قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کہ قرآن پاک سورة مائدہ میں جن بنی اسرائیل کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے اور اس زمین کا اُن کیلئے قرار پانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ بنی اسرائیل صدیوں پہلے نیست و نابود ہو چکے ان کا نام و نشان تک مٹ چکا اور ان کی تعلیمات بھی مسخ ہو چکیں موجودہ نام نہاد یہود اور صہیونیوں کا ان بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ۔ استعمار کی کھلی زیادتی کا شاخسانہ اسرائیل کا وجود ناجائز، غیر قانونی اور غاصبانہ ہے اور یہی اسکی پہچان ہے، اسرائیل کے حق میں دلائل دینے والے بابائے قوم اور شاعر مشرق سے زیادہ دور اندیش نہیں۔ قرآن پاک کی سورہ ہود میں واضح ارشاد ربانی ہے کہ” ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاﺅ گے، اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے، اور تم کو کہیں سے مدد نہ پہنچے گی“
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسرائیل کوتسلیم کرنے کے حوالے سے آنیوالے مختلف بیانات، تبصروں اور حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے 30 مسلمان اور عرب ممالک کے سربراہان کے نام لکھے گئے مکتوب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ مسئلہ فلسطین کو علاقائی یا مذہبی معاملہ بنا کر اس کی اہمیت کم کرنے اور مختلف حیلوں سے اسرائیل کو تسلیم کرنے یا اس کی حمایت کرنے والے یا گمراہ کن پیمانے مرتب کرنیوالے اس کی درندگی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، عصمت دریوںاور مسلسل گھناونے مظالم کو کس پلڑے میں ڈالیں گے؟مقبوضہ بیت المقدس ، مسجد اقصیٰ میں ہونیوالی بے ہودگی ، بدتہذیبی اور بے حرمتی کے حوالے سے کیا جواز تراشیں گے؟اپنی سرزمین سے بے وطن کئے جانےوالے مظلوموں کی آہوں ، سسکیوں اور بے یارومددگار خواتین و بچوں پر ہونیوالے مظالم پر کونسا پردہ ڈالیں گے؟اسرائیلی قابض فوج کے قتل عام اور عالمی قوانین کو نظر انداز کردینے پر کون سے دلائل لائینگے؟
استعمار کی شہ پر ناجائز ریاست بنانے کےلئے انسانی حقوق کی پامالیوں کو کیسے نظر انداز کرینگے؟یہ کیسی انسانی اقدار و وقار ہے ، یہ کیسی معاشرت ہے کہ ظالم ، جابر قوت کےلئے دلائل دیئے جائیں اور علاقائی یا مذہبی معاملہ قرار دے کر پر دہ پوشی کی جائے ؟آج اسرائیل کے حق میں بیان بازی کرنیوالے اور اپنے آپ کو دور اندیش ثابت کرنیوالے کیا خود کو بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ اور شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ سے بڑا دانشور یا دور اندیش تصور کرتے ہیں؟کیا پاکستان کی تشکیل ، بنیادوں اور اساس میں یہ شامل تھا کہ ہر بدمعاشی کے سامنے سرجھکائینگے؟ایک طرف ہولوکاسٹ کے صرف تذکرے پر تک پابندی مگر دوسری جانب اسرائیلی مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنا بھی جرم ؟یہ کیسا دہرا معیار ہے۔انہوںنے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے حالیہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کیا مسلم حکمرانوں اور سنجیدہ فکر شخصیات کی آنکھیں کھولنے اور حقائق کو جاننے کےلئے یہ خط کافی نہیں؟ کیوں انسانیت کے نام نہاد علمبردارو ں اور جمہوریت کے چمپیئنز کوفلسطینی عوام پر روا رکھے جانیوالے ریاستی ظلم ،جبر اور اسرائیلی دہشت گردی نظر نہیں آتی؟انہوںنے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ مسئلہ فلسطین و کشمیر عالمی ضمیروں پر بوجھ ہے، ہم مظلوم اقوام کے ساتھ ہیںکہ جب تک ان کو ان کا حق نہیں مل جاتا، ہم ان کی تحریک حریت کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے ۔