23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد کو برصغیر کے مسلمانوں کی پرجوش حمایت حاصل تھی۔ پورے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی عوامی تحریک چل رہی تھی۔ ہندو مسلم انگریزوں سے آزادی کے لیے متحد تھے، تاہم مسلمان انگریزوں کے انخلا کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل اپنے لیے علیحدہ وطن کے خواہاں تھے۔ اسی آرزو کو 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے عظیم الشان تاریخی جلسے میں ’’قرارداد لاہور‘‘ کی شکل دی گئی۔ پھر سات برس تک برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ولولہ انگیز تحریک برپا کی۔ کانگریس اور اس کے حواریوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی، لیکن عوام کی زور دار اور بے تابانہ خواہش کے آگے کون بند باندھ سکتا تھا۔ آخرکار کانگریس اور انگریزوں کو اس کے سامنےجھکنا پڑا اور ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا۔ ہندوستان: بھارت اور پاکستان دو ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔
ہندوستان انگریزوں سے فوجی طاقت سے آزاد نہیں کروایا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان کانگریس اور انگریزوں کے مقابلے میں لشکر کشی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ آزادی بھرپور عوامی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ عوام کی پرزور حمایت اور ریاست پر اعتماد سے ہی یہ آزادی محفوظ رہ سکتی ہے اور محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر لینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام میں عالمی سازشوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان سے بدظن کیا جاچکا تھا۔ عوام کی اکثریت کو پاکستان کی ریاست پر اعتماد ہوتا اور وہ اس سے پرجوش طور پر وابستہ ہوتے تو مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔
فوجوں کی کامیابی اور ریاستوں کی بقاء و حفاظت کا دار و مدار عوام کی حمایت اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ فوج اہم ہوتی ہے، نہایت اہم ہوتی ہے اور ہر ریاست کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن فوج کو عوام کی طرف سے حمایت اور اعتماد حاصل نہ ہو تو وہ دشمن کے مقابلے میں معرکہ سر نہیں کرسکتی۔ یہ بات پاکستان کے لیے بھی اتنی ہی سچی ہے، جتنی کسی بھی اور ریاست کے لیے۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام اگر اس ریاست سے محبت کرتے ہوں، اس میں ان کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو، انھیں ترقی کے مناسب مواقع حاصل ہوں، انھیں قانونی مساوات دکھائی دیتی ہو، اچھی حکمرانی میسر ہو اور فوج انھیں اپنی لگتی ہو تو وہ اس ریاست سے والہانہ محبت کیوں نہیں کریں گے۔ وطن کی محبت کے فطری جذبے کو عدل و انصاف کی فطری ضرورت پورا کرکے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ جان، مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مساوی شہری حقوق کا حصول ہر شہری کی فطری آرزو ہے، اس آرزو کی تکمیل وطن سے اس کے رشتے کو پائیدار اور محکم کر دیتی ہے۔
ایک ہی ملک کے اندر علیحدگی کی تحریکیں یا کسی ملک سے وسیع پیمانے پر ہجرتیں وطن سے متعلق جذبوں کے سرد پڑ جانے یا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے کی وجہ سے ظہور میں آتی ہیں۔ خود پاکستان کی تحریک اس کی شاہد ہے۔ مسلمانوں نے انگریزوں کے جانے کے بعد کے ہندوستان میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا، اسی لیے تحریک پاکستان برپا ہوئی۔ کانگریس کی قیادت کو کئی ایک مواقع ملے، جن میں وہ مسلمانوں کے لیے اپنی خیر خواہی کو ثابت کرسکتی تھی۔ اس کی قیادت نے تنگ نظری، شدت پسندی اور تعصب کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا۔ آزادی کی خاطر مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں، وہ اسی شعور اور احساس کی بدولت تھیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر 22 کروڑ عوام پاکستان کے ساتھ گہری محبت رکھتے ہوں اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو غلام بنا سکتی ہے اور نہ اس میں دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے یا دلائے رکھنا ضروری ہے کہ اس ملک کی فوج ان کی ہے، ان کے ارمانوں کی محافظ ہے، اس ملک کے آئین، قانون اور مفادات کی نگہبان ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی آرزوئوں کی ترجمان پارلیمان اور حکومت جو فیصلے اس ملک کے مفاد میں کرے، فوج ان کا ساتھ دے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی عوامی نمائندگان اور عوامی حکومت ہی کو طے کرنا چاہیے۔ امریکہ ہو یا چین، بھارت ہو یا ایران، سعودی عرب ہو یا امارات، بحرین ہو یا اردن، اسرائیل ہو یا فلسطین تمام امور میں فیصلے کرنے کا حق اور پالیسی طے کرنے کا حق عوام کا ہے، جسے جائز طریقے سے معرض وجود میں آنے والی پارلیمان ہی بیان کرسکتی ہے۔
یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان ایک کلائنٹ ریاست (Client State) ہے، دوسری ریاستوں یا عالمی طاقتوں کے ایما پر فیصلے کرتی ہے۔ ماضی میں افغانستان کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور امریکی ایما پر جنگی حکمت عملی پر خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بارہا تنقید کرچکے ہیں۔ اپنے عوام کو اعتماد میں نہ لے کر ان امور میں کیے گئے فیصلے ریاست کے استحکام پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔ ماضی کے فیصلوں کے برے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے۔ یہی حال عالمی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی دلدل کا ہے۔ اس میں سے نکلنے کے لیے ہم ایک پائوں اٹھاتے ہیں تو دوسرا زیادہ دھنس جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں جنھیں استعماری جال ہی کہنا چاہیے، نے ہمیں الگ جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں پاکستان آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتا ہے۔
جو ریاست آزادانہ فیصلے نہ کرسکے، اسے کس طرح سے اور کس معنی میں آزاد کہا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لے کر ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں۔ قرض کی زنجیر اور غلط خارجہ پالیسی کی رسی ہے، جس نے ہمیں ایک طرف سے کھینچا تو ہم کوالالمپور کانفرنس میں نہیں جا پائے۔ کیا اسی کو آزاد ریاست کہتے ہیں۔؟ آزادی کا ایک نیا شعور اور ولولہ پیدا کرکے اور ایثار و قربانی کے لیے قوم کو آمادہ کرکے ہم اس غلامی کے بندھن کو توڑ سکتے ہیں۔ عالمی سامراجی جال ہمیں ہمیشہ الجھائے رکھے گا۔ استعماری قرضوں کے بارے میں ہمیں جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ سود کی ادائیگی کو ترک کرکے اصل زر کی واپسی کا اصول اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے عوام کو ایثار اور امتحان کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہوگا۔
یہ عوام آزادی کے موقع پر جتنی بڑی قربانی دے چکے ہیں، وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی عوام آج بھی عظیم قوم میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انقلابی جذبے میں تعمیر کی بھی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ 22 کروڑ عوام میں پیدا ہونے والی بیداری دنیا میں نئے معجزات رقم کرسکتی ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل اس بیداری کی وجہ سے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوامی رضاکار فورس کی شدید ضرورت ہوگی۔ بڑے پیمانے پر عوام کی ابتدائی فوجی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے گا، چونکہ حالیہ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ استعماری سازشوں کے مقابلے کے لیے باقاعدہ افواج کو ناگزیر طور پر عوامی رضاکاروں اور انقلابی تربیت یافتہ محافظین وطن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ایک مثالی فلاحی اور مضبوط مملکت بنانے میں ہماری راہنمائی فرمائے۔
تحریر: سید ثاقب اکبر