امارات کی اسرائیل دوستی، امتِ مسلمہ اور قبلہ اول کیساتھ خیانت

Rate this item
(0 votes)
امارات کی اسرائیل دوستی، امتِ مسلمہ اور قبلہ اول کیساتھ خیانت

گذشتہ کچھ عرصے سے ایسی اطلاعات سامنے آرہی تھیں کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان درِپردہ کچھ چل رہا ہے۔ نیتن یاہو کے خفیہ دورہ امارات کے انکشافات بھی ہو رہے تھے۔ فلسطینی و صیہونی میڈیا بھی کچھ ایسے دعوے کر رہا تھا، جن سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ امارات عنقریب اسرائیل کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے جا رہا ہے۔ جون میں ایک اسرائیلی ٹی وی چینل 13 نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات ایران کے خلاف جنگ کے لئے اسرائیل کے خفیہ اسٹریٹجک پارٹنر کا روپ دھار چکا ہے۔ اسی طرح فلسطینی اخبار القدس العربی کے مطابق جنوبی یمن میں متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ علیحدگی پسند تنظیم "جنوبی عبوری کونسل" کے نائب صدر شیخ ہانی بن برک نے کہا تھا کہ اسرائیل اپنا الحاقی منصوبہ جلد از جلد مکمل کر لے، تاکہ کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔ شیخ ہانی نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا تھا کہ اسرائیل قابض نہیں بلکہ اپنی ہی سرزمین پر موجود ہے۔

بالآخر میڈیا کے یہ دعوے درست ثابت ہوئے اور 12 اگست کو اس معاہدے کے اصل محرک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا کہ "ہمارے دو پیارے دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدہ" اس ٹوئٹ کے بعد امریکی صدر کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک اگلے ہفتے سفارت خانوں کے قیام، سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سکیورٹی، ٹیکنالوجی، توانائی، ثقافت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اہم معاہدے کریں گے۔ امریکی صدر کے اس ٹوئٹ اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے فوراً بعد سے اماراتی حکام اپنے تئیں معاہدے کے "ان گنت فوائد" کی نوید سنا رہے ہیں۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق اسرائیل اب مغربی کنارے کو ضم نہیں کرے گا اور انضمام کا یہ سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ ایک اور اماراتی سینیئر عہدیدار عمر سیف غباش نے اس معاہدے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے یہ معاہدہ دانشمندی کی ایک اعلیٰ مثال اور عالمی اہمیت کا حامل ایک اہم معاملہ ہے۔ عمر غباش کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا توسیعی منصوبہ بہت خطرناک تھا اور امارات نے اسے روکنے کے لئے یہ اہم قدم اٹھایا ہے۔ غباش نے واضح کیا کہ یہ اقدام فلسطینی عوام کے بہتر مستقبل کے لئے اٹھایا گیا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم نے بغیر کسی لحاظ اور مروت کے فوری طور پر اس کی تردید کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ مغربی کنارے کے انضمام کا فیصلہ کالعدم نہیں ہوا بلکہ ابھی بھی ہماری ٹیبل پہ موجود ہے اور ہم اپنی زمین کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ نیتن یاہو کے اس بیان  سے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ جس طرح مصر اور اردن سے اسرائیل کے امن معاہدے فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے کسی مثبت پیش رفت کا ذریعہ نہیں بن سکے، اسی طرح امارات اور اسرائیل کا سمجھوتہ بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی کے ازالے میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس تردیدی بیان نے اماراتی حکام کی امتِ مسلمہ اور خصوصاً مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کی گئی خیانت کو آشکار کر دیا ہے۔

درحقیقت متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ یارانہ قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ایک سازش اور فلسطینی عوام کی 70 سالہ جدوجہد کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام کے خونخوار قاتل کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اماراتی شہزادوں کو غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری کیوں نظر نہیں آئی۔ فلسطینی گھروں پہ چلتے وہ صیہونی بلڈوزر کیوں نظر نہیں آئے، جنہوں نے فلسطینیوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ معصوم بچوں کی خون میں لت پت لاشیں کیوں نظر نہیں آئیں۔؟؟؟ لیکن ابھی اسی پر بس نہیں، امتِ مسلمہ مزید خیانتوں کی منتظر رہے، کیونکہ امریکی صدر اور ان کے مشیر کشنر نے برملا یہ اعلان کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک اور عرب ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گی، اب یہ ریاست کوئی بھی ہو، لیکن ایک بات انتہائی واضح ہے کہ امریکی انتخابات سے پہلے ٹرمپ کورونا وائرس سے شکست کھانے کے بعد اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں اور جلتی پر تیل کا کام سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی جانب سے پیش کی جانے والی ایران مخالف قرارداد نے کیا، جسے صرف ایک ووٹ وہ بھی ڈومینیکا جیسے ملک کی صورت میں ملا، ایسی صورتحال میں ٹرمپ انتظامیہ عرب ممالک پہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے مسلسل دباو بڑھا رہی ہے، تاکہ اپنے اسرائیل نواز ووٹرز کے دلوں میں جگہ بنائی جاسکے۔

قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس وقت جب کہ امریکی انتخابات کی آمد آمد ہے اور ووٹرز کی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے یہودی اثر و رسوخ کی وجہ سے ووٹرز کی بڑی تعداد "مظلوم اسرائیل" کے نام پر ووٹ پول کرتی ہے، کوئی بھی صدارتی امیدوار اگر مظلوم اسرائیل اور اس کے حقوق کی بات کرے تو\ ووٹرز پر اس کا خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ اس وقت مظلوم اسرائیل کا کارڈ کھیل کر امریکی ووٹرز کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دوسری جانب اسی سے ملحق نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ عرب حکمرانوں کو یہ باور کرایا ہے کہ انہیں اسرائیل سے نہیں بلکہ اصل خطرہ ایران کی جانب سے ہے، لہذا انہیں اسرائیل سے مراسم بڑھانے چاہیئیں، تاکہ ایران کے ساتھ مقابلے میں اسرائیل ان کا محافظ بن سکے۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے میں بھی امریکہ کا یہی حربہ کارگر رہا۔ اس معاہدے کے بعد اب امریکی صدر اور ان کے مشیر ایک اور معاہدے کی خبر دے کر امریکی ووٹرز کو چکمہ دینے کی سعی کر رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرکے امت مسلمہ کے ساتھ جو خیانت کی ہے، اس پر حقیقی مسلمان اسے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ فلسطینی مقاومتی محاذ خصوصاً حماس، جہاد اسلامی اور الفتح سمیت حزب اللہ اور ایران نے اس معاہدے پر شدید تنقید کی ہے اور اسے فلسطینی کاز کے ساتھ بہت بڑی خیانت شمار کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مقاومتی عمل کسی لحاظ سے بھی سست نہیں ہوگا اور پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر قبلہ اول کی آزادی کے لئے سرگرم عمل رہے گا۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے بھی اس معاہدے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے خیانت قرار دیا اور 16 اگست کو یوم فلسطین منایا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے بھی اس معاہدے کے دوررس مضمرات کا ذکر کیا ہے اور اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کے لئے ہمیشہ آواز بلند کرتا رہے گا، لیکن ہمیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت ایک زندہ قوم قبلہ اول کی آزادی کے لئے ایک مضبوط کردار ادا کرنا ہوگا اور بیت المقدس کی آزادی کے ساتھ خیانت کرنے والوں سے اپنے رستے جدا کرنے ہوں گے۔
 
 
 
Read 747 times