لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عید میلاد النبیؐ اور جشن ولادت حضرت امام جعفر الصادقؑ کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ کو مبارکباد دی اور تازہ ترین سیاسی حالات پر گفتگو کی۔ سید حسن نصراللہ نے قرآن کریم کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معجزہ اور آپؐ کی کامیابی کو اس زمانے کے عرب معاشرے میں "انسانیت" کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ حضرت پیغمبر اکرمؐ نے عبادت، انسانی و اخلاقی اقدار اور اس وقت کے عرب معاشرے کے نظم و ضبط کے حوالے سے (بت پرستی کو توحید پرستی میں بدل کر) عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی عظیم انسانی شخصیت اور ان کی جانب سے لائی جانے والی اعلی انسانی و اخلاقی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتے۔ سید مقاومت نے فرانسیسی شر پسند عناصر و حکومت کی جانب سے ہونے والے توہین آمیز اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس سے متعلق تازہ ترین مسائل کی اصلی وجہ اس ملک کے حکام ہیں جبکہ ہم اس مسئلے کا حل چاہتے
ہیں اور اس میں شدت کے خواہاں نہیں۔
سید مقاومت نے فرانس کے شہر نائیس (Nice) میں ہونے والے حادثے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور اسلامی جماعتوں کی جانب سے ایسے اقدامات، چاہے وہ ماضی میں رونما ہوئے ہوں یا مستقبل میں رونما ہونا ہوں، کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ایسا ہر اقدام مسترد اور غیر قابل قبول ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی حکام سمیت کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسے اقدامات کو دین یا دین کے پیروکاروں کے ساتھ منسوب کر دیں جبکہ ایسی کوئی بھی حرکت نہ صرف غلط بلکہ غیر اخلاقی و غیر قانونی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع پر صرف اُسی شخص کو اس (دہشتگردانہ) اقدام کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے جس نے وہ کام انجام دیا ہے چاہے اس کا محرک دینی ہی کیوں نہ ہو۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عیسائی ایسا کام کر بیٹھے تو کیا وہ دہشتگردانہ اقدام عیسائیت یا نعوذباللہ حضرت عیسی مسیحؐ کے ساتھ منسوب کیا جائے گا؟
سربراہ حزب اللہ لبنان نے فرانسیسی حکام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی دہشتگردی یا اسلامی فاشزم (Islamofascism) کے بارے بات کرنے کا فرانسیسی حکام کو
کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں ہونے والے امریکی جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ان تمام جرائم کو عیسائیت کے ساتھ منسوب کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ امریکی دہشتگردی عیسائی دہشتگردی ہے؟ انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی بعضی یورپی بیانات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ خود مسلمان اپنے بعض اعمال و بیانات کے ذریعے اپنے پیغمبرؐ کی توہین کرتے ہیں جبکہ بعض مسلمانوں کی جانب سے اسلام کے ساتھ بُرا کرنے سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس دین کی توہین کرے۔ سید حسن نصراللہ نے خطے سمیت پوری دنیا میں موجود تکفیری سوچ کو حاصل مغربی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے اس تکفیری و دہشتگردانہ سوچ کی کھل کر حمایت کی ہے جو صرف فکری اختلاف پر ہی قتل و غارت کا بازار گرم کرنے پر اتر آتی ہے۔ انہوں نے مغربی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم امریکی اور فرانسیسی حکام نے ان دہشتگردوں کی براہ راست مدد کی ہے!
سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک دہشتگردی و تکفیریت کی حمایت
اور اس کا استعمال بند کر دیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جس آزادی اظہار رائے کا فرانسیسی حکام دم بھرتے ہیں اور اس کے دفاع کے مدعی ہیں، انہوں نے رسولؐ مقبول اسلام کی توہین سے کم حساس مسائل پر اسی آزادی اظہار رائے کا بارہا گلا گھونٹا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے یورپی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان (دہشتگردوں) کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لو کیونکہ یہ بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹ کر واپس آئیں گے اور جو کچھ تم شام، عراق اور دوسرے ممالک میں ان کے ذریعے انجام دے چکے ہو، وہ سب کچھ بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹنے والا ہے! سید مقاومت نے آزادی اظہار رائے کے فرانسیسی ڈھونگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے معروف فلسفی، لکھاری اور یونیورسٹی استاد راجر گارودی (Roger Garaudy) کو ہولوکاسٹ سے اٹھائے جانے والے غلط فائدے کے بارے علمی تحریر پر جیل میں جانا پڑا؛ صرف اور صرف اس لئے کہ جب بھی کوئی موقف اسرائیل کے خلاف ہو تو فرانس کے اندر آزادیِ اظہار رائے کو ختم کر دیا جاتا ہے جبکہ اس یورپی ملک کے اندر اس جیسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
سید مقاومت
نے معروف فرانسیسی فلسفی و لکھاری کے علمی کاموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ راجر گارودی کو ہی دیکھ لیجئے، اس کا قصور؛ ہولوکاسٹ کے بارے ایک تحقیقاتی کتاب کی تصنیف تھا جس کے اندر راجر گارودی نے صرف اور صرف علمی تحقیقاتی کام انجام دیا تھا، نہ ہی کسی کی تضحیک کی تھی اور نہ ہی کسی کی توہین! بلکہ اس نے یورپ کے اندر مشہور ایک موضوع کا صرف علمی جائزہ لیا تھا! سید حسن نصراللہ نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ کیوں اظہار رائے کی آزادی کو صرف اور صرف یہودی دشمنی (Anti-Semitism) میں ہی روکا جاتا ہے؟ آزادی اظہار رائے پر مبنی مغربی سوچ پر نظر ثانی کی دعوت دی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ کوئی مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی توہین برداشت نہیں کرے گا، مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ توہین آمیز اقدامات کی روک تھام کریں اور اس جیسے مسائل کو جڑ سے ختم کر دیں۔ انہوں نے یورپی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدل و انصاف سے کام لو اور آزادیِ اظہار رائے کو بالکل ویسے ہی جیسے تم غیر مسلموں کے لئے روا رکھتے ہو، مسلمانوں کے لئے بھی روا رکھو!
سید حسن نصراللہ نے شیخ الازہر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان؛ جس میں مطالبہ
کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے اندر انبیائے الہی کی توہین کی مذمت اور اُسے جرم قرار دیا جائے، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الازہر کی پیشکش کو عملی جامہ پہنا کر توہین آمیز اقدامات کے تسلسل اور اشتعال انگیز کارروائیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اپنے خطاب میں یمنیوں کے ملین مارچز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے اوپر مسلط کئی سالہ وحشتناک جنگ، سخت ترین سرحدی محاصرے اور بھوک کے باوجود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جشن میلاد کے موقع پر سڑکوں پر نکل کر آپؐ کا دفاع کیا ہے! انہوں نے کہا کہ یمنیوں نے اپنے اوپر مسلط کی گئی بھیانک مشکلات کو حضرت نبی اکرم (ص) سے دفاع نہ کرنے کا بہانہ نہیں بنایا اور اسی طرح وہ فلسطینی امنگوں کا بھی بھرپور دفاع کرتے ہیں جس کے باعث ان سب پر حجت تمام ہو چکی ہے جنہوں نے اس مسئلے میں تاحال خاموشی سے کام لیا ہے! انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یمن پر مسلط کردہ وحشتناک جنگ کو ختم کرنے کے لئے عرب دنیا کے اندر ایک عظیم تحریک اٹھنا چاہئے جبکہ یہ اس حوالے سے انجام دیا جانے والا کم از کم کام ہو گا۔