عادی سازی با اسرائیل، اتحاد امت کے خلاف سازش

Rate this item
(0 votes)
عادی سازی با اسرائیل، اتحاد امت کے خلاف سازش

عادی سازی با اسرائیل یعنی سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا یا پھر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ ریاستی سطح پر ان تعلقات کو سفارتی تعلقات کہا جاتا ہے کہ جس کے بعد آپس میں تجارت اور دفاع سمیت متعدد ریاست کے شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون اور امداد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں یقیناً نوجوانوں کے اذہان میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہو گا کہ آخر اسرائیل کے ساتھ تعلقات یا عادی سازی کی اس قدر مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔؟ اس سوال کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہمیں یہ بات جان لینی چاہیئے کہ حقیقت میں اسرائیل کیا ہے۔؟ اسرائیل ایک ایسی ناجائز ریاست کا نام ہے، جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین پر 1948ء میں غاصبانہ تسلط حاصل کرکے امریکی و برطانوی آشیر باد کے ذریعے مسلط ہوئی ہے۔ اسرائیل ایک ایسی ریاست کا نام ہرگز نہیں کہ جسے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تشبیہ دیا جا سکے۔

اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے کی بات اس لئے بھی زیادہ کی جاتی ہے کہ ایک ایسی ناجائز ریاست جس کا وجود ہی غاصبانہ ہے اور اپنے قیام کے روز اول سے ہی نہ صرف فلسطین کے عوام کا قتل عام کرنے میں مصروف عمل ہے بلکہ فلسطین کے باہر کئی ایک ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے۔ اسرائیل کے بانیان کا یہ خواب ہے کہ وہ ایک عظیم تر اسرائیل قائم کریں کہ جس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہوں۔ اس کے لئے بنائے جانے والے نقشوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بہرحال سادہ سا جواب یہ ہے کہ کیا کسی چور اور ڈاکو کہ جو آپ کے بھائی کے گھر میں زبردستی گھس گیا ہو اور آپ کے بھائی اور ان کے تمام اہل و عیال کو نکال باہر کیا ہو تو کیا اس چور اور ڈاکو کے ساتھ آپ دوستانہ تعلقات بنا کر زندگی گزارنا پسند کریں گے۔؟ یہی چور اور ڈاکو اسرائیل ہے، جو ہمارے بھائیوں یعنی فلسطینیوں کے گھر میں گھس چکا اور انہیں نکال باہر کیا ہے۔ لہذا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور سفارتی تعلقات کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل کے تمام غلط اور مجرمانہ اقدامات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

مسئلہ فلسطین ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ جو دنیا میں سب سے اولین درجہ کی اہمیت رکھتا ہے۔ فلسطین کے عوام کے ساتھ دنیا کی بڑی طاقتوں نے مشترکہ طور پر نا انصافی کی ہے۔ ان کی زمینوں پر اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا قبلہ اول جو مسلم امہ کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے، آج بھی صہیونیوں کی بدترین سازشوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ قبلہ اول بیت المقدس وہ مقام ہے کہ جہاں شب معراج پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (ص) مسجد الحرام سے یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں اس مقام پر آپ (ص) نے انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔ اب آئے روز صہیونی قبلہ اول کا تقدس پائمال کر رہے ہیں۔ شعائر اللہ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔

فلسطینی عوام کو بے دردی سے قتل و غارت کا نشانہ بنانے کا عمل گذشتہ ایک سو سالوں سے جاری ہے۔ کئی ایک جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔ اسرائیل نے پڑوسی ممالک کی زمینوں پر بھی غاصبانہ تسلط قائم کر لیا ہے۔ داعش جیسے فتنہ کو اسرائیل ہی نے جنم دیا تاکہ خطے کو آگ و خون میں غلطاں کرکے اپنے ناپاک عزائم حاصل کرے۔ ان تمام تر معاملات اور وجوہات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے مابین مسجد اقصیٰ یعنی قبلہ اول بیت المقدس اور فلسطین باہمی اتحاد و یکجہتی کا مظہر رہا ہے۔ دنیا میں چاہے مسلمانوں میں آپس کے کچھ بھی اختلافات موجود ہوں، لیکن جب بھی بات انبیاء علیہم السلام کی مقدس سرزمین فلسطین کی ہو یا قبلہ اول بیت المقدس کی بات ہو تو مسلم امہ کے عوام متحد اور یکجا نظر آتے ہیں۔ اس کی کئی ایک مثالیں دنیا کے ممالک میں موجود ہیں کہ فلسطین و القدس کے پرچم تلے مسلمان اقوام آپس میں متحد و یکجا نظر آتی ہیں۔ اس قسم کے مشاہدات موجودہ دور میں ہمیں خود پاکستان کی سرزمین پر بھی مشاہدے میں آئے ہیں۔

عالمی استعمار اور اس کے شیطانی چیلے چاہے وہ براہ راست اسرائیل کی صورت میں ہوں یا یورپی و مغربی سامراج کی صورت میں ہوں، مسلم امہ کے مابین مسئلہ فلسطین سے متعلق پائے جانے والے اتفاق اور اتحاد سے خائف رہتے ہیں، کیونکہ مسلمان اقوام کا اتحاد اور وحدت ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جو دنیا کی ظالم و استکباری قوتوں کی ناک کو زمین پر رگڑ رہا ہے۔ اسلام و مسلمین کے دشمنوں نے گذشتہ چند سالوں میں متعدد مرتبہ جنگ کے میدانوں میں شکست کھانے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد اور وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے تاکہ مغربی استعمار غاصب اسرائیل کے تحفظ سے متعلق کئے گئے وعدوں کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کو یقین دلوا سکے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

Read 558 times