امریکا اقوام عالم میں ایک عرصے تک ناقابل تسخیر فوجی طاقت تھا، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تو یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا۔ جاپان کے ہیروشیما سے لے کر سوویت یونین کے ٹکڑوں تک سب میں امریکا کا ہاتھ رہا۔ ہر ملک جس پر امریکہ نے چڑھائی کی، اس کا مقدر تباہی اور بربادی ٹھہرا۔ فوجی قوت کے علاوہ معاشی میدان میں بھی امریکہ نے دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ دنیا میں جس قوم کے پاس مضبوط معیشت اور دفاع ہوں، وہ عالمی سیاست اور سفارت کے میدان میں بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکا عالمی سطح پر کچھ ایسے ہی مقام کا حامل ہے۔ اقوام عالم اقوام متحدہ میں بیٹھ کر امریکا کا منہ دیکھتے ہیں کہ مائی باپ جو موقف اختیار کریں، اسی موقف کی تائید کی جائے۔ کئی اقوام اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکی اداروں، نمائندگان اور عہدیداروں کے تلوے چاٹتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ بہادر کا جب جی چاہتا ہے، ان پر ایک نظر کرم فرماتا ہے اور مسئلہ سے متعلق ایک آدھا بیان داغ دیتا ہے، جسے سن کر مسئلہ سے دوچار قوم کے قائدین اور عوام پھولے نہیں سماتے۔ پریشانی بہرحال دوسرے کو بھی لاحق ہوتی ہے، جسے امریکا سفارتکاری کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔ یوں دونوں فریق خوش ہو جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا اقتدار مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔ گذشتہ کئی عشروں سے امریکا ہی ہے جو دنیا میں فیصلہ سازی کرتا ہے اور اس کے حواری نیز دیگر اقوام ان فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔
ایسے میں ایران میں ایک ایسا مرد قلندر اٹھا، جس نے نہ صرف امریکا کو نہ کہا بلکہ اسے ’’شیطان بزرگ‘‘ کا نام دیا اور دنیا کے مسائل کا حقیقی سبب امریکا کو قرار دیا۔ یہ بات کرنا اور اس پر قائم رہنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ روس جو سوویت یونین کا ایک حصہ تھا، اس کے لیے امریکی اجارہ داری کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا، تاہم اسے بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے نہ کہے اور اس نہ پر قائم رہے۔ یہ امام خمینی ؒ کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ اپنے بیان پر نہ فقط قائم رہے بلکہ اس بیان کے سبب امریکہ کی جانب سے آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اپنے فرزند کی شہادت سے لے کر ملت ایران کے لاکھوں فرزندوں کی شہادت، معاشی پابندیوں، سفارتی بائیکاٹ، اقتصادی، تعلیمی، پیداواری تعطل کو برداشت کیا لیکن اپنے موقف سے سر مو انحراف نہ کیا۔ امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد ملت ایران نے امام راحل ؒ کے نقش قدم کو حرز جاں بنایا اور امام کی قائم کردہ حکومتی پالیسیوں کو دوام بخشا، جس میں یقیناً ایران کی موجودہ قیادت کی بصیرت اور اخلاص کا ایک بڑا کردار ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے سامنے کوئی ایسا قابل ذکر دشمن نہ تھا، جو امریکی طاقت اور تسلط کو چیلنج کرے، ہاں اسلام ایک مکتب کے طور پر اس کی آنکھ میں ضرور کھٹکا۔ اسلام بحیثیت مکتب مغرب کی نگاہ میں روز اول سے چبھتا ہے، لیکن عالم اسلام کی موجودہ صورتحال مغرب کے لیے کوئی ایسا خطرہ نہیں کہ جس سے وہ پریشان ہوں۔ خلافت عثمانیہ عالم اسلام کی ایک طاقت تھی جسے مغرب نے ایک صدی قبل ختم کر دیا۔ نئی ریاستوں کی تشکیل کے باوجود مغرب مسلمان معاشروں کو زیر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں ثقافتی نیز تعلیمی میدان میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس کے باوجود اسلام اور اس کی تعلیمات میں یہ طاقت ہے کہ اس کے بطن سے ایسے بطل جلیل پیدا ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت مغرب کی بساط کو یکسر پلٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مغرب اچھی طرح سے جانتا ہے کہ 1400 سال قبل دنیا میں ابھرنے والی واحد سپر پاور کے پاس آج بھی وہ نسخہ کیمیاء موجود ہے، جو عالمی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اسی نسخہ کیمیاء کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مغربی ممالک ہمارے ملکوں میں مصروف عمل ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے جن مسلمان مجاہدین کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا تھا، اسے خوف پیدا ہوا یا اس کے ذہن میں منصوبہ آیا کہ یہی جتھے خود امریکہ کے لیے بھی وبال جان بن سکتے ہیں، لہذا وہ اپنے ہی استعمال کیے ہوئے مجاہدین کے پیچھے پڑ گیا۔ مرحوم جنرل حمید گل (ر) اکثر کہا کرتے تھے ’’افغانستان بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے‘‘ ان کے اس جملے کو اگر زیادہ جامع بنایا جائے تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’شدت پسندی بہانہ ہے اسلام اصل نشانہ ہے۔‘‘ امریکہ نے القاعدہ کا نام لے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، افغانستان کے بعد اس نے عراق کا رخ کیا، عراق کا حاکم صدام حسین بھی امریکہ کا استعمال شدہ مہرہ تھا، جسے ایران کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔ صدام کا جرم وہی کیمیائی ہتھیار تھے جو خود مغربی ممالک نے عراق کو ایران کے خلاف لڑی جانے والی 8 سالہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے دئیے تھے۔ عراق میں حکومت کا تحتہ الٹنے کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں نے لیبیا اور شام کا رخ کیا۔
وہ اس وہم کا شکار تھے کہ جیسے انھوں نے افغانستان اور عراق میں اپنی مرضی سے اقوام عالم کو ہانکا اور ان معاشروں کو جانی و مالی نقصان پہنچا کر اپنے قبیح ارادوں کی تکمیل کی، ویسے ہی لیبیا اور شام میں بھی انھیں جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ لیبیا میں تو کرنل قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا، تاہم شام کی جنگ طول کھینچنے لگی۔ شام کا محاذ شام کی سرحدوں سے نکل کر عراق تک پھیل گیا۔ ساتھ کے ساتھ اس محاذ پر مغرب کی نقابیں الٹنی شروع ہوئیں۔ القاعدہ اور داعش کے دشمن ان کی ذیلی تنظیموں کو تربیت، اسلحہ، ٹارگٹ اور دیگر سہولیات دیتے نظر آئے۔ وہی لوگ جن کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا تھا، مختلف ناموں کے ساتھ شام میں بشار الاسد کی حکومت اور عراق میں منتخب حکومت کے خلاف برسر پیکار نظر آئے۔
دور نہ تھا کہ جلد ہی افغانستان، لیبیا کی مانند شام اور عراق بھی ایک مرتبہ پھر روند دیئے جائیں، لیکن اس محاذ پر امریکا کا سامنا فرزند خمینی شہید قاسم سلیمانی سے ہوا۔ شہید قاسم سلیمانی نے ہمسایہ ممالک میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بہت جلد درک کیا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑے۔ شام اور عراق میں جتنی جلدی شہید قاسم سلیمانی نے مقاومت کو جنم دیا، یہ مقاومتی اور فوجی دنیا کی تاریخ کے معجزات میں سے ایک ہے۔ قاسم سلیمانی نے عراق اور شام میں دشمن کی پیش قدمی کو نہ صرف روکا بلکہ اسے ہزیمت سے دوچار کیا۔ قاسم سلیمانی زندہ رہتے تو یقیناً مقاومت نے انتہائی سرعت کے ساتھ دیگر خطوں میں بھی پھیلنا تھا۔ وہ مقاومت کی ایسی کلید تھے، جس کا توڑ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہ تھا۔ یہ وہ شیر نر تھا، جس نے نہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں کو شام اور عراق کی سرزمین پر دھول چٹائی بلکہ امریکا کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو بھی زائل کر دیا۔
جنرل قاسم سلیمانی نے ثابت کیا کہ اگر مسلمان ارادہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ شہید کی شہادت اس کی فتح کا اعلان ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اپنی مادی ترقی، فوجی قوت، سفارتی برتری اور سیاسی تسلط کے باوجود اس قابل نہ تھے کہ اسلام کے اس بطل جلیل سے مقابلہ کرسکتے۔ وہ اپنے وسائل اور گھمنڈ کے ساتھ اس فرزند خمینی ؒ کے سامنے بے بس ہوگئے، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راہ نہ بچی کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے قاسم سلیمانی کی سانسوں کی لڑی توڑ دیں۔ جنرل قاسم سلیمانی نے جاتے جاتے دشمن کے چہرے سے قانون پسندی، عالمی انسانی حقوق اور سفارتی وضع داری کی نقابیں بھی نوچ ڈالیں۔ قاسم سلیمانی کا خون شہید کو تو سرخرو کر ہی گیا، ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے حواریوں کے چہروں پر ذلت کی جو سیاہی مل گیا، اس کا ادراک اہل مغرب کو بہت جلد ہونے والا ہے۔۔۔ انتقام جاری ہے۔
تحریر: سید اسد عباس