افغانستان سے بغیر جیتے امریکہ کی پسپائی

Rate this item
(0 votes)
افغانستان سے بغیر جیتے امریکہ کی پسپائی
گذشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ اس سال مئی کے مہینے سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کا غیر مشروط انخلاء شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 11 ستمبر 2021ء تک افغانستان میں موجود تمام امریکی فوجی وطن واپس بلا لئے جائیں گے۔ جو بائیڈن نے یہ کہتے ہوئے افغانستان سے اپنے فوجی انخلاء کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کی کہ اب اس نہ ختم ہونے والی جنگ کو ختم کرنے کا وقت آن پہنچا ہے اور ہم نے افغانستان میں آئندہ کئی نسلوں تک فوجی موجودگی برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی نہیں کر رکھی تھی۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کی صورت میں افغانستان کی سیاسی صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی؟
 
افغانستان کی سیاسی صورتحال اس وقت مزید پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک ملک میں طالبان کا کردار اور مستقبل کے ممکنہ سیاسی اسٹرکچر میں اس کی حیثیت واضح نہیں ہو پائی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کے فیصلے کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ فروری 2020ء میں سابقہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے شدہ معاہدے کی روشنی میں انجام پایا ہے۔ اس معاہدے پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان کیلئے خصوصی ایلچی زلمائے خلیل زاد نے طالبان کے اعلی سطحی وفد سے مذاکرات کی متعدد نشستیں منعقد ہونے کے بعد دستخط کئے تھے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی زلمائے خلیل زاد کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی ہے۔
 
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے زلمائے خلیل زاد کو افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر برقرار رکھے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سابق امریکی حکومت کی افغان پالیسی کو ہی مزید آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف جو بائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد بعض ایسے بیانات دیے تھے جن کے باعث ان کی افغان پالیسی مبہم ہو گئی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا ارادہ نہیں رکھتے۔ حتی انہوں نے 11 فروری کے دن پینٹاگون کے پہلے دورے میں یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء مئی میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کے تحت انجام نہیں پائے گا۔
 
لہذا گذشتہ ہفتے بدھ کے روز افغانستان سے مکمل طور پر فوجی انخلاء کا اعلان درحقیقت جو بائیڈن کی اپنے ابتدائی موقف سے واضح پسپائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ دوحہ معاہدے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس پسماندگی کی وجہ واشنگٹن پوسٹ نے امریکہ کے ایک اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کی زبانی بیان کی ہے۔ اس امریکی عہدیدار کے مطابق اگر امریکہ کی موجودہ حکومت افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں سابقہ حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ طالبان سے جنگ کے دوبارہ آغاز کی صورت میں ظاہر ہو گا اور یہ وہ تلخ نتیجہ ہے جسے موجودہ امریکی صدر بالکل پسند نہیں کرتے۔
 
دراصل طالبان نے ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہونے والی افغانستان امن کانفرنس میں اپنی شرکت کے بارے میں تردید ظاہر کر کے جو بائیڈن کو واضح پیغام دے دیا تھا۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم وردک نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ طالبان جمعہ 15 اپریل کے روز منعقد ہونے والی نشست میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح طالبان کے سابقہ کمانڈر سید اکبر آغا نے طالبان کی جانب سے استنبول کانفرنس میں عدم شرکت کی وجہ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انجام نہ پانا بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: "جب تک افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مسئلہ واضح نہیں ہو جاتا کام آگے نہیں بڑھے گا۔ یہ طالبان کا موقف ہے۔ لہذا میری نظر میں جب تک یہ بات واضح نہیں ہو جاتی ترکی میں کوئی نشست بھی منعقد نہیں ہو گی۔"
 
یوں طالبان نے بائیڈن حکومت کو یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ جب تک دوحہ معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کی جاتی اور خاص طور پر امریکہ کا مکمل فوجی انخلاء انجام نہیں پاتا، طالبان نہ صرف استنبول کی نشست یا کسی اور امن مذاکرات میں حاضر نہیں ہوں گے بلکہ امریکہ کی فوجی تنصیبات پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ یہ جو بائیڈن حکومت کی مطلوبہ صورتحال نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب روس سے اس کے تعلقات شدید تناو کا شکار ہو چکے ہیں اور چین کا مسئلہ بھی امریکہ کیلئے پہلے کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ لہذا اس وقت امریکہ کی ترجیحات افغانستان سے باہر حتی مشرق وسطی سے باہر ہیں اور کسی صورت میں وہ افغانستان میں دوبارہ جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ اسی وجہ سے جو بائیڈن دوحہ معاہدہ قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
 
 تحریر: سید رحیم نعمتی
 
 
Read 483 times