امسال ہفتہ وحدت کے پروگرامات اور تقریبات ایسے عالم میں انجام پا رہے ہیں کہ ایک طرف منحوس کرونا نے عالم اسلام سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات، بحرین کے بعد سوڈان جیسے اسلامی ملکوں کے سربراہ غاصب اسرائیل کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ سعودی حکمران بھی ذہینی اور قلبی طور پر اسرائیل کی زلفوں کے اسیر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی وحدت کی اہمیت میں اور بھِی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کل عید میلاد النبی کے ایام ہیں، دنیا بھر میں رسول گرامی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت کے جشن برپا ہیں۔ اہل سنت کے ہاں 12 ربیع الاول اور اہل تشیع کے ہاں 17 ربیع الاول کو ولادت باسعادت کے پروگرام اور تقریبات منعقد ہوتے ہیں۔ امام خمینی نے ولادت کی تاریخ کے اس اختلاف کو اتحاد و وحدت میں تبدیل کرنے کے لیے 12 سے 17 ربیع الاول کے درمیان ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا۔ آج امت مسلمہ جس بحرانی دور اور مشکلات سے گزر رہی ہے اور جس طرح مسلماںوں کو لڑانے کے لیے سامراجی سازشیں زور و شور سے جاری ہیں، ماضی میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔
اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ ماضی میں بھی مسلمانوں اور اسلام کو جب کبھی بھی نقصان پہنچا تو وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف و افتراق کا ہی نتیجہ تھا۔ آج دشمن کی طرف سے میڈیا وار اور نرم جنگ میں جس موضوع پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کا ایجنڈا ہے۔ آج یمن، بحرین، نائیجریا، میانمار، کشمیر، افغانستان، عراق، شام اور فلسطین جیسے ممالک پر نظر دوڑائیں تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں نے مسلمان ریاستوں کو کس طرح کے چیلنجوں اور مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج امت مسلمہ اگر یکجا اور ہم آہنگ ہوتی کیا مذکورہ بحران زدہ مسلمان ممالک کے عوام کی یہ صورتحال ہوتی۔ اگر مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور اتحاد و وحدت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے تو اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکتیں۔
گذشتہ سالوں میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کا ایجنڈا بھی بنیادی طور پر اسلام کو کمزور کرنے کی بلواسطہ سازش تھی۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور بوکو حرام جیسے گروہ بظاہر اسلام کی شناخت کے ساتھ جس طرح عالم اسلام کو تقسیم کرنے کا باعث بنے، اس طرح کا کام ماضی میں کفار و مشکرین بھی نہ کرسکے۔ ان تکفیری اور انتہاء پسند گروہوں نے اسلام کے امن و صلح پسند چہرے کو اس طرح بگاڑ کر پیش کیا کہ اب بدقسمتی سے اسلام اور دہشت گردی کا نام ساتھ ساتھ لیا جانے لگا ہے۔ قرآن نے جس اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا، تکفیری گروہوں نے عملی میدان میں اس کی نفی کی۔ قرآن وحدت و یکجہتی پر تاکید کرتا ہے جبکہ تکفیری اور انتہاء پسند گروہ کلمہ گو مسلمانوں کو بھی دائراہ اسلام سے خارج کرنے پر بضد ہیں۔ قرآن توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے اتحاد و یکجہتی اور انسانوں پر احسان کی بات کرتا ہے، لیکن تکفیری گروہ توحید کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور انہیں زندہ جلا کر اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرآن "وعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو" کی صدائیں بلند کر رہا ہے اور تکفیری اور انتہاء پسند نام نہاد مسلمان تفرقہ اور نفرت کو اسلام کا شعار اور سلوگن قرار دے کر اپنے علاوہ ہر ایک کو کانفر اور مشرک بنا رہے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبے میں مسلمانوں کے رہبر و رہنما کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ حکومت میں حاکم کی حیثیت وہی ہے جو تسبیح میں دھاگے کی ہوتی ہے، جو سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اگر یہ لڑی ٹوٹ جائے تو تسبیح کے تمام دانے بکھر جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی مثال ایک ڈیم کی مانند ہے، جو بکھرے پانی کو ایک جگہ جمع کرکے ایک ایسی طاقت میں بدل دیتا ہے، جس سے توانائی اور بجلی تیار ہوسکتی ہے، بنجر اور ویران زمینیں آباد اور سرسبز و شاداب کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ پانی ڈیم کی بجائے وسیع و عریض زمین پر پھیل جائے اور اس کے سامنے ڈیم نہ بنایا جائے تو اتنی بڑی طاقت ضائع و ناپید ہو جائے۔ مسلمانوں کے درمیان اگر اتحاد نہ ہو، ان کی توانائیاں اور صلاحتیں بکھر جائیں اور ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو امت مسلمہ کا عظیم پوٹینشل اور صلاحیت بغیر کسی مقصد و ہدف کے ضائع ہو جائے گی۔ مسلمانوں کے باہمی اتحاد و انسجام کی بہت برکتیں ہیں۔ مسلمان اور امت مسلمہ اتحاد و وحدت کے ذریعے عظیم انسانی الہیٰ اہداف تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ سامراجی سازشوں کو ناکام بنا کر انسانیت کی خدمت کا عظیم الہیٰ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
موجودہ صدی کے اتحاد و وحدت کے عظیم داعی بانی انقلاب حضرت امام خمینی اسلامی وحدت پر تاکید کرتے ہوئے اسلامی وحدت کو طاقت و اقتدار کا منبع قرار دیتے تھے۔ آپ اسلامی وحدت کو عالم اسلام کی ایک امنگ اور ارمان قرار دیتے تھے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ نقطے پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ آپ نے اپنے نظریات میں اس بات کو پیش کیا ہے کہ حکومت اسلامی کی تشکیل بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا بہترین وسیلہ ہے۔ امام خ٘مینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد جب آپ پر شدید قسم کا اندرونی و بیرونی دبائو تھا، آپ نے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے برملا ارشاد فرمایا کہ ہم اہل سنت مسلمانوں کے ساتھ ایک ہیں، ہم سب بھائی اور اخوت اسلامی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی بات کرے گا تو وہ جاہل ہے یا مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے سامراجی ایجنڈے پر کاربند ہے، شیعہ اور سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہم سب بھائی بھائی ہیں۔
امام خمینی نے انقلاب کے چند دن بعد کردستان کے علاقے کے عوام کے نام جن میں اکثریت اہل سنت کی تھی، فرمایا تھا کہ بعض بیرونی ایجنٹ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بیرونی آقائون کے مفادات خطرے سے دوچار ہیں تو وہ اہلسنت بھائیوں کو اکساتے ہیں اور شیعہ سنی جو بھائی بھائی ہیں، ان کے درمیان فتنہ و فساد کو بھڑکاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں تمام سنی و شیعہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب کے برابر اور مساوی حقوق ہیں۔ جو کوئی بھی سنی شیعہ اختلافات کی بات کرتا ہے، وہ ایران اور اسلام کا دشمن ہے۔ میں کرد برادران سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس طرح کے غیر اسلامی پروپیگنڈے کو جڑ سے ختم کر دیں۔
ہفتہ وحدت امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت(1)
Published in
مقالے اور سیاسی تجزیئے