرحومہ کے لیے حیات بخش دن ہے، مسلمانوں کی آزادی کا دن ہے، قبلہ اول کی بازیابی کا دن ہے، القدس لنا کا یہ نعرہ رسول اسلام کے مقدس مشن کا نعرہ ہے۔ انقلاب اسلامی کے اس پروردہ نعرے نے شرق و غرب کے مظلوم عوام کو ظلم و جور کے آگے سر اٹھا کے چلنے کا سلیقہ سکھایا۔ اس نعرہ نے مظلوم کو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا۔ اسی نعرے کی برکات سے قائد مقاومت و مزاحمت سید حسن نصر ﷲ کی قیادت والے حزب اللہ لبنان نے صرف اور صرف 33 روز میں جدید ساز و سامان سے لیس غاصب، جابر، سفاک اور وقت کے سب سے بڑے طاغوت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور تحریک حماس کے جانباز جوانوں نے حالیہ برسوں میں واشنگٹن کی ناجائز اولاد اسرائیل کو عسکری وسائل کی قلت کے باوجود سر جھکانے پر مجبور کردیا۔ یہی سبب بنا کہ آج اسرائیل ذہنی تناو میں مبتلا ہوکر جنگ بندی کی بولی بول رہا ہے۔
امام خمینی ؒنے 1979ء میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم قدس منانے کی اپیل کی۔ آج بلا لحاظ مسلک و ملت و مذہب 80 سے زائد ممالک میں آزاد منش افراد رمضان المبارک کے آخری جمعے کو روز جہانی قدس کے طور پر مناتے ہیں۔ امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: ”میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہیں کہ وہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر منائیں اور اس دن فلسطین کے مسلمان عوام کے قانونی حقوق حمایت میں اپنے اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔“ امام خمینی ؒ فرماتے ہیں: ”میں عرصہ دراز سے تمام مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کر رہا ہوں، جس نے ان دنوں ہمارے فلسطینی بھائیوں، بہنوں پر اپنے مظالم میں اضافہ کر دیا ہے۔ میں امت اسلامیہ بالخصوص اسلامی حکومتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس غاصب (اسرائیل) اور اس کے حامیوں کے ہاتھ کاٹنے کے لیے متحد ہو جائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس قرار دے کر کسی بھی پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر فلسطینی مسلمان عوام،تمام مسلمان اور مظلومین جہاں کے ساتھ ہمدردی کا اعلان کریں۔“(صحیفہ امام) آپ فرماتے ہیں کہ ”یوم القدس عالمی ہے یہ صرف قدس سے متعلق نہیں بلکہ مستکبرین کے ساتھ مقابلہ کا دن ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا دن ہے، یہ اسلام کا دن اسلامی حکومت اور اتحاد بین المسلمین کا دن ہے۔“
یوم قدس کے تناظر میں رہبر انقلاب حضرت امام خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ”یوم قدس منانا چاہیئے، اگر دنیا کا میڈیا اس کی کوریج کرے یا نہ کرے، وہ لوگ جو فلسطین کے زندانوں میں قید ہیں، آپ کی اس صادقانہ نیت اور عزم سے قوت کا احساس کرتے ہیں اور دشمن کے خلاف مقاومت کرتے ہیں۔ فلسطین کی سرزمین کی ایک ایک بالشت تمام مسلمانوں کے گھر کی ایک ایک بالشت ہے۔ اس سرزمین پر فلسطینی حکومت کے علاوہ کوئی بھی دوسری حکومت غاصب ہے۔“ بہرحال یوم قدس ایک بہترین موقع ہے کہ تمام مسلمان متحد و بیدار ہو جائیں۔ فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کریں۔ نہ صرف اعلان بلکہ زمینی سطح پر فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں اور مسلم ممالک میں استعماری سازشوں کا خاتمہ کرکے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔ ”نصر من ﷲ و فتح قریب۔“ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں (علامہ اقبال)ؒ